جمہوری حکومتوں پر فوجی آمریت کا غلبہ تو ہم نے دیکھا ہے لیکن 7 اپریل 2010ء کو کرغیزستان میں ایسا بھی ہوا کہ اپوزیشن حکومت پر قابض ہو گئی اور بزور طاقت چھ ماہ کے لئے عبوری حکومت نافذ کر دی۔ اپوزیشن نے کرغز حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ صدر کرغیزستان کرمان بیک نے ایسا کیا کیا تھا جس کی وجہ سے اُسے یہ دن دیکھنا پڑے؟ اس کی کئی وجوہات تھیں‘ مثلاً یہ کہ امریکہ نے دارالحکومت کے بالکل ساتھ ماناس میں اڈے بنائے ہوئے تھے اور ان اڈوں سے امریکہ اور اتحادی افواج کو سپلائی جاتی تھی لیکن ان اڈوں کے بارے میں نہ تو اپوزیشن کو اعتماد میں لیا گیانہ عوام کو۔ کرمان کی ذلت کی دوسری وجہ عوام سے لا تعلقی تھی۔ اسے عوام کی ذرا بھی پروا نہ تھی۔ کرغز غریب سے غریب تر ہو رہے تھے‘ مہنگائی میں روزبروز اضافہ ہو رہا تھا لیکن کرمان ان کے زخموں پر مسلسل مرچیں چھڑک رہا تھا۔ اسی دوران میں یکدم حکومت نے گھریلو استعمال کی اشیاء کی قیمتیں دوگنا کر دیں۔ کرغیزستان میں عام آدمی کی اوسط تنخواہ 70ڈالر تھی لیکن اسے 100ڈالر کے یوٹیلیٹی بلز موصول ہونے لگے۔اس پر ستم یہ کہ سردیوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ انتہا پر پہنچ گئی۔ دوسری طرف بجلی کی قیمتوں میں 170 فیصد اضافہ کر دیاگیا۔ اس اضافے نے عوام کی رہی سہی برداشت بھی ختم کر دی۔ کرغز اخبارات نے حکومت کی نااہلی‘ کرپشن اور بدعنوانیوں کا پردہ چاک کیا تو حکومت نے دو بڑے کرغز اخبار بند کرا دئیے۔مارکیٹ سے ان اخبارات کے بنڈل اٹھا لئے گئے اور انہیں آگ لگا دی گئی۔ کرغز زبان کا ریڈیو بھی آف ایئر کر دیا گیا اور معروف آزاد کرغز ویب سائٹ سٹین کا دفتر بھی سیل کر دیا گیا۔ کرغز حکومت کا تیسرا بڑا گناہ توانائی پیدا کرنے والے ادارے کی نجکاری تھا جس
سے حکومت نے راتوں رات اربوں ڈالر کما لئے۔ یہ سب دیکھ کر عوام کا خون کھول اٹھا۔ علی الصبح لوگ ٹولیوں کی صورت میں سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ ٹولیاں اکٹھی ہو نے لگیں اور ایک سیلاب کی شکل اختیار کر گئیں۔ ان کا رُخ ایوان صدر‘ پارلیمنٹ اور سرکاری ٹی وی اسٹیشن کی طرف تھا۔ اگلے چوبیس گھنٹوں تک ہزاروں لوگوں اور سیکورٹی فورسز میں خونریز تصادم ہوتا رہا ‘ جس میں سو سے زائد لوگ مارے گئے۔ مظاہرین نے ایوان صدر ‘ پارلیمنٹ پر قبضہ کر لیا جس کے بعد صدر کرمان بیک صدارتی محل چھور کر فرار ہو گئے۔ مشتعل افراد نے وزیرداخلہ کو مار مار کر موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ ملک میں ہنگامی حالت نافذ ہو گئی‘کرفیو لگ گیا‘ ہسپتال زخمیوں سے بھر گئے اور ہر طرف خون ہی خون پھیل گیا۔ بھگوڑا صدر کئی روز تک مستعفی ہونے سے انکار کرتا رہا لیکن بالآخر اسے عوام کے غیظ و غضب کے آگے سرنڈر کرنا پڑا اور باقاعدہ مستعفی ہو گیا۔
ہمارے ملک میں بھی حالات مختلف نہیں ہیں۔ایک چھوٹا سا طبقہ ملک کے اسی فیصد وسائل پر قابض ہے۔ مہنگائی‘ بیروزگاری‘ قرضوں کے جال اور گرتی ہوئی معیشت نے ملک کو جکڑ رکھا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے ہاں وہ سب نہیں ہو سکتا جو کرغیزستان میں ہوا اور نہ ہی ہونا چاہیے کہ اس کا انجام بالآخر انارکی پر ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاںسیاستدانوں کی کارستانیوں اور یوٹرنوں نے عوام کا سیاست سے بھرم اور اعتماد ہی اٹھا دیا ہے۔ یہاں اپوزیشن میں اتنی جان اور سکت نہیں کہ حکومت کا تختہ الٹ سکے۔ اس کے لئے جس اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہوتی ہے اس کا فقدان یہاں واضح ہے۔ اپوزیشن کی گیارہ بڑی جماعتیں اپنے اپنے ایجنڈے پر کارفرما ہیں۔ کسی ایک نکتے پر بھی ان کا اتفاق نہیں۔ جن نکات پر اتفاق ہے ‘ جب ان پر عمل درآمد کا وقت آتا ہے تو سب کا منہ مخالف سمت میں ہوجاتا ہے۔ اپوزیشن میں بھی دو دھڑے واضح ہیں۔ ایک جانب تحریک انصاف اور دوسری طرف دیگر جماعتیں ہیں۔ رائے ونڈ احتجاج کی طرف مارچ سے دیگر جماعتوں کا انکار اس کی تازہ ترین مثال ہے۔اسی طرح تحریک انصاف کے اندر بھی کئی دھڑے ہیں۔ عمران خان اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ان کے قریبی مصاحبین انہیں کسی اور طرف لگا دیتے ہیں۔ہر صوبے میں ہر سیاسی جماعت کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ قومی اور اجتماعی سوچ کے اس فقدان سے اپوزیشن کمزور ترہو رہی ہے اور اس کمزوری کا فائدہ حکمران جماعت اٹھا رہی ہے۔ تحریک انصاف پاناما ایشو کا مقدمہ لڑنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اس نے اس وقت پیپلزپارٹی جیسی جماعتوں سے اتحاد کر لیا جب یہ اکیلی کھڑی ہوتی تو عوام کا جم غفیر اس کے ساتھ نکل پڑتا۔ اب پچھتانے کے سوا کچھ باقی نہیں۔ حکمرانوں اور اپوزیشن کے قول و فعل کا یہ تضادد نیا نہیں۔ یہ سبھی لوگ باتوں کی حد تک قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں لیکن عملاً اس کے مخالف چلتے ہیں۔ عمران خان بھی غریب کی باتیں کرتے ہیں لیکن رہتے تین سو کنال کے محل میں ہیں۔ اسی طرح وزیراعظم ملک میں چھیالیس نئے ہسپتال تو بنانے جا رہے ہیں لیکن پہلے سے موجود سینکڑوں ہسپتالوں کی حالت بہتر کرنے کانہیں سوچتے۔ یہ تمام لوگ برطانیہ اور دیگر جدید ممالک میں اثاثے بھی رکھتے ہیں‘ علاج اور شاپنگ بھی کرتے ہیں اور وہاں کے قوانین پر عمل بھی کرتے ہیں لیکن اپنے ملک میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔
سالسبری ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں حکومت برطانیہ کے وزیراعظم تھے‘ اس زمانہ میں کار کا رواج نہ تھا‘ وزیراعظم سالسبری اپنی سائیکل پر جا رہے تھے‘ ایک مقام پر وہ سڑ ک کے غلط رخ سے گزرنے لگے تو سڑک پر متعین کانسٹیبل نے انہیں روکا‘ وزیراعظم نے کانسٹیبل کو بتایا '' حضور‘ میںآپ کے ملک کا وزیراعظم ہوں اور چونکہ مجھے عجلت تھی‘ اس لئے مجھ سے ٹریفک کے ضابطہ کی خلاف ورزی ہو گئی‘‘ کانسٹیبل نے جواب دیا ''میں بھی اسی ملک کا کانسٹیبل ہوںاورمیرا فرض ہے کہ ٹریفک کی خلاف ورزی نہ ہونے دوں‘‘ یہ کہہ کر اس نے وزیراعظم برطانیہ کا چالان کر دیا‘ وزیراعظم جانے لگے تو وہ پھر سے سامنے آ گیا اور نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا '' جناب! یہاں سے نہیں‘ واپس جایئے اور جہاں سے سڑک شروع ہوتی ہے وہاں سے سیدھی سمت میں آئیں‘‘ وزیراعظم کے پاس قانون کی تابعداری کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ انہوں نے بے چون و چراں ٹریفک کانسٹیبل کا حکم مان لیا‘ واپسی پر اس واقعے کا ذکر انہوں نے ملکہ وکٹوریہ کے پرائیویٹ سیکرٹری سے کر کے اس فرض شناس کانسٹیبل کو خراج تحسین پیش کیا ۔ اسی طرح برطانیہ کے دوسرے وزیراعظم مسٹر بالڈون اپنی کار میں سفر کر رہے تھے‘ ایک چوراہے پر کار رکی‘ ٹریفک کی قطار میں ان کی گاڑی پیچھے تھی‘ راستہ کھلا تو ڈرائیور نے وزیراعظم کی موٹر غلط سمت سے آگے نکالنے کی کوشش کی‘ ٹریفک کانسٹیبل نے روکا توڈرائیور بولا ''وزیراعظم کو سرکاری کام کی وجہ سے جلدی ہے‘‘ کانسٹیبل نے جواب دیا '' مجھے اس سے کوئی بحث نہیںکہ موٹرنشیں کون ہے‘ قانون کی رو سے ٹریفک کی پابندی‘ عام شہری اور وزیراعظم دونوں پر لازم ہے‘‘ یہ سن کر وزیراعظم موٹر سے اترے‘ کانسٹیبل سے معافی مانگی اور ڈرائیورکو ہدایت کی وہ کانسٹیبل کے حکم کی تعمیل کرے۔
ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے وہ بھی دیکھ لیں۔ ایک نڈر افسر ایس ایس پی ملیر رائو انوار ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن کو ان کے گھر سے اس لئے گرفتار کرتا ہے کہ ان پر دو گاڑیاں جلانے کے مقدمات درج ہیں تو وزیراعلیٰ سندھ اسے شاباش دینے کی بجائے اس کی معطلی اور خواجہ اظہار الحسن کی رہائی کے احکامات جاری فرما دیتے ہیں۔ ایک طرف رینجرز اور پولیس اگر کراچی میں امن قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو ''منتخب‘‘ حکمران اس کوشش کو تہہ و تیغ کرنے میں ایک لمحہ نہیں لگارہے۔ ایسے میںہمارا میڈیا بھی پیچھے نہیں ہے اور فاروق ستار کا طویل ترین براہ راست موقف دکھا کر انہیں دوبارہ ہیرو بنانے کی کوشش کرتا نظر آتاہے۔بغیر وارنٹ گرفتار ی کا عذر تو محض اس لئے تراشا گیا تاکہ رکن اسمبلی کو محفوظ راستہ دلایا جا سکے۔ کیا کسی غریب سائیکل چور کو گرفتار کرتے وقت آج تک کسی پولیس والے نے وارنٹ دکھایا اور کیا کسی کمزور کے لئے وزیراعظم یا وزیراعلیٰ نے اس طرح آواز اٹھائی جیسی خواجہ اظہار کیلئے اٹھائی گئی ہے؟ایسی کمزور حکومت‘ بکھری اپوزیشن اور غیر ذمہ دار میڈیا کی موجودگی میں کیسی جمہوریت؟ کیسی ترقی؟ کیسی تبدیلی؟