یہ گزشتہ روز کی بات ہے۔ میں اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا۔ جیسے ہی چائنہ چوک پہنچا تو بائیں مڑتے ہوئے راستہ بند دیکھا۔ گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی تھیں۔ تین چار ٹریفک اہلکار رکاوٹیں لگا کر کھڑے تھے اور لوگوں کو لارنس روڈ کی طرف مڑنے سے روک رہے تھے۔ ان کی کوشش تھی ٹریفک سیدھا گورنر ہائوس کی جانب چلی جائے یا پھر اسے واپس جیل روڈ کی جانب ڈائیورٹ کر دیا جائے۔ جن لوگوں نے آگے کہیں جانا تھا وہ کسی دوسرے راستے کی تلاش میں وہاں سے نکل گئے لیکن جن کے لارنس روڈ سے ملحقہ سڑکوں پر گھر یا دفاتر تھے‘ ان کے پاس یہی ایک راستہ تھا لیکن ان کی ایک نہ سنی جا رہی تھی۔ میں نے گاڑی کھڑی کی اور وارڈن سے پوچھا کہ راستہ کیوں بند ہے۔ بولا: آگے چیئرنگ کراس پر احتجاج ہو رہا ہے‘ اس لئے ٹریفک ڈائیورٹ کر رہے ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے لیکن چیئرنگ کراس تو یہاں سے ڈیڑھ میل دور ہے‘ جن لوگوں کا گھر یا دفاتر اس سے کہیں پہلے ہیں‘ انہیں کیوں روکا جا رہا ہے۔ ان کا متبادل روٹ کیا ہے۔ اس نے مجھے گھور کر دیکھا اور بولا مجھے معلوم نہیں لیکن اس طرف ہم کسی کو نہیں جانے دیں گے۔ میں نے کہا سامنے جو دس قدم کے فاصلے پر بائیں گلی مڑ رہی ہے‘ میں اس میں رہتا ہوں۔ میں نے جان بوجھ کراسے اپنا تعارف نہیں کرایا کہ میں ایسے مواقع پر جاننا چاہتا تھا کہ عام لوگوں کے ساتھ ہوتا کیا ہے۔ کہنے لگا آپ اِدھر رہتے ہیں؟ شناختی کارڈ دکھائیں۔ شناختی کارڈ دیکھ کر کہنے لگا کہ اس پر آپ کا پتا تو فلاں علاقے کا لکھا ہے۔ میں نے کہا: آپ بہت ذہین لگتے ہیں۔ وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے کہا:
آپ برا نہ مانیں تو اپنا شناختی کارڈ دکھائیں۔ تھوڑے تذبذب کے بعد اس نے شناختی کارڈ نکالا۔ میں نے پوچھا آپ کی اس وقت رہائش کہاں ہے؟ کہنے لگا ایجرٹن روڈ پر۔ میں نے کہا مگر آپ کے شناختی کارڈ پر تو ڈسکہ کا پتا لکھا ہے۔ کیا آپ غلط بیانی کر رہے ہیں۔ اس پر وہ سٹپٹا اٹھا اور بولا وہ ڈی ایس پی صاحب گاڑی میں بیٹھے ہیں‘ جائیں ان سے بات کریں۔ اگر وہ جانے دیتے ہیں تو چلے جائیں۔ میں نے دیکھا ایک فربہ قسم کا ڈی ایس پی گاڑی میں خراٹے مار رہا تھا۔ اسے بھی وہی بپتا سنائی تو کہنے لگا آپ کو جانے دیا تو باقی بھی کہیں گے ہمیں جانے دو۔ میں نے کہا تو اس میں گناہ کیا ہے ۔ہم نے اپنے گھر جانا ہے‘ کوئی قتل کی اجازت تو نہیں مانگ رہے۔ یہ سن کر وہ مجھے گھورنے لگا۔ میں نے اسے تجویز دی کہ چیئرنگ کراس یہاں سے ڈیڑھ میل دور ہے۔ اس کے راستے میں درجنوں گلیاں اور سڑکیں ہیں جہاں لوگوں کے گھر اور دفاتر ہیں۔ آپ لوگوں کو بتا دیں کہ جس کا گھر یا دفتر ہے وہ چلا جائے۔ اگر کوئی اس سے آگے جانا چاہتا ہے تو وہ سن لے کہ چیئرنگ کراس بند ہے اس لئے وہ نہ جائے۔ میں نے کہا کہ یہ عجیب منطق ہے آپ کی کہ اگر اسلام آباد میں احتجاج ہو رہا ہو گا تو آپ لاہور سے ہی موٹر وے پر داخلہ بند کر دیں گے۔ کیا اسلام آباد سے پہلے کوئی شہر‘ کوئی قصبہ‘ کوئی گائوں نہیں آتا کہ جہاں لوگوں نے جانا ہو۔ یہ کیسی بدبودار پلاننگ ہے۔ ڈی ایس پی کی سمجھ میں بات آ گئی لیکن وہ اپنی انا پر اڑ گیا۔ اتنے میں چند مزید لوگ آ گئے۔ ایک شخص نے موبائل نکالا اور اس پر ویڈیو بناتے ہوئے کہنے لگا‘ آپ ہمیں ہمارے گھروں میں جانے سے روک رہے ہیں۔ آپ ہمارے معاون ہیں یا دشمن۔ ایک اور شخص بولا: ہم آپ کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز کو بھیج دیتے ہیں دنیا کو بھی تو پتا چلے ٹریفک کا محکمہ عوام کے ساتھ کر کیا رہا ہے۔ اتنے میں مجمع میں سے کسی نے پولیس کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ حالات قابو سے نکلتے دیکھ کر ڈی ایس پی کی بتی گُل ہو گئی اور اس نے بیرئیر ہٹوا دئیے۔ یوں بات اس خالی الدماغ ٹریفک افسر کی سمجھ میں آ گئی۔
یہ ٹریفک بدانتظامی کی بدترین مثال تھی۔ ایسی سینکڑوں مثالیں آپ کو روزانہ نظر آئیں گی جو وزیراعلیٰ کے لاہور کو پیرس بنانے کے دعوئوں کو مٹی میں ملانے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ چیف ٹریفک آفیسر لاہور رائے اعجاز احمد بھلے مانس افسر لگتے ہیں لیکن ان کے نیچے ٹریفک پولیس فلاپ‘ بے ڈھنگے اور آمرانہ انداز میں لاہور کی ٹریفک چلا رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ رائے اعجاز خود ہر جگہ جا کر صورتحال نہیں دیکھ سکتے لیکن لاہور میں احتجاج ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ خاص طور پر چیئرنگ کراس‘ لاہور کینال اور شملہ پہاڑی چوک۔ اگر سی ٹی او اور لاہور کی ساری ٹریفک پولیس چیئرنگ کراس سے ملحقہ چند کلومیٹر کے دائرے کی ٹریفک کو کنٹرول نہیں کر سکتی اور جس طرح لوگو ں کو دھمکاتے ہوئے اپنے گھروں اور دفاتر جانے سے روکا جاتا ہے‘ اس کی مثال دنیا کے کسی تباہ حال ملک میں بھی نہیں ملتی۔ ایک طرف مال روڈ اور ملتان روڈ پر اورنج ٹرین کی تعمیر کے باعث سڑکوں کی بندش کا سامنا ہے تو دوسری طرف رہی سہی کسر ٹریفک اہلکار نکال رہے ہیں۔ ٹریفک پولیس سے صرف عوام ہی تنگ نہیں خود ٹریفک وارڈنز بھی اپنے محکمے اور جاب سے متنفر نظر آتے ہیں۔ ہر ماہ درجنوں وارڈنز لاہور سے تبادلے یا دفاتر میں ڈیوٹی لگوانے کی درخواستیں دیتے ہیں۔ ان کی تنخواہیں بھی کئی مرتبہ بڑھائی گئیں‘ خصوصی الائونس بھی دیئے گئے لیکن نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات والا نکلا۔ اس میں افسران کا زیادہ قصور ہے جو ادھر اُدھر سے وارڈنز اکٹھے کر کے‘ سارا سارا دن انہیں وی آئی پی روٹس کلیئر کرنے پر لگائے رکھتے ہیں‘ اس کے نتیجے میں گنجان علاقوں میں وارڈنز کی عدم موجودگی سے ٹریفک کا عذاب بڑھ جاتا ہے۔ اوپر سے ان کی ترقی و تنخواہیں مقررہ چالانوں کی شرح سے مشروط کر دی گئی ہیں جن کی وجہ سے یہ غریب چنگ چی‘ موٹرسائیکل اور عام رکشوں والے معمر افراد تک کو انتہائی بدتمیزی سے اپنا نشانہ بناتے ہیں جس کے باعث کئی غریب رکشہ ڈرائیور خود سوزی بھی کر چکے ہیں۔ تجاوزات نے تو بھرکس ہی نکال دیا ہے حتیٰ کہ شادمان‘ کریم بلاک اور لبرٹی مارکیٹیں بھی اس کی زد میں ہیں۔
اس مسئلے کا ایک حل سنگاپور ماڈل میں ہے۔ سنگاپور میں سڑکوں پر ضرورت سے زیادہ گاڑیاں آنے سے مسائل بڑھ رہے تھے‘ چنانچہ انہوں نے اس کا یہ حل نکالا کہ نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے قانون سازی کر دی۔ ہر گھر میں ایک گاڑی سے زیادہ گاڑیاں رکھنے پر پابندی لگا دی گئی۔ نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن اگلے دو برس کیلئے بند کر دی گئی کہ اس دوران میں سڑکوں کو وسیع اور چوراہوں کو کھلا کیا جائے گا۔ اسی طرح سرکاری دفاتر‘ عدالتوںاور رش والے مراکز کو شہر کے مختلف علاقوں میں اس حساب سے منتقل کیا جائے گا کہ ٹریفک کا دبائو تقسیم ہو جائے۔ گنجان علاقوں میں متبادل سڑکیں تعمیر کی جائیں گی اور پبلک ٹرانسپورٹ کو جدید اور اس کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا تاکہ لوگ گاڑی کم استعمال کریں۔ یہاں حال یہ ہے ایک ہی گھر سے تین بچوں کو سکول سے لینے کیلئے ایک ہی وقت میں تین گاڑیاں جا رہی ہوتی ہیں۔ سکولوں کو پابند بنایا جا سکتا ہے کہ وہ اعلیٰ اور اے سی والی جدید بسوں کا انتظام کریں۔ سرکاری و نجی مراکز کے ملازمین کیلئے بھی بسیں چلائی جانی چاہئیں۔ بیٹری سے چلنے والی ای سائیکل چین‘ برطانیہ‘ فرانس حتیٰ کہ بھارت میں بھی عام ہو چکی ہے۔ اس میں موٹر سائیکل کی طرح ریس بھی ہوتی ہے‘ جو رفتار چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ تک لے جاتی ہے۔ ایک بار چارج کرنے پر تین سے چار سو کلومیٹر چلتی ہے۔ یہ ماحول کیلئے بھی فائدہ مند ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے ٹریفک کا عذاب ختم نہیں تو کم ضرور کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ہماری ترجیح ہے نہ خواہش۔ ہماری ترجیح صرف کک بیکس اور آف شور کمپنیاں ہیں۔ ایک اورنج ٹرین اور میٹرو بنا کر سمجھا جا رہا ہے کہ لاہور کے سارے مسائل حل ہو گئے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ سپیڈو بس تک کارڈ سسٹم ہونے کی وجہ سے فیل ہو چکی ہے اور آپ کو اس میں کبھی بھی دو چار سے زیادہ سواریاں نظر نہیں آئیں گی۔ بعض اوقات کئی بسیں سارا سارا روٹ خالی چل کر واپس آ جاتی ہیں۔ یوں برسوں سے عوام کے ٹیکسوں کے اربوں روپے ہوا میں اڑائے جا رہے ہیں۔ چلیں بہتری کے بعض کاموں پر تو پیسے لگتے ہیں لیکن عمدہ پلاننگ کے لئے تو صرف دماغ کا استعمال اور معاملہ فہمی درکار ہے‘ جو ہمارے حکمرانوں سے لے کر ٹریفک افسران تک کسی میں دکھائی نہیں دیتی۔