کیا آزاد کشمیر انتخابات کے نتائج سے آنکھیں کھل گئیں اور کیا ان نتائج میں اگلے عام الیکشن کا عکس واضح ہے؟ یہ سوال صرف تحریک انصاف ہی نہیں پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے سر پر بھی ہتھوڑے کی طرح برس رہا ہے۔ یہ وہ ''کانٹے دار‘‘ مقابلہ تھا جس کی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں۔
اصل کانٹے دار مقابلہ پیپلزپارٹی ‘تحریک انصاف‘ مسلم کانفرنس اور جے کے پی پی میں ہوا۔ تحریک انصاف کو دو سیٹیں ملنے سے اس کا مورال ضرور بڑھا ہو گا کیونکہ جہاں پیپلزپارٹی اپنی حکومت ہوتے ہوئی بھی دو سیٹیں لینے میں کامیاب ہو سکی وہاں تحریک انصاف کا اس کے برابر آنا بڑی کامیابی شمار کی جا سکتی ہے۔سب سے بڑا سیٹ بیک بیرسٹر سلطان کو پہنچا جو گزشتہ پچیس برس سے ناقابل شکست چلے آ رہے تھے۔ اسے ان کی قسمت کہیے یا پھر قدرت کا کھیل‘ کہ تحریک انصاف میں قدم رکھنا ان کے لئے اتنا نامبارک ثابت ہوا کہ موصوف کو اپنی سیٹ سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔ آزاد کشمیر الیکشن سے صرف دو روز قبل تحریک انصاف کے سربراہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح آزاد کشمیر میں جیت کے بلند و بانگ دعوے کر رہے تھے ‘ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سات اگست سے پاناما لیکس پر تحریک چلانے کا بھی اعلان کیا تھا۔ حکومت کی بھی خوش قسمتی تھی کہ پاناما لیکس کے مسئلے کے فوراً بعد رمضان المبارک آ گیا اور اس سے قبل میاں نواز شریف علاج کے لئے بیرون ملک چلے گئے۔ گرمی اور حبس بھی زوروں پر تھا اور انہی وجوہات کے باعث خان صاحب نے پانامہ پر تحریک موخر کر دی تھی۔
ٹی او آرز کا مسئلہ بھی ابھی تک وہیں کا وہیں اٹکا ہوا ہے۔ اس کی تمام تر ذمہ داری خان صاحب نے شاہ محمود قریشی پر ڈالی ہوئی ہے۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں! حکومت اور پیپلزپارٹی کو اور کیا چاہیے تھا۔ جب کوئی زخم آ جائے تو فوری طور پر اس کی حدت اور شدت کو کم کیا جاتا ہے۔ چنانچہ پاناما کا مسئلہ جو آج سے دو اڑھائی ماہ قبل آگ کی طرح تپ رہا تھا‘ اس کی شدت کو وقت کے مرہم سے کم کیا گیا اور اب یہ جھاگ کی طرح بیٹھ چکا ہے ۔ اپوزیشن اس معاملے میں واضح طور پر بکھری نظر آتی ہے۔ شروع میں جس دھواں دار انداز میں اعتزاز احسن سامنے آئے اس سے لگتا تھا جیسے پیپلزپارٹی واقعی حکومت کو ٹف ٹائم دے گی ۔ لیکن آہستہ آہستہ جب ٹی او آر کمیٹی کے اجلاسوں کی تاریخیں پڑنے لگ گئیں تو منظر واضح ہو گیا۔ پیپلزپارٹی نے تحریک انصاف کے ساتھ بھی خوب کھیل کھیلا۔ تحریک انصاف کا موقف تھا کہ اس مرتبہ ہم سولو فلائٹ نہیں کریں گے کیونکہ ہمیں ہمیشہ اسی کا طعنہ دیا جاتا ہے ۔ دیکھا جائے تو یہاں پر ہی تو انہیں سولوفلائٹ کرنی چاہیے تھی کہ ان کا موقف اور ان کے مطالبات اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے مختلف تھے۔ پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتیں بھی وزیراعظم کا احتساب چاہتی ہیں لیکن اس حد تک کہ احتساب برائے نام ہو اور وزیراعظم کو کوئی ضرر بھی نہ پہنچے۔ اس کی نسبت تحریک انصاف کو ایسی کوئی پریشانی نہیں ہونی
چاہیے تھی۔ جب حکومت یہ اصرار کرتی ہے کہ قرضے معافی کی شقیں بھی ٹی او آر میں شامل کی جانی چاہئیں اور احتساب کا دائرہ پھیلایا جائے تو اسے اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عمران خان صرف وزیراعظم یا ان کے بچوں کے احتساب پر ہی زور دیتے رہیں گے اور اس سے ایک انچ آگے پیچھے نہیں ہٹیں گے تو بات آگے نہیں بڑھے گی۔ سیاست میں کوئی چیز حرف ِآخر نہیں ہوتی۔ خان صاحب کو کچھ دے اور کچھ لے کی بنیاد پر آگے بڑھنا سیکھنا ہو گا۔ احتجاج اور دھرنے کی سیاست کا انجام انہوں نے دیکھ لیا۔ ان سے قبل یہ کام جماعت اسلامی‘ پاکستان عوامی تحریک اور دیگر جماعتیں بھی کر چکی ہیں چنانچہ ان کا سیاسی قد کاٹھ سب کے سامنے ہے۔ آج وہ پریشر گروپس کی شکل اختیار کر چکیں۔ ایوان میں ان کی نمائندگی بھی
موجود نہیں۔ جبکہ تحریک انصاف جتنی بھی ایوان میں موجود ہے اس نے کبھی پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں جانا یا پبلک اکائونٹس کمیٹی کے آڈٹ پیرے پڑھ کر حکومت سے جواب طلبی کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔ ان کا زیادہ زور صرف دھرنوں اور میڈیا پر تشہیر میں رہا ہے یا پھر سوشل میڈیا کی دنیا میں ان کا سکہ چلتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے کروڑوں لوگوں کو حقیقت اور ووٹوں کی شکل میں کون تبدیل کرے گا۔ جنرل مشرف کے بھی فیس بک پر کروڑوں فین تھے۔ انہیں بھی زعم تھا کہ وہ پاکستان آئیں گے تو ان کے سارے نہیں تو ایک چوتھائی فین ایئرپورٹ پر آ گئے تو ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان کا استقبال کرے گا اور یوں وہ مخالفین کے دانت کھٹے کردیں گے۔ مگر موصوف ایئرپورٹ پر اترئے تو دس بارہ اجنبی افراد ان کا منہ تک رہے تھے۔ چنانچہ آزاد کشمیر انتخابات کے نتائج کا پہلا سبق یہی ہے کہ تحریک انصاف کو بالخصوص خوابوں کی دنیا سے باہر آ جانا چاہیے۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ ان کے رہنما عوامی دلچسپی کے کام کریں‘ عوام میں جائیں اور اپنی اور مخالفین کی زمینی طاقت کا موازنہ کریں۔ تحریک انصاف کے ہاتھ خیبرپختونخوا کی شکل میں جو سنہری موقع آیا تھا اس کا اس نے کچھ فائدہ نہ اٹھایا۔ جس طرح خان صاحب نے شوکت خانم ہسپتال کو کامیابی سے چلایا‘ اگر وہ صرف دو تین ایشوز پر ہی فوکس کر لیتے اور ہسپتالوں اور تعلیم کے نظام میں ہی انقلابی تبدیلی لے آتے تب بھی ان کے پاس پیش کرنے کے لئے ایک مثال ہوتی۔ یہ ہتھیار ان کے بہت کام آتا اور لوگ کہتے کہ واقعی اگر کوئی شخص ایک صوبے کو بہتر بنا سکتا ہے‘ اس کی حالت تبدیل کر سکتا ہے تو وہ مرکز میں آ کر پورے ملک کو بھی بدل سکتا ہے۔ آئندہ انتخابات میں دو برس سے کم وقت باقی ہے۔ خان صاحب پاناما پر تحریک شروع کر دیں گے تو ان کی توجہ اپنے صوبے کے ترقیاتی کاموں سے ہٹ جائے گی جبکہ حکومت کے پاس وسائل بھی زیادہ ہیں جن سے وہ زیرتعمیر منصوبوں کو تیزی سے مکمل کر لے گی جس کے بعد اخلاقی اور زمینی حقائق آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ نون کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔ خان صاحب زیادہ سے زیادہ فوج کی انتخابی نظام میں موجودگی اور شفاف الیکشن کا مطالبہ کریں گے اور اگر ان کی حسب خواہش شفاف انتخابات بھی ہو گئے مگر آزاد کشمیر کی طرح مسلم لیگ نون نے دوبارہ کامیابی سمیٹ لی تو وہ کیا کریں گے؟ دھاندلی کا شور وہ مچا نہیں سکیں گے۔ اِکا دُکا واقعات ہو بھی گئے تو ان کی بنیاد پر ری الیکشن تو ممکن نہ ہو گا اور اگر چند سیٹوں پر ضمنی الیکشن میں دوبارہ نون لیگ جیت گئی تو تحریک انصاف کا پتہ ہمیشہ کے لئے صاف ہو جائے گا۔ اس ساری صورتحال میں بہتر ہو گا کہ خان صاحب تحریک ضرور چلائیں‘ احتجاج بھی کریں لیکن اپنی توانائیاں زمینی حقائق کے مطابق درست سمت میں لگائیں‘ پارٹی منظم کریں اور محض چنیدہ مخالفین کی کردار کشی کے بل پر کامیابی کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔
یقینِ واثق ہے کہ خان صاحب ماضی کی غلطیوں سے نہیں سیکھیں گے‘ وہ اپنا طرز عمل تبدیل نہیں کریں گے ‘آزاد کشمیر کی طرح آئندہ انتخابات بھی مسلم لیگ نون ہی واضح اکثریت سے جیتے گی اور خان صاحب یونہی احتجاج کرتے اور ہاتھ ملتے رہ جائیں گے!