بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ جمعہ کی شب ترک عوام نے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر یہ مقولہ درست ثابت کر دیا اور یہ اعلان بھی کر دیاکہ انہیں کسی فوجی حکمران کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے معاملات خود چلا اور نبھا سکتے ہیں۔ فوج اپنا کام بہترین طریقے سے انجام دے اور سیاستدانوں کو اپنے حصے کا کام کرنے دے۔ اگر سیاستدانوں میں خامیاں ہوں ‘ اگر سیاسی نظام کمزور ہو‘ اگر انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہو اور اگر انتخابات میں دھاندلی کے مسائل ہوں تو ان سب مسائل سے سیاستدان اور عوام مل کر نمٹ سکتے ہیں۔ ترکی ہمارے ان سیاستدانوں کے لئے بھی قابل مثال ہے جو ہر جائز ناجائز طریقے سے اقتدار میں آنے کے خواہشمند ہیں۔ایک طرف وہ ہمیں دنیا بھر کی جمہوریتوں کے درس دیتے ہیں دوسری طرف فوج کو بھی خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔
طیب اردوان کی جدوجہد بھی شاندار ہے۔ یہ شخص بچپن میں جیب خرچ کے لئے شہر کی گلیوں میں پھیری لگایا کرتا تھا‘ بچپن میں ہی وہ خوددار ی کے ساتھ جینا سیکھ چکا تھا اور یہ بھی سیکھ چکا تھا کہ اگر آپ کچھ کرنا چاہیں توچاہے کوئی بھی طوفان آپ کے راستے میں آئے‘ اگر آپ ثابت قدم رہیں گے تو بڑے سے بڑا بحران بھی آپ کا بال بیکا نہیں کر سکتاا ور آپ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو آپ کرنے کی ٹھان لیں۔ اردوان بھی اپنی زندگی میں کچھ الگ کرنا چاہتا تھا۔زمانہ طالب علمی میں سیاست میں قدم رکھا اور ایک سیاسی جماعت میںشمولیت اختیار کر لی۔ پھر ترکی کی سڑکوں نے وہ سورج بھی دیکھا جب وہ اپنے شہر کامیئر منتخب ہوگیا۔یہاں سے اس کی قیادت کی قابلیت اور خود کو دوسروں سے مختلف کر ثابت کرنے کا امتحان شروع ہوگیا۔ اس نے شہر کی حالت بدلنے کی ٹھان لی اور چند انقلابی فیصلے کئے۔ یہ فیصلے انتہائی سادہ اور قابل عمل تھے۔اس نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا‘کرپشن پر قابو پایا‘ سادہ طرز زندگی کو فروغ دیا۔ماحولیاتی آلودگی اور شہر کی صفائی کو اولین ترجیح دی۔وہ سمجھتا تھا گندگی میں انسان کی سوچ بھی آلودہ ہو جاتی ہے چنانچہ یہ مرحلہ بھی اس نے بہت ہی کم وقت میں پورا کر دکھایا‘ اس کی انتھک جدوجہد نے شہر کا نقشہ بدل دیا۔ ان چند اقدامات نے اسے عوام میں مقبول کر دیا۔ جب اس نے ایک مشہور نظم پڑھی تو اس پر یہ الزام لگا کہ اس نے ترکی کی سیکولرحیثیت کو نقصان پہنچایا ہے لہٰذا اسے جیل بھیج دیا گیا اور اس پر سیاست کرنے پر مخصوص مدت کے لئے پابندی لگا دی گئی لیکن وہ مایوس نہ ہوا بلکہ اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ اپنی پارٹی کی بنیاد رکھی اور انتخابات میں حصہ لیا‘ اس کی جماعت جیت گئی لیکن اس پر لگنے والی
پابندی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔اس نے اپنے ایک بااعتماد ساتھی کو وزیر اعظم نامزد کر دیا۔ انتخابات میں بے ضابطگیوں کا الزام لگا‘ تحقیقات ہوئیں اور بہت تھوڑے پیمانے پر ہونے والی بے ضابطگیوں کی بدولت نئے انتخابات کا اعلان کر دیا گیا اور اس کی جماعت نے پہلے سے زیادہ کامیابی سمیٹی۔ اس نے وزارت عظمیٰ سنبھالی اور بجٹ کا بڑا حصہ قوم کی تعلیم و تربیت کے لئے مختص کر دیا‘ صحت کے میدان میں بھر پور سرمایہ کاری کی اور صحت مندانہ سرگرمیوں کو فروغ دیا‘ انفراسٹرکچر کے میدان میں بھی بھرپور سرمایہ کاری کی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کاملک ترقی کی منازل طے کرتا چلا گیا ۔
طیب اردوان سے عوام کو صرف اس لئے محبت نہیں تھی کہ وہ فوج کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ طیب نے ان کے ملک کو ترقی کی جس شاہراہ پر ڈالا‘ اس کا ثمر بھی طیب اردوان کوایک دن ملنا ہی تھا۔ترک فوج کے شب خون میں ناکامی کے بعد پاکستان میں بہت کچھ کہنے اور سننے کو ملا۔ اس تناظر میں عمران خان کا یہ تازہ بیان کہ یہاں فوج آئی تو عوام خوشی منائیں گے اور مٹھائیاں بانٹیں گے‘ باعث تعجب بھی تھا اور قابل افسوس بھی۔ یہ بیان اگر شیخ رشید ‘ چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے آیا ہوتا تو حیرت کی بات نہ تھی۔ یہ اور بات ہے کہ جنرل مشرف اقتدار میں آئے تو عمران خان نے ان کی بھی حمایت کی تھی۔ پھر ایک انتخابات کا بائیکاٹ بھی کیا۔ اس غلطی کا انہیں احساس ہوا تو دوبارہ الیکشن کی طرف آئے۔ اب ایک صوبے میں ان کی حکومت ہے۔ ایک طرح سے وہ جمہوریت میں خود حصے دار ہیں‘ وہ اپنے صوبے میں ترقی کا جال بچھا سکتے ہیں‘ لوگوں کو طیب اردوان کی طرح ایک بہترین معاشرہ دے سکتے ہیں لیکن ان کی زیادہ تر توانائیاں چنیدہ مخالفین پر تنقید میں لگ رہی ہیں۔ وہ بھارت کی مثال کو ہی دیکھ لیں جہاں مودی کی ترقی اور اقتدار تک پہنچ سامنے کی بات ہے۔ انہوں نے گجرات کو مثالی بنایا۔ وہاں دنیا بھر کی آئی ٹی کمپنیوں کا جال بچھایا۔ سرمایہ کاری آنے سے مقامی لوگ خوشحال ہوئے۔ ملازمتیں نکلیں۔ لوگ اپنے پائوں پر کھڑے ہونے لگے اور گجرات اور مودی کا ڈنکا پوری دنیا میں بجنے لگا۔ عمران خان اگر سمجھتے ہیں کہ فوج آئی تو نواز شریف نہیں بچ پائیں گے اور لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے تو سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں ان کی خیبرپختونخوا حکومت قائم رہے گی؟یا پھر وہ سمجھتے ہیں کہ اس طریقے سے انہیں اقتدار حاصل ہو جائے گا جس کا خواب وہ برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا انہوں نے جمہوریت کے لئے جو جدوجہد کی ہے اور جس طرح عوام کو مثالیں دی ہیں‘ عوام ان کو بھول جائیں۔ مانا کہ حکمرانوں میں لاکھ خرابیاں ہوں گی‘ یہ سسٹم بھی کوئی بہت زیادہ کامیاب نہیں ہے‘ لوگوں کو ابھی بھی بہت سی مشکلات کا سامنا ہے‘ مہنگائی‘ لاقانونیت اور بیروزگاری نے ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے لیکن کیا اس کا حل فوج نکالے گی جو پہلے ہی کئی محاذوں پر سرگرم عمل ہے۔ ویسے بھی جن لوگوں نے سولہ سال قبل یہاں مٹھائیاں بانٹی تھیں ہم نے ان کا حال بھی چند مہینوں میں دیکھ لیا۔ تب بھی بڑے بڑے مگرمچھوں کو چھوڑ دیا گیااور چھوٹے چھوٹے پچاس ہزار کے قرضے نہ دینے والوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ چند ہی برسوں میں وہی عوام جو مٹھائیاں بانٹ رہے تھے‘ کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ کرنے لگے اور جنرل مشرف سے جان چھوٹنے کی دعائیں مانگنے لگے۔ آج تک وہ اپنی ان مٹھائیوں اور بھنگڑوں پر شرمندہ ہیں۔ کیا ہم وہی کہانی دہرانا چاہتے ہیں ؟ کیا ہم وہی منظر اس ملک میں دوبارہ دیکھنا چاہتے ہیں؟اگرہماری سیاسی جماعتیں آمریت کو خوش آمدید کہنے کی بجائے جمہوریت کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں تو کیا یہ ملک کے لئے زیادہ بہتر نہیں ہو گا؟