پنجاب کو تین ڈاکٹر ایسے ملے ہیں‘ جن کی وجہ سے صوبے کے دس کروڑ عوام کو بہت فائدہ ہو رہا ہے۔ پہلے ڈاکٹر ڈی آئی جی آپریشنز‘ ڈاکٹر حیدر اشرف ہیں۔ ان کے بارے میں مزید جاننے سے قبل ایک واقعہ سن لیجئے۔
چند روز قبل کی بات ہے۔ میں رات کو دفتر سے گھر جانے کے لئے نکلا تو مرکزی دروازے کے سامنے ایک کیری ڈبے کو آہستگی کے ساتھ یوٹرن لیتے دیکھا۔ اسی اثنا میں پیچھے سے ایک موٹر سائیکل آئی اور اسے دائیں طرف سے اوور ٹیک کرنے کی کوشش میں کیری ڈبے سے ٹکرا گئی۔ یہ کوئی بڑا حادثہ نہیں تھا لیکن میں رک کر دیکھتا رہا کہ کہیں موٹر سائیکل سواروں کو چوٹ نہ آئی ہو۔ سرکاری نمبر پلیٹ والے کیری ڈبے میں تین افراد سوار تھے۔ گاڑی کو معمولی سی خراش آئی تھی۔ دوسری جانب موٹرسائیکل سوار افراد نیچے گری موٹر سائیکل اٹھا رہے تھے۔ دونوں کی عمریں پندرہ سے بیس سال کے درمیان تھیں۔ میں نے دیکھا دونوں پارٹیاں نہ تو جھگڑ رہی ہیں اور نہ ہی کوئی نقصان ہوا ہے تو میں پارکنگ کی جانب بڑھ گیا۔ کوئی پانچ منٹ بعد میں گاڑی لے کر سڑک پر آیا تو ایکسیڈنٹ والی جگہ پر ہجوم جمع تھا۔ چار پانچ پولیس اہلکاروں سمیت دو درجن افراد وہاں کھڑے تھے۔ ایک پولیس اہلکار فون پر کہہ رہا تھا: ہم ایبٹ روڈ پر فلاں جگہ کھڑے ہیں‘ یہاں تھانے کی گاڑی بھجوا دیں۔ میں نے سوچا کہ کیری ڈبہ تو چلا گیا ہے تو پھر یہ معاملہ بڑھتا کیوں جا رہا ہے۔ ایک شخص سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ کیری ڈبے والے سرکاری لوگ تھے‘ انہوں نے شاید ون فائیو کو کال کر دی تھی۔ میں نے شیشہ اوپر کیا اور گاڑی چلا دی۔ شملہ پہاڑی کے قریب جا کر میں نے یکدم گاڑی روک دی۔ میری آنکھوں کے سامنے ان بچوں کے چہرے آ گئے‘ سوچا اس سارے واقعے میں ان کا اتنا سا قصور تھا کہ وہ غلط اوور ٹیک کرتے ہوئے گاڑی سے ٹکرائے لیکن اس کے لیے تھانے سے گاڑی بلانے کی کیا ضرورت تھی؟ رات کے دس بج رہے تھے۔ تھکاوٹ مجھ پر غالب آ رہی تھی۔ یہ سوچ کر کہ چور اُچکے ہوں گے‘ میں نے گاڑی چلا دی؛ تاہم میرا ضمیر مجھے مسلسل کچوکے لگاتا رہا کہ یہ بچے میرے بھی ہو سکتے تھے اور اگر یہ لڑکے بے گناہ ہوئے تو؟؟ کہیں انہیں پولیس مقابلے میں پار ہی نہ کر دے ۔ یہ سوچ کر میں نے فوراً گاڑی واپس موڑی اور جونہی اس جگہ پہنچا تو دیکھا دونوں لڑکوں کو موٹر سائیکل سمیت گاڑی میں بٹھا کر تھانہ قلعہ گجر سنگھ لے جایا جا رہا تھا۔ مجھے یہ منظر بہت عجیب لگا۔ میں نے ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف کو میسیج میں سارا واقعہ لکھ بھیجا اور انہیں بتایا کہ ہو سکتا ہے ان کے نزدیک یہ چھوٹا معاملہ ہو لیکن آدھی رات کو انہیں پریشان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح ایک معمولی ایکسیڈنٹ پر نوعمر لڑکوں کو گرفتار کرکے آوارہ‘ نشئی اور عادی مجرموں کے ساتھ بند کر دیا جائے گا تو ان کے معصوم ذہنوں پر کیا اثر پڑے گا۔ اگر ان کی کوئی غلطی تھی‘ تب بھی موقع پر ان کی سرزنش کی جا سکتی تھی۔ حیدر اشرف صاحب نے کہا: آپ مجھے چند منٹ دیں‘ میں معاملے کو دیکھتا ہوں۔کوئی بیس منٹ بعد ان کا فون آیا۔ انہوں نے کہا: پولیس کے مطابق یہ بچے ون ویلر تھے‘ اس لئے انہیں پکڑا گیا؛ تاہم بچوں کے والدین کو بلایا ہے اور انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور انہیں بتایا کہ میں اس واقعہ کا چشم دید گواہ ہوں‘ جس وقت حادثہ پیش آیا یہ ون ویلنگ نہیں کر رہے تھے‘ ہو سکتا ہے یہ پیچھے سے ون ویلنگ کرتے آئے ہوں اور یہاں آ کر پکڑے گئے ہوں‘ بہر حال حقیقت جو بھی تھی ہم دونوں اس نکتے پر متفق تھے کہ بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں اور اس عمر میں ان کی گرفتاری سے نفسیات پر جو اثر پڑے گا وہ آگے چل کر ان کی زندگی پر برا اثر ڈالے گا۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ نو عمر بچوں کو موٹر سائیکل ہرگز نہ دیں اور اگر وہ ون ویلنگ کرتے ہیں تو پھر یہ جان لیں کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 279 کے مطابق یہ قابل گرفتاری جرم ہے‘ جس کی سزا تین ہزار روپے تک جرمانہ اور دو سال تک قید ہے۔
انسانی حقوق کے معاملے میں ڈاکٹر حیدر اشرف خاصے متحرک واقع ہوئے ہیں۔ ایک سال قبل انہیں قومی تمغہ برائے انسانی حقوق سے بھی نوازا گیا۔ قصور کی زینب کا ہولناک واقعہ سامنے آیا تو جہاں پنجاب پولیس پر انگلیاں اٹھیں‘ وہیں ڈاکٹر حیدر اشرف نے اس مسئلے سے پہلو تہی کی بجائے ایسے واقعات سے بچائو کے لیے آگاہی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے گزشتہ دنوں پنجاب پولیس اور بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک این جی او کے ساتھ مل کر ایوانِ اقبال لاہور میں ایک سیمینار منعقد کیا جس میں شہر بھر کے سکولوں کے بچے‘ اساتذہ اور ان کے والدین شریک ہوئے۔ سی سی پی او امین وینس مہمان خصوصی تھے۔ ڈاکٹر حیدر اشرف نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ بچوں کو بری نظروں اور سانحات سے بچانے میں جہاں حکومت‘ چائلڈ پروٹیکشن بیورو اور پولیس کی ذمہ داری ہے وہاں عوام‘ اساتذہ اور والدین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، تبھی جا کر مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے۔ اس موقع پر ایک این جی او کی جانب سے کارٹونز اور الیکٹرانک تصویری خاکوں کی مدد سے بچوں کو حفاظت کی آگاہی دی گئی۔ بتایا گیا کہ کسی انجان سے ٹافی وغیرہ نہیں لینی‘ کوئی اپنا یا پرایا شخص اگر ورغلانے کی کوشش کرتا ہے‘ کوئی ساتھ چلنے کا کہتا ہے‘ موبائل یا کمپیوٹر پر غلط قسم کا میٹریل دکھانے کی کوشش کرتا ہے‘ بلاوجہ ہاتھ پکڑتا‘ جسم کے مختلف حصوں کو بار بار چھوتا ہے اور قریب آتا ہے تو ایسے میں بچوں کو نہ صرف آواز اٹھانی چاہیے بلکہ اپنے والدین کے ساتھ اس کا ذکر بھی لازمی کرنا چاہیے۔ اس قسم کے جرائم میں زیادہ تر قریبی رشتہ دار یا ملنے جلنے والے ملوث ہوتے ہیں اس لئے والدین کو اس پہلے مرحلے میں ہی احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ بطور شہری بھی ہمارے کچھ فرائض ہیں۔ اگر ہم انہیں پورا نہیں کر رہے اور ساری ذمہ داری پولیس یا حکومت پر ڈال دیں گے تو اس برائی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ زینب جیسے کیسز میں بھی اگر بچیوں کو یوں اکیلے یا کسی اجنبی کے ساتھ باہر نہ بھیجا جاتا تو شاید یہ واقعات پیش نہ آتے۔
ڈاکٹر حیدر اشرف کا ایک اور کارنامہ‘ پولیس ڈیپارٹمنٹ کو آٹومیٹ کرنا تھا۔ ایف آئی آر کے کمپیوٹرائزڈ اندراج سے لے کر سیف سٹی پراجیکٹ کے نفاذ تک اور آئے روز کے احتجاج‘ جلسوں اور دھرنوں میں عوام کے جان و مال کے تحفظ سے لے کر پولیس کے محکمے میں ہیومن ریسورس کے جدید نظام کے آغاز تک‘ درجنوں ذمہ داریاں انہوں نے کامیابی سے نبھائیں۔ پولیس میں ٹرانسفر اور پوسٹنگ کو انہوں نے جدید طرز پر آٹومیٹ کیا۔ اس سے قبل دو دو مہینے پوسٹ خالی رہتی اور کسی کو پتا نہ چلتا تھا۔ ٹرانسفر پوسٹنگ کا کوئی میکانزم نہ تھا۔ نئے سسٹم کے تحت مطلوبہ معیار‘ تجربہ اور صلاحیت رکھنے والا افسر ہی ایک سے دوسری جگہ تعینات یا ٹرانسفر ہو گا۔ کسی ٹرانسفر پوسٹنگ سے قبل اب اس کا ڈرافٹ پرنٹ نکلتا ہے‘ جسے اپروو کیا جاتا ہے پھر پراپر آرڈر نکلتا ہے۔ ڈرافٹ آرڈر میں اس کی پوری ہسٹری لکھی جاتی ہے یعنی اہلکار یا افسر کے ماضی کا ریکارڈ‘ برتائو اور کارکردگی کیا ہے‘ کسی ضلعے میں اس سے پہلے کتنی دفعہ ٹرانسفر ہوا اور اس کا ہوم ٹائون کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایک اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے یہ پریزینٹیشن رکھی گئی تو انہوں نے چیف سیکرٹری کو کہا کہ حیدر اشرف اور ان کا محکمہ آپ سے آگے نکل گئے ہیں‘ آپ بھی اپنا ایچ آر کا نظام آٹومیٹ کروائیں تاکہ ٹرانسفر پوسٹنگ میرٹ پر ہو۔ پولپس ایچ آر کا یہ سسٹم لاہور کے بعد پورے پنجاب میں کامیابی سے نافذ ہو چکا ہے۔
مجھے یاد ہے لاہور میں گزشتہ برس پی ایس ایل فائنل میں بہت بڑا سکیورٹی تھریٹ تھا۔ عمران خان بھی کہہ رہے تھے کہ لاہو ر میں پی ایس ایل کرانا بے وقوفی ہے؛ تاہم پولیس افسران نے اپنی ذمہ داری بہرحال ادا کرنا ہوتی ہے۔ غالباً یہ اطلاع بھی تھی کہ بارود سے بھرا ایک ٹرک کسی بھی وقت حیدر اشرف صاحب کی گاڑی سے ٹکرا سکتا ہے لیکن وہ اپنی جان پر کھیل کر عوام کی حفاظت پر مامور تھے اور گاڑی میں ان کے ساتھ بیٹھے میرے ایک دوست کے مطابق وہ فون پر اپنے بچوں کو بتا رہے تھے کہ میری فکر مت کرو‘ تم نے ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے اور پڑھائی پر دھیان دینا ہے۔ چنانچہ انہیں دیکھ کر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جس طرح سابق آئی جی ناصر درانی خیبر پختونخوا کے لئے ایک قیمتی اثاثہ تھے‘ پنجاب اور وزیراعلیٰ شہباز شریف خوش قسمت ہیں کہ انہیں ڈاکٹر حیدر اشرف جیسا فرض شناس‘ دیانتدار اور نڈر افسر ملا اورجس کی وجہ سے پولیس کا امیج خاصا بہتر ہوا۔
اگلے ڈاکٹر صاحب کا ذکر اگلے کالم میں۔