دہشت گردی اور جرائم کو روکنے کے لئے سائبر کرائم بل کیا منظور ہوا گویا ایک طوفان برپا ہو گیا۔ جو لوگ سوشل میڈیا پر مزے لے لے کر چیزیں آگے بھیجتے تھے‘ جو افواہوں پر حقائق کا لیپ کرنے کی کوشش کرتے تھے‘ وہ بپھرے بیٹھے ہیں او راسے آزادی رائے کے خلاف قدغن قرار دے رہے ہیں۔ شاید وہ نہیں جانتے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی افادیت ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے گنوائی ہے‘ اسے خود ہی مشکوک بنایا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی چیز مادر پدر آزاد نہیں۔ ہر ایک کی حدود قیود مقرر ہیں۔ کسی مہذب معاشرے میں بھی وہ طوفان بدتمیزی برپا نہیں ہوتا جو ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر ہوتا ہے۔ ہم نے اسے وقت گزاری کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ ایک دوسرے کو محظوظ کرنے کے لئے ہم ایسا مواد شیئر کرتے ہیں جس سے زیادہ سے زیادہ لائیکس اور کمٹنس ملیں۔ گزشتہ دنوں کشمیر میں برہان وانی کی شہادت کے بعد جو نئی لہر چلی اس سے متعلقہ فیس بک پر ایک ویڈیو پوسٹ دیکھی۔ نیچے کیپشن تھا: دیکھیں بھارتی فوج کشمیری بیٹیوں پر کس قدر ظلم ڈھا رہی ہے۔ ویڈیو میں چند فوجی ایک گھر میں گھستے ہیں اور دو خواتین کو دھکے مارتے ہوئے باہر لے آتے ہیں۔ ویڈیو کے نیچے جو کمنٹس ہیں ان میں بھی بھارتی فوجیوں کی بربریت پر غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ویڈیو دیکھتے ہوئے شک ہوا تو میں نے غور سے دیکھا‘ فوجی وردی میں ملبوس افراد کی رنگت سیاہ تھی۔ میں نے موبائل فون کا ڈسپلے بڑا کیا تو واضح ہو گیا کہ نہ تو یہ فوجی بھارتی تھے اور نہ ہی یہ واقعہ کشمیر کا تھا۔ افریقہ کا یہ کوئی ملک تھا اور وہاں کی مقامی پولیس تھی جو جرائم پیشہ افراد کو ڈھونڈنے ایک بستی میں داخل ہوئی تھی جہاں عورتوں نے مزاحمت
کی اور یوں اس ویڈیو کو کشمیر میں ہونے والے مظالم کی ویڈیو بنا کر پیش کر دیا گیا۔یہ درست ہے کہ بھارتی فوج درندگی کی انتہا کرتی ہے اور وہاں اس سے بھی زیادہ دلسوز واقعات پیش آتے لیکن سوال یہ ہے کہ کم از کم ہم اپنا تو قبلہ درست رکھیں اور چیزوں کوتصدیق کے ساتھ آگے شیئر کریں۔ محض جذبات ابھارنے کا کام کچھ تنظیمیں سوشل میڈیا پر مستقل طور پر سر انجام دے رہی ہیں۔ یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ ایسے مناظر‘ ویڈیوز اور تصاویر چھوٹے بچوں اور کمزور دل افراد کے لئے کس قدر حساس ثابت ہوتے ہوں گے۔ بعض مرتبہ تو زلزلوں سے مرنے اور زخمی ہونے والے افراد کی تصاویر کو بھی فلسطین‘ چیچنیا اور کشمیر کے مسلمانوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ کفار کو بھی بھرپور طریقے سے للکارا جاتا ہے۔ایسا کر کے ہم کون سی قومی خدمت سر انجام دے رہے ہوتے ہیں؟
سائبر کرائم بل کوئی نئی چیز نہیں۔کسی نہ کسی نام سے ہر مہذب ملک میں موجود ہے۔امریکہ میں یہ سائبر کرائم لا ء کے طور پر نافذ ہے۔ کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ اور موبائل فون پر ایسا کوئی فعل جس سے کسی کو ذہنی‘ جسمانی یا مالیاتی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو‘ ایسے تمام افعال سائبر دہشت گردی میں آتے ہیں اور ان کی کڑی سزائیں مقرر ہیں۔ نائن الیون کے بعد تو یہ قوانین مزیدسخت کئے جا چکے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں دوبارہ دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ قوانین موجود ہیں لیکن ان کے نفاذ میں
کمزوری دکھائی جاتی ہے کیونکہ مجرم کو ثبوتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے فائدہ مل جاتا ہے۔ سائبر کرائم بل البتہ مختلف ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے جرم کرتے ہوئے یہ سوچنا کہ پکڑا جانا مشکل ہے ‘قطعی بے بنیاد ہے۔ آپ کمپیوٹر سے ایسا کوئی کام کریں یا موبائل فون سے‘ آپ تین طرح سے پکڑے جا سکتے ہیں۔ایک تو آپ کے فون کی شناخت سامنے آ جاتی ہے۔ دوسرے آپ کی سم کی معلومات بھی خفیہ نہیں رہتیں اور تیسرے آپ جس انٹرنیٹ سے منسلک ہوتے ہیں‘ اس کا آئی پی ایڈریس بھی ریکارڈ کا حصہ بن رہا ہوتا ہے۔ آپ جب بھی سوشل میڈیا پر کوئی چیز پوسٹ کرتے ہیں تو تمام معاملات انٹرنیٹ پر اپنے نشان چھوڑ رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت انٹرنیٹ پر کئی گینگز متحرک ہیں جو مختلف لوگوں کے جعلی اکائونٹس بنا کر اور ان کے اکائونٹس ہیک کر کے انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔ ساہیوال میں ایک گروہ لیڈی ڈاکٹرز کے جعلی اکائونٹس بنا کر انہیں بلیک میل کرتا پکڑا گیا۔ ای میلیز ہیک کر کے مختلف لوگوں سے یہ کہہ کر مالی امداد طلب کی جاتی ہے کہ میں فلاں جگہ ہوٹل میں مقیم تھا‘ میرا پرس گم گیا؛ چنانچہ مجھے فوری طور پر اتنے پیسے پہنچا دیں۔اسی طرح جو لوگ انٹرنیٹ پر ای بینکنگ استعمال کرتے ہیں‘ ان کے رجسٹرڈ ای میل تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ای بینک اکائونٹ کا آئی ڈی اور پاس ورڈ لے کر ٹرانزیکشنز کی جا سکیں۔ یہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں لیکن جلد یا بدیر پکڑے ضرور جاتے ہیں کیونکہ یہ اگر کسی انٹرنیٹ کیفے کو استعمال کریں گے تو وہ بھی اس کی زد میں آئے گا۔ اسی طرح اگر چوری کا موبائل اور سم واردات میں استعمال ہوتے ہیں تب بھی سائبر کرائم کا ادارہ اس موبائل فون کے اردگرد موجود ٹاورز کے سگنل کی لوکیشن سے مجرم تک پہنچ سکتا ہے۔سائبر دہشت گردی صرف چوری یا فراڈ تک محدود ہوتی تب اور بات تھی‘ اب اس پلیٹ فارم کو باقاعدہ دہشت گردوں کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ داعش اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔برطانیہ سے سب سے زیادہ نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنا ملک چھوڑ کر شام پہنچے۔ ان کا ذہن بھی سوشل میڈیا پر بدلا گیا اور انہیں شام تک پہنچنے کے لئے ٹکٹوں اور حلیے کی تبدیلی تک جو بھی چیزیں درکار تھیں‘ ان کی معلومات سوشل میڈیا اور ای میل وغیرہ کے ذریعے ہی شیئر کی گئیں۔ پاکستان میں بھی داعش اپنی موجودگی کے دعوے کرتی ہے۔ کئی مرتبہ وال چاکنگ میں بھی سامنے آئی ہے۔اگرچہ اس کی تصدیق نہیں ہو سکی لیکن اگر یہ تنظیم برطانیہ جیسے پڑھے لکھے ملک کے نوجوانوں کو ورغلا سکتی ہے تو ہمارے نوجوان اس کے سامنے کیا چیز ہیں؟ یہاں کی مفلسی اور بیروزگاری انہیں جرائم پر آمادہ کر سکتی ہے۔ اگر سائبر کرائم پر سزا یا پکڑ ہو گی تو لامحالہ دہشت گردی بھی کم ہو گی۔ اس سے قبل بھی جب جب سائبر کرائم کے حوالے سے کوئی قانون سامنے آیا‘ فوراً یہ شور مچا کہ حکمران خود کو بچانے اور مخالفین کو دبانے کے لئے ایسے بل سامنے لا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا انٹرنیٹ پرنفرت انگیز تقریریں موجود نہیں ؟ کیا یہ جھوٹ ہے کہ اسے دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں کیا جا رہا؟کیا وہاں فرقہ واریت اور مذہبی منافرت پر مبنی لٹریچر سے تفرقہ نہیں پھیل رہا؟ کیا وہاں دہشت گردوں کی فنڈنگ نہیں ہو رہی؟ وفاقی وزیر انوشہ رحمان نے یوٹیوب کھلوانے اور اس کا پاکستانی ورژن متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا‘ آج یوٹیوب سے کروڑوں پاکستانی مستفید ہو رہے اور اگر سائبر کرائم بل بھی اپنی روح کے مطابق نافذ ہو گیا تو اس کے ثمرات بھی جلد سامنے آجائیں گے۔
جو کہتے ہیں سائبر کرائم بل سے اظہار رائے کی آزادی ختم ہو جائے گی‘ وہ بتائیں کیا ان کے سامنے آ کر کوئی دہشت گردی کرے‘ انہیں جانی یا مالی نقصان پہنچائے‘ توکیا وہ خاموش رہیں گے؟ اگر یہی کام کوئی انٹرنیٹ یا موبائل سے کرے تو پھر اسے چھوٹ کیسی اور کیوں؟ کوئی کسی کا ای میل اکائونٹ ہیک کر کے کسی دہشت گرد کو اس کے نام سے ای میل کر دے یا کسی کے بینک اکائونٹ سے رقم کسی خودکش بمبار کو جاری کر دے تو کیا ایسے شرپسندوں کے گرد شکنجہ سخت نہیں کیا جانا چاہیے؟ اپوزیشن کے جائزاعتراضات سنے جانے چاہئیں‘ ان پر بحث بھی ہونی چاہیے اور حکومت کو انہیں بل کا حصہ بھی بنانا چاہیے لیکن یہ نکتہ قطعاً قابل قبول نہیں کہ بل کو سرے سے ہی مسترد کر دیا جائے۔ذرا سوچیں‘ ایسا کر کے کیا ہم دشمنوں اور دہشت گردوں کے آلہ کار‘ ان کے ہمدرد نہیں بن جائیں گے؟