یہ کوئی تیس برس پرانی بات ہے۔ ہم سب بھائی سکول کی چھوٹی جماعتوں میں تھے۔ کشمیر بلاک اقبال ٹائون میں رہائش تھی۔ ایک شام اچانک شور سنا تو گھر سے باہر نکل آئے۔ باہرآسمان کی جانب دھوئیں کابگولہ آسمان کی طرف اٹھتا دکھائی دیا۔ لوگ گھروں سے باہر اور چھتوں پر کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ اس وقت بریکنگ نیوز کا دور تھا‘ نہ موبائل وغیرہ تھے۔ اندازہ لگایا تو یہ دھواں سکیم موڑ والی سائیڈ سے اٹھتا دکھائی دے رہا تھا۔یوں لگا جیسے بہت بڑا دھماکہ ہو گیا ہو یا کہیں آگ لگی ہو۔یہ جاننے کے لئے کہ کیا ہوا‘ کہاں ہوا ہم بھائیوں نے اپنی اپنی سائیکلیں پکڑیں اور سکیم موڑ کی جانب چل دئیے۔وہاں پہنچے تو دیکھا دھواں تو کہیں آگے سے اٹھ رہا ہے۔اندھیرا چھانے لگا تھا اور کبھی ان علاقوں کا اس طرح رخ بھی نہ کیا تھا۔ واقعے کے بارے میں جاننے کا تجسس اتنا تھا کہ ہم بلاسوچے سمجھے ملتان روڈ پار کر کے سکیم موڑ کے سامنے گلیوں میں داخل ہو گئے۔ اس سفر میں ہم اکیلے نہ تھے ۔تجسس کے مارے سینکڑوں اور لوگ بھی تھے جو منہ اٹھائے اس طرف کو چل پڑے تھے۔ آدھے گھنٹے تک دھوئیں کا تعاقب کرتے رہے ‘ وقوعہ تو نہ ملا لیکن ہم راستہ ضرور بھول گئے۔ کسی طرح پوچھ پاچھ کر واپس پہنچے تو والد صاحب دروازے پر استقبال کے لئے موجود تھے۔ ضروری درگت بنانے کے بعد ایک ہی سوال کیا کہ تم لوگ کوئی خفیہ ایجنسی چلاتے ہو یا پھر کسی امدادی ادارے کے کارکن ہو جو یوں رات کو بغیر بتائے اتنی دُور آگ اور دھوئیں کا تعاقب کرنے چلے گئے؟ اس واقعے کے بعد دوبارہ کبھی بلا ضرورت ایسے تجسس یا حرکت کی جرأت نہیں ہوئی۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا ہے احمد پور شرقیہ جیسا واقعہ پہلے کبھی نہیں پیش آیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ بالکل اس سے ملتا جلتا واقعہ نہیں ہوا ہو گا لیکن ٹینکر الٹنے کے بعد وہاں جو کچھ ہو رہا تھا‘ جس طرح لوگ موقعے کا فائدہ اٹھا نے میں لگے تھے یہ تو ہمارا معمول ہے۔ کہیں سڑک پر کوئی دو بندے لڑ پڑیں‘ کسی عورت کی گاڑی کسی گاڑی سے ٹکرا جائے‘ ساری کی ساری ٹریفک تماشہ دیکھنے کے لئے رُک جائے گی۔ پیچھے ایمبولنس پھنسی ہارن دیتی رہے گی لیکن تماشہ دیکھنے والوں کو اس سے زیادہ فکر ان مناظر کی ہو گی جنہیں دیکھنے کے لئے وہ رکتے ہیں۔ اب تو لوگ سب سے پہلے موبائل نکالتے ہیں اور حادثے کی شکار گاڑیوں میں پھنسے افراد کی ویڈیو بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ گاڑی کتنی تباہ ہوئی‘ کون زخمی ہے کس کا خون بہہ رہا ہے یہ ریکارڈ کرنا شاید انہیں بچانے سے زیادہ ضروری ہوتاہے۔ پھر کچھ لوگ موقع کا فائدہ اٹھانے والے بھی ہوتے ہیں‘ گاڑی میں سے پرس یا قیمتی اشیا مل جائیں تو غنیمت جانتے ہوئے انہیں غائب کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ابھی چند روز قبل دیکھا کہ ایک غریب پھل فروش کی ریڑھی کو کسی نے ٹکر مار دی‘ سارا پھل سڑک پر بکھر گیا۔ اتنے میں چند راہ گیر نوجوان اور بچے آئے اور جس کے ہاتھ جو پھل لگا‘ اٹھا کر بھاگ نکلا۔کون بھول سکتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی رات کیا ہوا تھا۔ ہنگاموں کی آڑ میں بڑے شاپنگ سٹورز سے قیمتی اشیا لوٹی گئیں‘ اے ٹی ایم مشینیں ہتھوڑیوں اور ڈنڈوں سے توڑ کر پیسے نکالے گئے۔ یہ سارے کام جرائم پیشہ افراد نے نہیں کئے تھے۔ یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے جو ہماری قوم میں سرایت کر چکا ہے۔ ای او بی آئی کیس میں کیا ہوا۔ چالیس ارب کی کرپشن ہوئی تو سینکڑوں افراد نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو ڈالے اور بزرگوں کی ساری محنت کی کمائی کا پیسہ ہڑپ کر لیا۔ کیا یہ سارے افسر غریب تھے جو ای او بی آئی کا ٹینکر لوٹنے میں لگے تھے؟ کب کب ملکی اداروں کو یوں لوٹا اور نوچا نہیں گیا؟
احمد پور شرقیہ میں جو ٹینکر زمین پر گرا تھا اس میں سے موت کشید کرنے والے جرائم پیشہ نہ تھے۔ ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ گائوں کی عورتیں اور بچے گھروں سے برتن ‘ دیگچیاں اور بالٹیاں تک اٹھا کر لے آئے۔ کہا جا رہا ہے اس علاقے میں غربت بہت ہے وگرنہ ایسے واقعات نہ ہوں۔ یہ بات مکمل طور پر درست نہیں۔ ایسے حادثات کا زیادہ تعلق انسانی نفسیات اور معاملہ فہمی سے ہوتا ہے۔ حدیث ہے کہ بنی آدم کو اگر سونے سے بھری دووادیاں بھی مل جائیں تو وہ چاہے گا اسے ایسی دو اور وادیاں مل جائیں۔ ایسے انسان کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ غربت کا جہالت سے بھی کوئی تعلق نہیں۔پرانے دور میں ہماری دادیاں نانیاں کتنا پڑھی ہوئی تھیں؟ ہمارے دادا پردادا میں سے کتنے پی ایچ ڈی تھے؟یہ کسان ‘سکول ماسٹر یا معمولی تنخواہ دار سرکاری یا نجی ملازمت سے وابستہ تھے۔ روکھی سوکھی کھاتے تھے‘ نئے کپڑوں کی خواہش یوں سربازار رسوا نہ ہوئی تھی‘ تب لوگ صاف ستھرے اور اُجلے کپڑے پہننا پسند کرتے تھے۔ تعلیم واجبی تھی۔ خاص طور پر خواتین بہت کم پڑھی لکھی تھیں لیکن ان کی فہم و فراست‘ دور اندیشی‘ تربیت اور معاملہ فہمی کا مقابلہ آج کی پڑھی لکھی مائیں بھی نہیں کر سکتیں۔ چلیں احمد پور والے تو غریب تھے‘ لالچی تھے تو پھر ہمارے با شعور سیاستدانوں کے جلسوں میں کیا ہوتا ہے‘ شادیوں میں کیا ہوتا ہے‘ کھانے کا اعلان ہو تو لوگ کس طرح کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں‘ تھوڑا سا کھاتے ہیں پھر نئی پلیٹ میں نیا کھانا ڈالتے ہیں۔جب تک کھانا اچھی طرح ضائع نہیں کر لیتے‘ تشنگی پوری نہیں ہوتی۔ہر سیاسی جلسے میں جھگڑے ‘ سٹیج پر جانے کی کوشش میں دھکم پیل‘ قائدین کے ساتھ تصاویر بنوانے کا پاگل پن‘ کیا اس رویے کا تعلق بھی غربت سے جوڑا جا سکتا ہے؟
ٹینکر حادثے نے ملکی فضا سوگوار کر دی ہے مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ لوگ ایسے حادثوں سے کب سیکھتے ہیں۔ پہلے ایسا کوئی حادثہ کئی ماہ تک دماغ سے نہ جاتا تھالیکن اب یہ گھنٹوں بلکہ منٹوں کی بات رہ گئی ہے۔ کتنے لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے اس واقعے کے بعد سادگی سے عید منانے کا فیصلہ کیا ہو گا۔ وہ لوگ چاہے جیسے بھی جاں بحق ہوئے‘ بہر حال ہمارے اپنے تھے۔ہم ان کا عزیز واپس نہیں لا سکتے مگر اپنے رویے سے یہ تو بتا سکتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔لیکن اتنا سوچنے کا وقت کس کے پاس ہے۔ بیوی بچوں کی فرمائشیں‘ عید پر رشتہ داروں کے ساتھ پروگرام کون خراب کرنا چاہتا ہے۔حکومت نے بھی گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے لئے سارے لوازمات کر لئے۔ سانحے میں ایک سو سے زیادہ لوگ زخمی ہیں‘ ان کے جلے ہوئے جسموں کے لئے پورے پنجاب یا پورے ملک میں کتنے برن یونٹ ہیں‘ اس بارے سوچنے کا وقت حکمرانوں کے پاس بھی نہیں۔ستر برس بعد بھی اس ملک کے ہر ہسپتال میں برن یو نٹ قا ئم نہ کیا جا سکا ‘ حتیٰ کہ ڈویژن کی سطح پر بھی یہ سہولت مو جو د نہیںاور نہ ہی بہاولپور‘ ڈیرہ غازی خان کے ہسپتالوں میں مو جود ہے ۔
لاہور میں ٹرانسفارمر پھٹنے سے چند برس قبل ایک صحافی طارق عبداللہ کی اہلیہ جل کر جاں بحق ہو گئی تھیں جبکہ صحافی میو ہسپتال کے اکلوتے برن یونٹ میں جگہ نہ ہونے پر کئی ماہ تک راہداری میں یوں پڑے رہے جیسے سڑک پر کوئی پتھر پڑا ہوتا ہے۔ نہ اس صحافی کو کوئی امداد دی گئی‘ نہ ٹرانسفارمر پھٹنے کا نوٹس لیا گیا۔ اسی روز رائے ونڈ محل سے چند گز دور ایک اور ٹرانسفارمر پھٹا تھا اور یہ بھی اسی کمپنی کا تھا جسے گھٹیا مال بنانے پر کئی مرتبہ نوٹس ہوئے لیکن آج بھی کوئی اسے پوچھنے والا نہیں۔اگر پنجاب میں کچھ بجٹ صحت پر بھی خرچ کر لیا جاتا تو آج اس سانحے میں جلنے والے زخمیوں میں سے کئی لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔ سانحے کے بعد متاثرین سے اظہار ہمدردی کرنا اور امدادی کاموں میں شریک ہونا درست اقدام ہے لیکن ایسے ممکنہ واقعات میں نقصان کو کم سے کم کرنے کی طرف بھی کسی کو سوچنا چاہیے۔ جاں بحق افراد کی مالی امداد کا اعلان تو کر دیا جاتا ہے لیکن یہ امداد کسی کو ملتی بھی ہے یا نہیں ‘ اس کے لئے کتنی تفتیش اور کتنے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتاہے‘ عزت نفس کو کتنی بار دائو پر لگانا پڑتا ہے‘ اس بارے ماضی کے واقعات گواہی کے لئے کافی ہیں کہ ایسے کئی لوگوں کو کئی کئی سال بعد بھی امدادی رقم نہ ملی ۔
ایک واقعہ کہیں پڑھا تھا۔ ایک سائیکل سوار پھاٹک کے قریب پہنچا تو پھاٹک بند ہو چکا تھا۔ اس نے بڑی سرعت کے ساتھ سائیکل سر پر اٹھائی اور پٹڑی کراس کرنے لگا۔ اسی اثنا میں ٹرین آ گئی اور وہ چند ہاتھ کے فاصلے سے ٹرین کے نیچے آنے سے بچ گیا اورریلوے لائن عبور کر گیا۔ پھاٹک کھلا تو ٹریفک رواں ہو گئی‘ کچھ دور جا کر لوگوں نے دیکھا تو وہی سائیکل سوار راستے میں سائیکل کھڑا کر کے بندر اور بکری کا تماشا دیکھ رہا تھا۔شاید یہی وہ اہم ترین کام تھا کہ جس کے لئے اس نے اپنی زندگی تک دائو پر لگا لی تھی۔ احمد پور شرقیہ میں جاں بحق ہونے والے ڈیڑھ سو افراد اگر زندہ بچ بھی جاتے‘ اگر یہ ٹینکر نہ پھٹتا اور ہر کوئی پانچ دس لٹر تیل حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتا تو کیا ہو جاتا‘ یہ لوگ موٹرسائیکلوں میں چوری کا یہ تیل ڈالتے اور سڑکوں پر دو چارچکر لگانے کے بعد یہ تیل ہوا میں اڑ جاتا اور بس! غربت کا لبادہ اوڑھے یہ جہالت عام آدمی سے لے کر حکمرانوں تک سبھی میں سرایت کر چکی ہے۔ ہماری اس سے زیادہ بدنصیبی اور کیا ہو گی؟