ڈاکٹر عمر سیف کی شکل میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کے ہاتھ الٰہ دین کا ایسا چراغ آ چکا ہے جو صوبے کو جادوئی شکل دینے کیلئے کوشاں ہے۔ ڈاکٹر عمر سیف پنجاب آئی ٹی بورڈ کے چیئر مین ہیں۔وہ دنیا کے ٹاپ پینتیس آئی ٹی ماہرین میں شامل ہیں۔چھ برس قبل وہ سرکاری میدان میں قدم رکھنے اور یہ عہدہ لینے سے گھبرارہے تھے‘ وہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے چیئرمین پنجاب آئی ٹی بورڈ کام سنبھالا تو انہیں یقین تھا کہ وہ چند ماہ سے زیادہ کام نہیں کر سکیں گے لیکن آج انہیں فخر ہے کہ ان کا فیصلہ بالکل درست تھا۔ ڈاکٹر عمر سیف کو گوگل فیکلٹی ریسرچ ایوارڈبھی مل چکا ہے اور وہ امریکہ کی لاکھوں ڈالر کی نوکری کو لات مار کر آئے ہیں۔ وہ گزشتہ چھ برسوں میں ایک ہزار لوگوں کی ٹیم کے ساتھ مل کر صحت‘ امن و امان‘ تعلیم‘ پروسیس آٹو میشن ، سیٹیزن سروسز‘ انٹرپینور شپ جیسے اہم شعبوں میں دو سو چالیس پراجیکٹس کامیابی سے مکمل کر چکے ہیں۔ڈیجیٹل پنجاب کے نام سے بورڈ نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں دو ہزار بارہ سے اب تک مکمل کئے گئے پراجیکٹس کی تفصیل شامل ہے۔ڈاکٹر عمر سیف کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہو گا کیونکہ ہر شعبے میں جو پرانے پاپی بیٹھے ہیں ان کے لئے فائلوں کو ڈیجیٹلائز ہونے کا مطلب ان کے ٹھوٹھے پر ڈانگ مارنا اور ان کے لئے کرپشن کا راستہ بند کرنا ہے چنانچہ انہوں نے خوب مزاحمت کی ہو گی۔
پنجاب میں صحت کے شعبے کی بہتری کے لئے ضروری تھا کہ پہلے یہ معلوم کیا جائے کہ مسائل ہیں کیا تاکہ ان کو حل کیا جائے۔ ہیلتھ کے شعبے میں ویکسی نیشن سے کام شروع کیا گیا۔آپ کو یاد ہو گا کہ پوری دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہو چکا ہے لیکن پاکستان میں چند کیسز سامنے آنے پر چند برس سے سخت پابندیاں عائد ہیں اور بیرون ملک سفر سے پہلے لازمی ویکسی نیشن کروانا پڑتی ہے ۔ ویکسی نیشن کرنے والوں کو اب ایک ایپلی کیشن دی گئی ہے۔ یہ لوگ پہلے مینوئل طریقے سے ریکارڈ رکھتے تھے لیکن اب یہ کسی گھر میں جاتے ہی وہاں ویکسی نیشن کے بعد فوراً ایپلی کیشن کے ذریعے ریکارڈ اپ ڈیٹ کر دیتے ہیں اس طرح ساتھ ہی ساتھ یہ معلوم ہوتا رہتا ہے کہ کس علاقے میں ویکسی نیشن کا کام مکمل ہو چکا ہے۔اسی طرح مختلف بیماریوں کی نگرانی کا نظام بھی شروع کیا گیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کون سے مہینے میں کون سی بیماریاں زیادہ حملہ آور ہو رہی ہیں۔مثلاً ملیریا‘ ڈینگی‘ ٹائیفائیڈ وغیرہ کن علاقوں ‘ کس عمر کے لوگوں اور کن مہینوں میں زیادہ ہیں۔اس طرح بیماریوں پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ڈینگی نے پنجاب میں آخری بار کافی تباہی مچائی تھی تاہم اس پر جلد ہی قابو پا لیا گیا تھا۔ اس کے بعد پنجاب آئی ٹی بورڈ نے ڈینگی کی نگرانی کی ایپ بنائی جس میں سروے کرنے والی ٹیمیں اپنے اپنے علاقوں میں جا کر مختلف معلومات لے کر اپ ڈیٹ کرتی ہیں۔اس ایپ میں صفائی ستھرائی‘ پانی کھڑا ہونے یا نہ ہونے‘ لاروا کی موجودگی وغیرہ سے متعلق معلومات ڈال دی جاتی ہیں جس سے افسران کو ایک کلک کے ذریعے فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ کس علاقے میں ڈینگی کا لاروا موجود ہے لہٰذا اسے فوری تلف کیا جاتا ہے۔ایک اور اہم ایپلی کیشن ڈرگ انسپکشن کی ہے جس کے ذریعے مختلف شہروں اور اضلاع میں ادویات کی کوالٹی چیک کی جاتی ہے اور اسے سسٹم میں رپورٹ کیا جاتا ہے۔ہر جگہ سے ادویات کے سمپل لئے جاتے ہیں اور انہیں ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری سے چیک کروایا جاتا ہے۔
امن و امان کے سلسلے میں بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے بہت مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ آج کل زیادہ تر کرائم ٹیکنالوجی کی مدد سے ہو رہے ہیں۔ اگر کسی واردات میں ٹیکنالوجی استعمال نہیں ہوتی مثلاً کوئی گن پوائنٹ پر موٹرسائیکل چھینتا ہے تو اسے بھی ٹیکنالوجی کی مدد سے پکڑا جا سکتا ہے ۔ اسی مقصد کے لئے سیف سٹی پراجیکٹ شروع کیا گیا۔ جس کے تحت پورے شہر میں کیمروں کا جال بچھایا گیا اور انہیں ایک کنٹرول روم سے منسلک کیا گیا۔ اس طرح کوئی بھی شخص اب جرم کر کے بچ نہیں سکتا۔ الیکٹرانک ایف آئی آر بھی شروع ہوچکی ہے۔ اس سے قبل ایف آئی آر ہاتھ سے لکھی جاتی جسے پڑھنا ہی مشکل ہوتا تھا۔ اب ہر تھانے میں ایک کمرے میں کمپیوٹر روم بنایا گیا ہے جہاں چند منٹوں میں ایف آئی آر مل جاتی ہے اور موبائل پر بھی پیغام آ جاتا ہے۔اسی طرح کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم کے تحت ویب سائٹ یا موبائل فون کے ذریعے کوئی بھی شخص شکایت درج کرا سکتا ہے ۔ تمام قید اور رہا ہونے والے مجرموں کا ریکارڈ بھی آن لائن کر دیا گیا ہے۔ کہیں بھی جرم ہوتا ہے تو وہاں سے ملنے والے فنگر پرنٹس سے یہ چیک کیا جا سکتا ہے کہ جرم کس نے کیا ہے۔آئی جی کھلی کچہری کا کمپلینٹ سسٹم شروع کیا گیا ہے تاکہ دوسرے شہروں سے کسی کو لاہور آنے کی بجائے موبائل پر سے ہی شکایت درج کرائی جا سکے جس کا فوری جواب دیا جاتا ہے۔اسی طرح لاہور ہائیکورٹ کو بھی آٹومیشن میں لایا جا رہا ہے اور کیس فائلنگ سے لے کر کیس شیڈولنگ تک تمام معلومات تک رسائی آن لائن کی گئی ہے۔ ''ہوٹل آئی‘‘ ایک اہم ویب ایپلی کیشن ہے۔ اب ہوٹل اور گیسٹ ہائوسز میں کرائے پر کمرہ لینے والے ہر شخص کا ریکارڈ ہوٹل آئی اپیلی کیشن کے ذریعے ویری فائی کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی کوئی مطلوبہ مجرم یا مشتبہ شخص کسی ہوٹل میں کمرہ لے گاتو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خودکار نظام کے تحت پیغام چلا جائے گا جس پر وہ اسے گرفتار کرسکیں گے۔جب سے یہ ایپ بنی ہے تب سے اب تک سوا لاکھ لوگوں کو مانیٹر کر چکی ہے جبکہ ان میں ساڑھے پانچ ہزار مشتبہ افراد تھے جن کیخلاف قانونی کارروائی کی گئی۔راستہ ایپلی کیشن کا افتتاح گزشتہ دنوں ہوا۔ یہ انتہائی کارآمد ایپ ہے جس کی لاہوریوں کو بہت زیادہ ضرورت تھی۔ اس میں کئی سہولیات ہیں مثلاً اس میں آ پ گھر یا دفتر سے نکلنے سے پہلے دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کے اردگرد دو کلومیٹر سے لے کر پورے شہر میں جہاں جہاں ٹریفک بلاک ہے‘ کہیں دھرنا ہو رہا ہے‘ یا کہیں گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے سڑک پر معمول سے زیادہ رش ہے تو آپ کو تمام معلومات تفصیل کے ساتھ اس ایپ میں مل سکتی ہیں۔ میں خود یہ ایپ باقاعدگی سے چیک کر چکا ہوں اور اسے چیک کرنے سے آپ گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہنے کی بجائے متبادل روٹ اختیار کر کے منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔ا سٹامپ پیپر کا حصول پہلے مینوئل اور مشکل ترین تھا۔ اب آپ دو منٹ میں ای سٹامپ پیپر ویب سائٹ سے حاصل کر سکتے ہیں۔تعلیم کے شعبے میں بھی بہت کام ہوا ہے۔ سینتالیس ہزار سرکاری سکولوں کی آن لائن مانیٹرنگ کی گئی اور وہاں تعلیم کے معیار‘ بچوں کے داخلوں اور اساتذہ کے حوالے سے ریکارڈ اپ ڈیٹ کیا گیا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ سرکاری سکولوں میں کہاں کہاں کیا کمی ہے جسے پورا کیا جا سکے۔امتحانات کے حوالے سے بھی تمام ریکارڈ آن لائن کیا جا چکا ہے۔ ای فائلنگ کے ذریعے آپ اپنا ٹیکس گھر بیٹھے فائل کر سکتے ہیں۔ای پیمنٹ گیٹ وے بہت اہم ایپلی کیشن ہے۔ اس کے تحت ای چالان‘ ٹوکن ٹیکس‘پراپرٹی ٹیکس‘ ڈومیسائل فیس اور کیریکٹر سرٹیفکیٹ کا آن لائن حصول ممکن ہو سکے گا۔پنجاب جاب آن لائن کے ذریعے آپ اپنے ضلعے میں سرکاری نوکری تلاش کر کے اپلائی کر سکتے ہیں۔ویڈیو کانفرنس پورٹل کے ذریعے وزیراعلیٰ پنجاب تمام اضلاع کے تمام شعبوں کے افسران سے براہ راست بات چیت کر تے ہیں جس سے وقت اور پیسوں کی بچت ہوتی ہے۔پنجاب میں سینکڑوں جگہوں پر فری وائی فائی ہاٹ سپاٹس قائم کئے گئے ہیں جہاں لوگ مفت انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔اب تک آٹھ لاکھ افراد اس سے رجسٹر ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر عمر سیف نے چھ برس کے مختصر عرصے میں پنجاب کے چپے چپے کو ٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑ دیا ہے لیکن انہوں نے اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش نہیں کی۔ ان کی جگہ کوئی عام قسم کا افسر ہوتا تو ہر ایپلی کیشن کے اجراء کے موقع پر بڑی بڑی تقاریب کرواتا ‘ اس میں بڑے سرکاری مہمان بلائے جاتے‘ لمبا چوڑا خرچا کیا جاتا اور اس کی وسیع کوریج کی جاتی۔ اتنے بڑے عہدے پر ہوتے ہوئے بھی وہ ایک عام محنتی ورکر کی طرح خاموشی سے کام کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آئی ٹی کے میدان میں خیبرپختونخوا کو انہوں نے کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ یا تو عمران خان کے پاس ڈاکٹر عمر سیف جیسا کوئی افسر موجود نہیں یا پھر خان صاحب کا اس پر فوکس نہیں۔ بہر حال جو بھی ہے ڈیجیٹل پنجاب کی مختصر عرصے میں کامیابیاں حیران کن ہیں۔اگر ڈاکٹر عمر سیف چند برس مزید بورڈ سے منسلک رہے تو کوئی بعید نہیں کہ یہاں اڑتے ہوئے قالین بھی نظر آنے لگیںاور پنجاب کے لوگوں کا ایک ایک پل ڈیجیٹلائز ہو جائے ۔