گزشتہ روز تحریک احتساب کا قافلہ پشاور سے اٹک کے لئے روانہ ہوا تو بعض ٹی وی کیمروں نے کچھ گاڑیوں کی نمبرپلیٹس کو فوکس کر لیا۔ یہ صوبہ خیبرپختونخوا کی چند سرکاری گاڑیاں تھیں۔ یہ اس تحریک کا آغاز تھا جو دوسروں کا احتساب کرنے کے لئے نکلی تھی۔یہ میڈیا بھی بڑی ظالم چیز ہے۔ کبھی کسی کے لئے رحمت بنتا ہے تو کبھی زحمت۔ یہی میڈیا جب گھنٹوں براہ راست نشریات کے ذریعے دھرنوں اور جلسوں کو وقت دیتاہے‘ اپنے کروڑوں کے اشتہارات کو قربان کرتا ہے تو سیاسی جماعتوں کے قد کاٹھ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں شاید میڈیا ہمارا محتاج ہے اور یہ ہمیشہ ہمارے مثبت پہلو ہی دکھائے گا۔ اس وقت یہ ساری خوش فہمیاں ہوا ہو جاتی ہیں جب یہی کیمرے سیاسی جماعتوں کی کمزوریوں کو آشکار کرنے لگتے ہیں۔ تازہ مثال کے لیے آپ سندھ کے نئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا وہ بیان دیکھ لیں جس میں انہوں نے کہا کہ وہ وزیراعلیٰ بنے تو وی آئی پی پروٹوکول نہیں لیں گے۔ان کے حلف سے چند روز قبل تک میڈیا قائم علی شاہ کے ساتھ خوب انجوائے کر رہا تھا‘ کبھی ان کی عمر کے حوالے سے مزاحیہ خاکے چلائے جاتے تو کبھی ان کے وہ کلپ دکھائے جاتے جن میں وہ دوران خطاب اونگھتے ‘ان کی زبان پھسلتی یا چلتے چلتے وہ خود پھسل جاتے۔ مراد علی شاہ بھی یہ سب ٹی وی پر دیکھتے ہوں گے اور دل ہی دل میں ہنستے رہے ہوں گے۔ اس دوران میڈیا نے مراد علی شاہ کے ممکنہ وزیراعلیٰ بننے کی خبریں دیں تو وہ فخر سے پھولے نہیں سمائے ہوں گے ۔ بہرحال مراد علی شاہ وزیراعلیٰ بن
گئے تو پہلے ہی روز دو مختلف خبریں ان کا استقبال کرنے کو تیار تھیں۔ ایک قائد اعظم کے مزار پر دُعا کے لئے ہاتھ نہ اٹھانا اور بھٹوز کے مزار پر ہاتھ بلند کرنا اور دوسری خبربیالیس گاڑیوں کا وہ قافلہ تھا جس کے بارے میں مراد علی شاہ نے علی الاعلان میڈیا کے سامنے کہا کہ وہ کبھی پروٹوکول نہیں لیں گے۔ اس طرح کے اعلانات ہر کوئی لیڈر اپنے اننگ کے آغاز میں کرتا ہے۔ مثلاً ضیا الحق نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد ہی کہہ دیا تھا کہ وہ نوے دن میں انتخابات کرائیں گے ۔ یہ اور بات ہے کہ یہ نوے دن گیارہ سال پر محیط ہو گئے تھے۔ اسی طرح ہمارے محبوب لیڈر عمران خان بھی کئی مرتبہ نوے روز میں کرپشن کے خاتمے کا اعلان کر چکے ہیںلیکن اقتدار میں آ کر حقیقت ان پر آشکار ہوئی۔ میڈیا کو گھر کی باندی سمجھ لینا بھی درست نہیں جیسا کہ تحریک انصاف نے دو سال قبل دھرنے میں سمجھ لیا تھا۔ اب گزشتہ روز اگر تحریک احتساب کے قافلے میں تیس چالیس گاڑیاں تھیں تو میڈیا چاہنے کے باوجود انہیں تین چار ہزار گاڑیاں ثابت نہیں کر سکتا تھا اور جہاں تک سرکاری گاڑیوں کی قافلے میں شمولیت کی بات ہے تو اس بارے میں تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
بظاہر یہ تحریک کرپشن کے خاتمے اور پاناما لیکس کے حوالے سے چلائی جا رہی ہے لیکن صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ تحریک انصاف کے احیا کی ایک کوشش ہے یا پھر اگلے الیکشن کی انتخابی مہم جس میں مخالفین پر تنقید کے نشتر چلا کر انہیں کمزور کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔ تحریک انصاف کی یہ سٹریٹیجی اس لئے کامیاب ہوتی نہیں نظر آ رہی کیونکہ وہ ماضی میں اس کے نتائج دیکھ چکی ہے۔ دھرنے میں انہوں نے پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ مل کر حکمرانوں کو رج کے لتاڑا۔ اس کے بعد مگر کیا ہوا؟ جتنے ضمنی انتخابات ہوئے‘ زیادہ تر نون لیگ نے جیتے۔ اسی طرح آزاد کشمیر کے انتخابات نے بھی آئینہ دکھلا دیا۔ ضرورت اس وقت یہ تھی کہ پارٹی پہلے اپنی صفوں میں موجود انتشار کو ختم کرتی اور صوبے میں ہنگامی کیفیت کا اعلان کر دیتی۔ تعلیم‘ صحت اور روزگار کے حوالے سے ایمرجنسی لگائی جاتی تو یہ پچاس دھرنوں اور جلوسوں سے بہتر ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ گزشتہ روز تحریک احتساب کے قافلے کو وہ پذیرائی حاصل نہ ہوئی۔ قافلہ مختلف جگہوں پر رکتا تو تماشا دیکھنے والے بھی کھڑے ہو جاتے اور وہ کارکن بھی بھنگڑے ڈالتے جن کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔ یہ منظر عوام کے لئے نئے نہ تھے۔ رہنمائوں پر گل پاشی ہوتی اور خان صاحب چند منٹ خطاب کرتے۔ وہ کرپشن پر حکمرانوں کو آڑے ہاتھوں لیتے اور آگے روانہ ہو جاتے۔ اس کے جواب میں نون لیگ نے بھی پشاور میں ایک بڑا جلسہ کیا۔ انہوں نے بھی پچاس ہزار کرسیوں کا دعویٰ کیا۔ پارٹی پرچم بھی اسی طرح لہرائے جا رہے تھے۔ گویا تحریک انصاف کو اسی کی زبان میں جواب دیاگیا۔ اس دوران میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب کا بیان آیا کہ وہ عمران خان کی تحریک احتساب کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی اپنی جماعت کے لوگ کرپشن سے پاک ہیں۔ سراج الحق صاحب کی بات پر اعتبار کیا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک لیڈر کا محض کرپشن سے پاک ہونا کافی ہے۔کیا اہلیت ‘ ذہانت اور معیار کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ ایک شخص بڑا ذہین اور باکردار ہے‘ فلسفہ اور تاریخ کا ماہر ہے‘ اگر آپ اس کو بوئنگ جہاز کے کاک پٹ میں بٹھا دیں گے تو وہ کیا کرے گا؟ کیا وہ کسی ماہر کی طرح جہاز کو اڑا سکے گا؟ اسی طرح کسی ڈاکٹر کی جگہ انجینئراور انجینئرکی جگہ ترکھان لے سکتا ہے؟ کیا انجینئر اور ترکھان کے لئے اتنا ہی کافی ہو گا کہ وہ شریف اور دیانتدار ہوں چاہے انہیں یہ کام نہ بھی آتا ہو۔ ہماری سیاست کی بنیاد بھی یہی ہے۔ خان صاحب کرکٹ میں ماہر تھے‘ انہیں چاہیے تھا وہ پاکستان میں کرکٹ کو مضبوط کرتے‘ انہوں نے شوکت خانم ہسپتال کامیابی سے چلایا‘ وہ اپنے صوبے میں سرکاری ہسپتالوں میں انقلاب لے آتے‘ وہ نمل یونیورسٹی چلا رہے ہیں‘ وہ اپنے صوبے میں جدید یونیورسٹیوں کا جال بچھا دیتے۔ یہ وہ تین شعبے تھے جن پر انہیں خصوصی دسترس اور تجربہ حاصل تھا۔ رہی بات احتجاج کرنے اور مخالفین کی کرپشن آشکار کرنے کی تو اس کے لئے ساری توانائیاں کھپانے کی ضرورت نہ تھی۔ آئندہ انتخابات میں ووٹ اس بنیاد پر نہیں ملنے کہ کس نے کس پر کتنے الزامات لگائے۔ گھر گھر جا کرانتخابی مہم چلانے کی تحریک انصاف نے کبھی کوشش کی نہ اسے اہمیت دی۔ خود ہمارے علاقے میں جب انتخابات ہوئے تو مجال ہے کہ تحریک انصاف کا کوئی ورکر آیا ہو۔ البتہ نون لیگ والے آئے اور کئی بار آئے۔ اب اس طرح کی کمزوریوں کے بعد بھی تحریک انصاف آئندہ الیکشن جیتنے کے خواب دیکھ رہی ہے تو اس کی مرضی۔جن داخلی اور بین الاقوامی ایشوز پر سیاست ہونی چاہیے اس پر بھی تحریک انصاف کی نظر نہیں ہے۔ کشمیر کے حوالے سے بھی اس کا کوئی بھرپور احتجاج سامنے نہیں آیا۔ اب گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف نے زخمی کشمیریوں سے جس طرح ہمدردی کا اظہار کیا ہے‘اس سے ظاہر ہے ان کی مقبولیت بڑھے گی۔ اس طرح کے کام عمران خان صاحب بھی کر سکتے تھے‘ مگر افسوس کہ انہوں نے احتجاج اور دھرنوں کو ہی سب کچھ سمجھ رکھا ہے۔ قومی معاملات پر ان کی پالیسیاں بھی واضح نہیں۔ دہشت گردی کے حوالے سے بھی وہ یکسو نہیں اور مختلف موقف اپناتے رہے ہیں۔ ان کا یہ اندازِ سیاست حکمران جماعت کو کامیابی کے زینے تک پہنچا کے چھوڑ ے گا۔