ایک بار مسجد نبویﷺ میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی کہ بھوکا ہوں اور روزگار بھی نہیں ہے ۔آپ ﷺ نے اس شخص سے کہا کہ کیا تیرے پاس کوئی اثاثہ ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس ایک لوہے کا پیالہ ہے جس سے میں پانی پیتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پیالہ لے آئو۔ پھر آپ ﷺنے صحابہ اکرامؓ سے فرمایا کہ کوئی ہے جو اس پیالے کو خریدلے ۔ ایک صحابی ؓنے کہا کہ میں ایک درہم میںخریدتا ہوں۔آپ ﷺنے فرمایا کہ پیالہ مہنگا ہے، اس کے زیادہ دام کون لگائے گا؟پھر ایک صحابیؓ آگے بڑھے اور کہا کہ میں اس کے دو درہم دیتا ہوں۔ آپﷺنے دو درہم اس بے روزگار شخص کو دئیے اور فرمایاکہ ایک درہم کا کلہاڑا خریدو اور ایک درہم کی ایک رسی اور تھوڑی خوراک لے لو اور جنگل میںچلے جائواورلکڑیاں کاٹ کر شہر میں بیچو‘وہ شخص پندرہ روز بعد آپ کی محفل میں حاضر ہوا اور مسکراتے ہوئے بولا:حضورﷺمیںخوشحال ہورہا ہوں۔
اگر ہم اس مثال کو آج کے دور میں دیکھیں اور سوچیں کہ اگر کسی کے پاس قابل ذکر چیز فروخت کیلئے نہیں تو وہ کہاں سے پیسے لائے گا۔ ذہن میں لامحالہ بینک یا کسی نجی تنظیم سے سودی قرض ہی آئے گا۔بہت سی این جی اوز بھی روزگار کے لئے وسائل فراہم کر رہی ہیں لیکن ان کے بارے میں گمان یہی جاتا ہے یہ غیر ملکی امداد پر چلتی ہیں۔ ملک میں اس وقت ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ایسی این جی اوز ہوں گی جو بیرون ملک سے امداد تو لیتی ہوں گی لیکن یہ امداد غریبوں تک پہنچ نہیں پاتی ہو گی۔ ڈالروں اور پائونڈوں میں لی جانے والی یہ امداد کہاں غائب ہو جاتی ہے ‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ ان سینکڑوں ہزاروں این جی اوز میں سے صرف چند درجن معروف ہیں اور زمین پر ان کا کام نظر بھی آتا ہے اور ان چند درجن میں سے چند ایک ایسی ہیں جن کے کام کا ڈنکا پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں بج رہا ہے اور ان میں ایک ''اخوت‘‘ بھی ہے مگر اخوت اور دیگر میں واضح فرق یہ ہے کہ اخوت غیرملکی امداد پر انحصار نہیں کرتی۔ یہ اس اصول کی بنیاد پر قائم ہے کہ اس ملک کے مسائل اس ملک کے عوام ‘ اہل ثروت حضرات ہی حل کر سکتے ہیں۔ پندرہ برس قبل تئیس مارچ کو شروع ہونے والی اس سماجی فلاحی تنظیم اور اس کے روح رواں ڈاکٹر امجد ثاقب کو خود معلوم نہیں ہو گا کہ پندرہ برس بعد اس کا دائرہ کس قدر پھیل چکا ہو گا۔ ان پندرہ برسوں میں اس کا قد کتنا بڑھا ہے یہ جاننے سے قبل آپ دو واقعات پڑھ لیں۔
رفاقت علی کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ جس محلے میں رہتا تھا وہاں ایک شخص نے پستول نکالا اور فائر کھول دیا۔ رفاقت علی قریب سے گزر رہا تھا کہ ایک گولی اس کی ٹانگ میں جا لگی‘ گولی کا زہر پھیل گیا اور ڈاکٹروں نے اس کی ٹانگ کاٹ ڈالی۔ ہسپتال سے فارغ ہوا تو بیروزگاری نے دبوچ لیا۔ اس کے حالات خراب اور بچوں کی تعلیم تک چھوٹ گئی۔ پھر اس نے سنار کا کام سیکھا اور ایک دکان میں ملازم ہو گیا۔ کسی نے اسے اخوت کا بتایا تو اس نے قرض لیا‘ اوزار اور مشین خریدی اور دکان کرائے پر لے لی۔ خدا کے فضل سے کام چل نکلا‘ آمدنی بڑھنے لگی‘ بچے بھی دوبارہ سکول جانے لگے اور گھر کے حالات بھی بہتر ہو گئے۔
تین برس قبل چالیس سالہ اکبر اپنی بیوی چھ بچوں اور والدین کے ہمراہ تین کمروں کے ایک گھر میں رہائش پذیر تھا۔ چند ماہ قبل تک اکبر ہوزری کا کام کرتا تھا مگر حکومت کی مہربانی سے لوڈشیڈنگ شروع ہوئی تو اس کی فیکٹری بند ہو گئی اور وہ بیروزگار ہو گیا۔ بچوں اور والدین کا پیٹ پالنے کیلئے اس نے دیہاڑی پر کسی کا رکشہ چلانا شروع کردیا مگر گزر بسر بہتر نہ ہوئی۔ پھر اس نے مقامی سود خور کے پاس اپنی بھابھی کا زیور رکھوایا اور بدلے میں پندرہ ہزار روپے قرض لیا۔ اس دوران اکبر کی بیٹیوں کی سکول کی فیسیں وقت نہ دینے پر انہیں سکول سے نکالے جانے کے نوٹس آنے لگے۔ دوسری جانب اکبر پر بیس ہزار روپے سود بن گیا تھا۔ایک روز اکبر نے خوفناک فیصلہ کیا۔ رات گئے اس نے اپنی بیوی اور تین بیٹیوںایمان‘ بینش اور نادیہ کو کمرے میں بلایا،سب کے سامنے گلاس رکھے اور ان میں پانی ڈال کر زہریلی گولیاں ملادیں۔ پینے پرحالت غیر ہوئی تو انہیں جناح ہسپتال داخل کروایا گیا جہاں اکبر ‘ نادیہ اور ایمان چل بسے جبکہ مزمل بی بی اور اس کی بیٹی بینش کو بچا لیا گیا۔ اس اقدام پر پورا گائوں سوگ میں ڈوب گیا اور ہر کوئی سود خور کو لعن طعن کرتا رہا۔ بچ جانے والے بچے باپ اور بہنوں کی لاشوں سے لپٹ لپٹ کر روتے پیٹتے رہے۔ قرض کی ضرورت ہر کسی کو پڑتی ہے لیکن اکبر کو چاہیے تھا کہ وہ سود خور سے قرض لینے کی بجائے ایسے اداروں سے رابطہ کرتا جو بلا سود قرض دیتے ہیں۔ اگر وہ اپنے علاقے میں موجود اخوت کے آفس چلا جاتا اور وہاں سے بلا سود قرض لیتا تو اس کے کاروبار میں برکت بھی پڑتی اور گھریلوحالات بھی بہتر ہوجاتے۔
اس سال اخوت کے پندرہ برس مکمل ہو گئے اور ان پندرہ برسوں میں یہ چودہ لاکھ ہنرمندوں میں 27ارب روپے بطور قرض تقسیم کر چکا ہے۔ یہ لاکھوں خاندانوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کر چکا ہے۔ آپ حیران ہوں گے‘ یہ دنیا کی واحد غیر سیاسی فنانس سکیم ہے جس کی ریکوری ننانوے فیصد سے زائد ہے۔ اخوت کا ماڈل بڑا دلچسپ ہے۔ یہ لینے والے کو دینے والے کے طور پر دیکھتا ہے اور اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر سال کروڑوں روپے
کے عطیات وہ لوگ دیتے ہیں جو دس بیس ہزار روپے سے کاروبار کا آغاز کرتے ہیں۔ آج اخوت کالج اور یونیورسٹی علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔ حکومت پنجاب کی خود روزگار سکیم اخوت کی معاونت سے شاندار نتائج دے رہی ہے۔ اخوت کا ماڈل دنیا کی کئی یونیورسٹیز میں پڑھایا جارہا ہے اور کئی ممالک میں اپنا لیا گیا ہے‘ ایسا ہی ایک ماڈل بنگلہ دیش میں گرامین بینک کے صدر ڈاکٹر یونس نے شروع کیا تھا‘ اس کی بنیاد تیس چالیس فیصد شرح سود پر تھی چنانچہ آج یہ نظام زمین بوس ہو چکا ہے جبکہ دوسری طرف اخوت ایسا تناور درخت بن چکا ہے جس کی جڑیں زمین میں اور شاخیں آسمان پر پھیلی ہوئی ہیں لیکن کیا اس درخت کو سیراب کرنے کیلئے ہم نے اپنا حصہ ڈالا ؟ یہ آج کا سوال ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں‘ اس میں سینکڑوں لوگوں کے پاس دس دس ارب فالتو پڑے ہیں‘ یہ لوگ پانامہ جیسے گمنام جزیرے ڈھونڈتے پھرتے ہیں جہاں اپنی جائز ناجائز دولت چھپا سکیں لیکن یہیں کروڑوں لوگوں ایسے بھی ہیں جو لکڑیاں کاٹنے کے لئے پانچ سو روپے کا کلہاڑا تک نہیں خرید سکتے۔ کیا رمضان المبارک میں کہ جب ہر نفل کا ثواب فرض کے برابر ہو چکا اور جب اللہ کی راہ میں دیا گیا ایک ہزار ستر ہزار بن سکتا ہے تو ہم اللہ کے اس فنڈ میں ان لوگوں کیلئے حصہ نہیں ڈالیں گے جو بھیک مانگنے کی بجائے حق حلال کی روزی کمانا چاہتے ہیں مگر اس کی استطاعت نہیں رکھتے؟