پاکستان کے کامیاب اور امیر ترین کاروباری خاندانوں اور ایمپائرز میں چند باتیں مشترک ہیں۔ یہ دولت کے حجم‘ کاروباری اثاثوں‘ مصنوعات ‘سروسز‘ فیکٹریوں‘ کارخانوں اور ملازمین کی تعداد میں تو ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ان میں چند ایسی مشترک خصوصیات ہیں جو ان کی کامیابی کی اصل وجہ بنیں اور جن کو اپنا کر آج کا بزنس مین کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
ہم چند مثالیں لے لیتے ہیں‘ آپ سفائر گروپ کے محمد عبداللہ کو دیکھ لیں۔ ان کے دادا حاجی محمد دین زمیندارا کرتے لیکن گزارا مشکل سے کر پاتے۔ چنانچہ کاروبار کا فیصلہ کیا‘ کچھ جمع پونجی ساتھ لی اور ڈھاکہ چلے گئے۔ کھالیں خریدنا شروع کیں۔ کاروبار چل نکلا توچاروں بیٹوں کو اپنے پاس بلا لیا۔ کچھ عرصے بعد کاروبار کے پھیلائو کی خاطر ایک پلان بنا توایک بھائی کلکتہ‘ دوسرا ڈھاکہ تیسرا چٹاگانگ اور چوتھا چنیوٹ منتقل ہوا۔ چاروں نے کاروبار کا ایک ایک ستون تھام لیا اور جلد ہی یہ ہندوستان کے چمڑے کے نامور اور بڑے ایکسپورٹر بن گئے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان میں پہلی ٹیکسٹائل مل بھی لگائی اوربعد ازاں سندھ میں سپننگ‘ ویونگ‘ گارمنٹس اور ریٹیل کے ساتھ پاور اور ونڈ انرجی میں بھی سرمایہ کاری کی۔ یہ ان کی زندگی کا ایک رُخ تھا۔ دولت پر پھن پھیلا کر بیٹھنے کی بجائے انہوں نے چار طرح سے اسے معاشرے کو لوٹانے کا سلسلہ شروع کیا۔ٹیکس‘ زکوٰۃ و خیرات ‘ انفرادی عطیات اور کارپوریٹ فیاضی یعنی ملازمین کے لئے خوشحالی کے منصوبے جاری کر کے انہوں نے دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی عاقبت سنوارنے کی بھی ٹھان لی۔ کلکتہ میں اسلامیہ ہسپتال بنایا جسے یہ اعزاز ملاکہ قائداعظم نے بھی اس کا ایک مرتبہ دورہ کیا۔ دوسری مثال کریسنٹ گروپ کے الطاف سلیم کی ہے‘ کاروباری دنیا میں ان کے سفر کا آغاز ایک صدی قبل ہوا۔ ان کے دادا میاں فضل کریم‘ میاں محمد امین‘ حاجی محمد شفیع اور میاں محمد بشیر نے کاروبار کا آغاز کیا اور یوں ایک بڑی رفاقت کی بنیاد پڑی جسے دنیا آج کریسنٹ گروپ کے نام سے جانتی ہے۔ میاں فضل کریم نے کاروبار کے لئے ایک دلچسپ حکمت عملی اختیار کی۔ برصغیر کا نقشہ سامنے رکھنے کے بعد چاروں بھائیوں نے مختلف شہروں میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ میاں فضل کریم مدراس‘ میاں محمد امین امرتسر‘ حاجی محمد شفیق چنیوٹ اور میاں بشیر دہلی کے ہوئے۔جو بھائی مدراس میں تھا وہ بزنس لیڈر بنا‘ اس کا کام سٹریٹیجک پلاننگ تھا‘ دوسرے کو دارالحکومت میں حکومتی اداروں اوربینکوں سے روابط کا کام ملا‘ تیسر ابھائی امرتسر اور لاہور میں سیاسی اور سماجی روابط کا نیٹ ورک مضبوط کرنے لگا اور چوتھا بھائی چنیوٹ میں رہ کر کاروباری اور خاندانی امور پر عمل درآمد اور آپریشنز کی ذمہ داریاں سنبھالنے لگا۔ یہ حکمت عملی کسی ماہر کنسلٹنٹ کے مشورے کی بجائے بزرگوں کی ذہانت اور کاروباری فراست کی دلیل تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ادارے ٹیکسٹائل‘ شوگر‘ جیوٹ‘ شپنگ‘ انشورنس اور لیزنگ کے شعبوں میں پاکستان کے ٹاپ تھری کاروباری اداروں میں شمار ہونے لگے۔ انہوں نے بھی معاشرے کو اس کا حق تعلیم اور صحت کے ذریعے لوٹایا۔ کریسنٹ فائونڈیشن‘ کریسنٹ ایجوکیشنل ٹرسٹ جیسے فلاحی ادارے بنائے اور شالا مار ہسپتال اور لمز جیسے اداروں کی مالی معاونت جاری رکھی۔تیسری مثال سینیٹر اعجاز شیخ‘ گوہر اعجاز کی ہے ۔ گوہر اعجاز کا شمار آج رئیل سٹیٹ کے چند بڑے ناموں میں ہوتا ہے۔ ان کے والد سینیٹر اعجاز چمڑے کے بڑے تاجر اور مثالی انسان تھے‘ سپننگ کی بڑی ٹیکسٹائل مل لگائی اور مشکل ترین حالات میں کاروبار کو بام عروج پر پہنچایا۔ان کا انتقال ایک ایسے سرکاری ہسپتال میں ہوا جہاں معیاری سہولیات دستیاب نہ تھیں۔ گوہر اعجاز نے اپنے غم کو طاقت بنانے کا فیصلہ کیا اور جناح ہسپتال لاہور میں اپنے والد کے صدقہ جاریہ کے طور پر ایک ڈائلسز سنٹر بنوا دیا جہاں روزانہ ایک سو بیس ڈائلسز ہوتے ہیں۔ اس کا آغاز ایک سو بیڈ سے ہوا جو تین سو بیڈز تک پہنچ چکا۔ عزم ہزار بیڈز تک لے جانے اور ایشیا کا سب سے بڑا ڈائلسز سنٹر بنانے کا ہے۔یوں گوہر اعجاز نے خود کو والد کی یاد میں ہسپتالوں کی بہتری اور لاکھوں مریضوں کی امداد کے لئے وقف کر دیا۔سر راہِ گوہر اعجاز کے والد اور چچا شوکت احمد کے درمیان محبت کا وہ
واقعہ بھی سن لیں جس نے دو بھائیوں کے درمیان محبت و اُلفت کی مثال قائم کر دی۔ اعجاز شیخ بیمار ہوئے اور ایک گردے نے جواب دے دیا تو گوہر اعجاز کے چچا نے انہیں اپنا ایک گردہ پیش کر دیا۔ اگلے دس برس دونوں بھائی صرف ایک گردے پر زندہ رہے۔ یہ اپنے بزرگوں کے اس قول پر عمل پیرا ہوئے '' تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ آپس میں بانٹ لو‘‘۔ چوتھی مثال جے کے گروپ کے جاوید انوار کی ہے۔ یہ گروپ تجارت‘ صنعت‘ ٹیکسٹائل اور فارمنگ میں عروج پر پہنچا، سارے بھائی ایک لڑی میں خو دکو پرو کر محنت و عظمت کے مینار فتح کرتے رہے لیکن معاشرے کو اس کا حق لوٹانے سے نہ چُوکے۔ اسراف و تبذیر سے پرہیز اور خدمت خلق کی شاندار روایات قائم کیں۔ان کی برادری کے ایک بزرگ کلکتہ میں کام کرتے تھے۔ ایک بار انہوںنے اپنے بھائی کو جو کلکتہ میں ہی ان کے ساتھ کاروبار کرتے تھے اپنے پاس بلایا۔ وہ ٹرین میں بیٹھ کر بھائی سے ملنے پہنچے۔ فرسٹ کلاس کا کرایہ دو پیسے اور سیکنڈ کلاس کا ایک پیسے تھا۔ شام کو منشی نے سارے دن کا حساب بڑے بھائی کے سامنے رکھا تو انہیں علم ہوا کہ ان کا بھائی دو پیسے والے ڈبے میں آیا ہے۔بلایا اور خوب سرزنش کے بعد کہنے لگے: کیا دو پیسے والا ڈبہ ایک پیسے والے ڈبے سے پہلے پہنچا تھا؟ یہی شخص جو ایک پیسے کی فضول خرچی پہ حیران ہوا‘ جب دینے پہ آیا تو اللہ کی راہ میں لاکھوں بانٹ دئیے اور انیس سو بتیس میں تین لاکھ روپے کی لاگت سے کلکتہ میں ایک بڑا ہسپتال بنا ڈالا۔ یہ عظیم صدقہ جاریہ تھا جو آج بھی مرکز فیض ہے۔ پانچویں مثال‘ اے ٹی ایس گروپ کے میاں طارق نثار اور انجم نثار کی ہے جنہیں پاکستان کے سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے گروپ کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ درجنوں شعبوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھے ۔ان کا بزنس ماڈل بڑا دلچسپ تھا۔ چار اخلاقی اصول اور چار کاروباری اصول ایسے تھے جن پر انہوں نے کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔ اخلاقی اصول یہ تھے: کبھی دھوکہ نہ دو‘ کبھی جھوٹ نہ بولو‘ کسی کو تکلیف نہ دو اور کسی کو کمزور مت سمجھو۔ جبکہ محنت‘ ٹیکس کی بروقت ادائیگی‘ قانون کا احترام اور وعدہ کی پابندی کاروباری اصول تھے۔ بزرگوں نے انہیں سمجھایا تھا‘ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ جو لوگ ہتھیلی پر سرسوں اگاتے ہیں وہ دائمی کامیابی حاصل نہیں کر پاتے۔ یہ بات آج کے نوجوانوں کو بالخصوص سمجھ لینی چاہیے۔ چھٹی مثال‘ قیصر احمد شیخ کی ہے ۔ قیصر ایل جی پیٹرو کیمیکلز کے نام سے جنہوں نے جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا پلانٹ لگایا اور اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ معاشرے کو اس کا حق یوں لوٹایا کہ اپنے شہر چنیوٹ کو تعلیم کا گہوارا بنانے پر تُل گئے۔ دوستوں کے ساتھ مل کر یہاں زمین خریدی اور ایک ارب روپے سے زائد کی لاگت سے فاسٹ یونیورسٹی کا کیمپس شروع کروایا۔ بلاشبہ ان کے لئے یہی ان کا توشہ آخرت ہے کہ علم کو ہمارے نبی ﷺ نے بھی بڑی نعمت قرار دیا تھا اور ساتویں مثال الٰہی گروپ کے کامران الٰہی ہیں۔ ان کے بزرگوں نے بھی سکریچ سے کام شروع کیا اور ڈھاکہ میں ٹیکسٹائل مل سے کاروبار کا شاندار آغاز کیا۔دولت کی ریل پیل کے باوجود سادگی ترک کی نہ چادر سے باہر پائوں پھیلائے۔ سٹیل ملز‘ ویئر ہائوسنگ ‘ تعمیرات اور نقل و حمل میں نام کمایا۔ عالمی سطح پر کاروبار کے باوجود سود سے ہر ممکن پرہیز کیا اور خیرات و صدقات کے ذریعے اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے جت گئے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنی تازہ کتاب ''کامیاب لوگ‘‘ میں چنیوٹ کے تیس ایسے بڑے کاروباری خاندانوں کا ذکر بڑی صراحت کے ساتھ کیا ہے جن میں زیادہ تر افراد غربت اورکسمپرسی کے حالات میں پلے بڑھے‘ انہوں نے عملی زندگی کا آغاز سادہ اور چھوٹے کاروبار سے کیا اور ترقی کی بلندیوں تک پہنچے۔ ان باہمت لوگوں کے پاس آج کل کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید ترین ذرائع تھے اور نہ ہی خرید و فروخت کا موثر اور سہل نظام میسر تھا۔ اس کتاب کا حاصل یہی ہے کہ کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے خود پر یقین اور خوداعتمادی انتہائی لازم ہے۔ محنت اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ دیانت‘ سچائی اور ایماندار ی کا ساتھ ہو تو کاروبار کا درخت پھل دینے لگتا ہے۔ کامیاب لوگ کفایت شعاری کو پلے باندھ لیتے ہیں اور بے جا اخراجات سے پرہیز کرتے ہیں۔ وہ ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح نہیں ہوتے بلکہ سمندر کی طرح بہتے چلے جاتے ہیں اور تبدیلی اور بہتری کے لئے سرگرداں رہتے ہیں۔یہ خونی رشتوں کا احترام کرتے ہیں اور آپس میں اتحاد اور اتفاق کی وجہ سے بڑی بڑی ایمپائرز کھڑی کر لیتے ہیں۔ یہ اپنی نئی نسل کو کاروبار یونہی منتقل نہیں کر دیتے بلکہ بچوں کو امریکی اور یورپی ممالک کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں بھیجتے ہیں اور اس کے بعد ہی دفتر کی کرسی پر بیٹھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ بلا شبہ محنت‘ دیانت‘ ساکھ‘ تعلیم‘ تجربہ‘ کم منافع اورکفایت شعاری وہ خصوصیات ہیں جو ایسے لوگوں کو کام یاب کر گئیں تاہم میرے خیال میں ان سے بھی زیادہ اہم وہ سات خصوصیات تھیں‘جو ان کی دیر پا کامیابی اور اس کے تسلسل کا سبب بنیں۔ یہ باہمی امداد کا جذبہ‘خدمت و خیرات‘ صلہ رحمی‘ ہجرت‘ اخلاقی اقدار کی پیروی‘ بزرگوں کا احترام اور معاشرے کو اس کا حق لوٹانے کا وہ عزم تھا جنہوں نے انہیں معاشرے میں عزت بھی دی‘ بے پناہ دولت سے بھی نوازا اور آخرت میں سرخرو ہونے کا موقع بھی فراہم کیا۔چنیوٹ کے یہ تمام لوگ‘ خاندان اور ادارے متمول اور کامیاب ترین اگر کہلائے‘ تو انہی سات خصوصیات کی وجہ سے!