پاکستان آئی ٹی کے میدان میں کہاں کھڑا اہے‘ اس بارے میں کوئی بڑا دعویٰ تو نہیں کیا جا سکتا لیکن پچھلے پانچ برس میں اس میدان میں قابل قدر پیش رفت دیکھنے کو ملی ہے۔ اگرچہ رفتار ویسی نہیں‘ جیسی ہونی چاہیے لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں دو برس قبل تک دہشت گردی روزانہ کا معمول تھا‘ کوئی دن دھماکوں کے بغیر نہیں گزرتا تھا اور کراچی جیسا بزنس حب بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے ہاتھوں یرغمال تھا‘ ایسے حالات میں بہت بڑے خواب نہیں دیکھے جا سکتے۔ تاہم اب معاملہ مختلف ہے۔ دہشت گردی قریباً ختم ہو چکی ۔ کراچی بھی آسودہ ہے۔ قبائلی علاقے بھی قدموں پر کھڑے ہو رہے۔ چند ماہ میں انتخابات بخیروعافیت ہو گئے تو مسلسل تیسری مرتبہ جمہوری حکومت کے آنے سے معاشی میدان مضبوط تر ہو گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سب سے زیادہ کام اگر کوئی صوبہ کر رہا ہے تو وہ پنجاب ہے کیونکہ پنجاب ہی خیبرپختونخوا‘ بلوچستان‘ سندھ‘ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو آئی ٹی کی جدید سروسز بلا معاوضہ مہیا کر رہا ہے اور یہ کام پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر عمر سیف کی نگرانی میں ہو رہا ہے جنہیں حال ہی میں اقوام متحدہ کی جانب سے پاکستان میں یونیسکو چیئر کیلئے منتخب کیا گیا ہے۔ مائیکروسافٹ کے بانی اور دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس ہر سال دنیا کے پانچ ماہر ترین ٹیکنالوجی سائنٹسٹس کو ا مریکہ بلا کر ان سے ملاقات کرتے ہیں۔ اس سال ان پانچ میں سے ایک ڈاکٹر عمر سیف بھی ہیں۔ انہیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے پاکستان میں پہلا ٹیک سٹارٹ اپ پلیٹ فارم بنایا۔ یہ ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں نوجوان ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی آئیڈیا لے کر جاتے ہیں اور وہاں انہیں چھ ماہ کیلئے اپنا پراجیکٹ مکمل کرنے کی خاطر سہولیات ‘جگہ اور مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے بعد ان کے منصوبے کو عالمی کمپنیوں کے سامنے رکھا جاتا ہے جو اس منصوبے میں سرمایہ کاری کرتی ہیں جس کے پھلنے پھولنے کے زیادہ امکانات ہوں۔ گزشتہ دنوں پی آئی ٹی بی کے تحت ایسا ہی سٹارٹ اپ ایونٹ ''ایکس پوزیشن نائن‘‘ اور ہیکاتھون ارفع سافٹ ویئر پارک میں منعقد ہوا ۔ نمائش کے دوران ٹیکنالوجی پر مبنی سٹارٹ اپس میں طلبا کے بیس گروپس کے درمیان جدید ٹیکنالوجی پر مبنی اشیا اور سروسز کا مقابلہ بھی ہوا۔
اس وقت روزگار کے مسائل کی وجہ سے جو نوجوان پریشان ہیں انہیں علم ہی نہیں کہ ان کے پاس آگے بڑھنے کے کس قدر مواقع ہیں۔ ایسے نوجوانوں کو میں ڈاکٹر عمر سیف کی تقریر کے وہ چند نکات بتا دیتا ہوں جو میں نے ٹی وی پر سنے‘ انہیں پڑھنے کے بعد نوجوانوں کی ناامیدی یقینا توانائی میں بدلے گی اور وہ بھی اپنی تعلیم ‘مہارتوں اور مواقعوںکو استعمال کر کے اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں گے۔ڈاکٹر عمر سیف نے بتایا کہ پانچ چھ سال قبل پاکستان میں سٹارٹ اپس کا خاص تصور نہ تھا۔ خطے میں بھارت کی اجارہ داری تھی اور اس نے وقت پر ٹیکنالوجی کی بدلتی ہوئی ضروریات کو محسوس کر لیا تھا۔ نوے کی دہائی میں بھارت اس میدان میں پوری طرح قدم رکھ چکا تھا جبکہ پاکستان میں اس کی اہمیت کو سمجھنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ بھارت کی آئی ٹی انڈسٹری 164بلین ڈالر ایکسپورٹ تک پہنچ گئی ہے۔حتیٰ کہ بھارت کی ٹاٹا جیسی کمپنی بھارت کی آئی ٹی مارکیٹ کے اسی فیصد پر قابض ہو چکی جو پاکستان کے بیرونی قرضوں سے بھی زیادہ ہے۔ تاہم ہماری آئی ٹی صنعت پائوں گھسیٹ گھسیٹ کر چلتی رہی۔ پاکستان میں البتہ اتنی اہلیت ہے کہ وہ اپنی آئی ٹی برآمدات میں 150فی صد تک اضافہ کر سکتا ہے ۔ پاکستان میں بڑے سے بڑ ا سافٹ ویئر ہاؤس پانچ سو سے سات سو افراد پر مشتمل ہوتا ہے ، جبکہ انڈیا میں انفوسز اور ٹاٹا جیسی کمپنیوں میں ساڑھے تین لاکھ افراد کام کرتے ہیں۔پاکستان میں آئی ٹی کی صنعت کے نہ پھلنے پھولنے کی ایک وجہ یہاں کے سیاسی‘ معاشی اور سکیورٹی کے مسائل تھے ۔ بڑی کمپنیاں پاکستان میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی تھیں۔پھر یہ ہوا کہ دنیا بھر میں آہستہ آہستہ آئی ٹی کا کلچر بدل گیا۔ انٹرنیٹ ایک ایسا پوائنٹ بن گیا جس کے ذریعے کوئی بھی کہیں سے بھی بیٹھ کر کاروبار کر سکتا ہے بلکہ اسے بڑے پیمانے پر پھیلا بھی سکتا ہے اور اس کے لئے کسی کو دوسرے ملک میں جانے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔سکائپ کو بنانے والے تین افراد آسٹریا، ڈنمارک اور ایسٹونیا سے تعلق رکھتے تھے ۔ ایسٹونیا چھوٹا سا ملک ہے جو اسلام آباد کے برابر ہے ۔پچیس لاکھ آبادی پر مشتمل ہے اور یہ ساری آبادی ماڈل ٹاؤن میں سما سکتی ہے ۔ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے ۔ آپ ایسٹونیا سے اسے کمپیئر کریں۔ پاکستان کی آبادی بیس کروڑ سے زیادہ ہے تو کیا یہاں سکائپ بنانے والے دماغ نہ ہوں گے؟پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی تیس برس سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔پاکستان میں میڈین ایج تئیس سال ہے ۔ امریکہ میں اڑتیس سال، جاپان میں ترتالیس سال ہے ۔ پاکستان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے کیونکہ تئیس برس کی عمر میں انسان سب کچھ کر سکتا ہے جبکہ چالیس پچاس برس کی عمر میں کام کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے ۔ تئیس سال وہ عمر ہوتی ہے جب انسان دنیا کا بہترین ایتھلیٹ اور بہترین کھلاڑی بھی بن سکتا ہے ۔ یہ ساٹھ فیصد نوجوان اپنے وطن کو بھی ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی تیس فیصد آبادی پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں پر مشتمل ہے اور یہی اس ملک کا مستقبل ہیں۔پاکستانی شہریوں کے زیرِ انتظام کام کرنے والی کمپنیوں نے پاکستان کے ایکوسسٹم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ آپ اندازہ لگائیں کہ پاکستان کی کل سالانہ برآمدات اکیس بلین ڈالر ہیں۔ جبکہ اکیلے ایپل کمپنی آٹھ سو ارب ڈالر کا حجم رکھتی ہے۔اگر پاکستان میں ایک ٹیکنالوجی کمپنی سالانہ دو بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کرے تو پاکستان کی سالانہ برآمدات میں دس فیصد اضافہ ہو سکتا ہے او ر یہ ممکن ہے۔ سیلیکون ویلی میں سٹارٹ اپس منصوبوں کی کامیابی کا تناسب صرف دو فیصد ہے جبکہ ارفع کریم پارک میں واقع پی آئی ٹی بی کے شروع کئے گئے پلان نائن سٹارٹ اپس کی کامیابی کا تناسب ساٹھ فیصد ہے جو اس بات کی نوید ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو اگر مواقع ملیں تو وہ دنیا بھر سے زیادہ کامیابیاں سمیٹ سکتے ہیں۔ارفع سافٹ ویئر پارک میں طلبا کو ایک پورا فلور مہیا کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی مہارت اور آئیڈیاز سامنے لا سکیں۔چھ مہینے کے لئے طلبا یہاں کام کرتے ہیں اور انہیں بیس ہزار روپے ماہانہ مشاہرہ بھی ملتا ہے تاکہ ان کے والدین کی جیب پر بوجھ نہ پڑے اورکیا آپ کو علم ہے کہ گزشتہ تین چار برسوں میں چھ عدد کمپنیاں پاکستان میں کام کر کے ایک بلین ڈالر سے زیادہ ریونیو کمانے میں کامیاب ہوئی ہیں؟ اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاںسنسنی خیزی‘ جرائم اور منفی خبریں سکرین پر زیادہ جگہ لیتی ہیں لیکن ایسی خبریں چُھپ جاتی ہیں۔ پلان نائن کے سٹارٹ اپس میں اب تک ایک سو ساٹھ کمپنیاں تخلیق پا چکی ہیں۔ یہ سب کمپنیاں سات ارب روپے کا حجم رکھتی ہیں۔ ان کمپنیوں نے بارہ سو لوگوں کو روزگار دیا۔ سالانہ چار بلین ڈالر ریونیو پر محیط یہ کمپنیاں اس وقت دنیا میں تیزی سے پھیلتی چلی جا رہی ہیں۔ یہ سب طالب علم تھے جو رکشوں بسوں اور موٹر سائیکلوں پر یہاں آئے تھے اور کامیاب بزنس مین بن کر نکلے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس ملک کے نوجوانوں میں زبردست پوٹینشل ہے ۔ تقریر کے آخرمیں ڈاکٹر عمر سیف نے حیران کن تجویز دی جو آج تک نہ عمران خان دے سکے نہ ذوالفقار علی بھٹو۔ انہوں نے بتایا کہ ای روزگار منصوبے سے پنجاب کے چالیس سنٹرز میں جن سوا لاکھ طالب علموں‘ گھریلو خواتین اور دیگر افراد کو آئی ٹی کی جو ٹریننگ دی گئی اس سے وہ سب گھر بیٹھے انٹرنیٹ سے دس ڈالر سے سو ڈالر روزانہ کما رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ای روزگار سے ایسے صرف دس لاکھ افراد تیار کر لیے جائیں جو روزانہ اوسطاً تیس ڈالر کمائیں تو اس سے سالانہ گیارہ ارب ڈالر برآمدات کی مد میں حاصل ہو سکتے ہیںجو پاکستان کی کل برآمدات یعنی اکیس ارب ڈالر کا نصف ہیں۔ اس کے لئے نوکری چھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ پارٹ ٹائم بھی لوگ اضافی آمدنی گھر بیٹھے کما سکتے ہیں‘ صرف چند ماہ کی ٹریننگ‘ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ درکار ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عمر سیف کے ان خیالات کو پڑھنے کے بعد کم از کم ان لوگوں کی مایوسی دور ہو جانی چاہیے جو سمجھتے ہیں یہاں حکومت میں کام کرنے والا کوئی دماغ موجود نہیں یا پھر یہ کہ پاکستان کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ اگر ہم خود میں اعتماد اور یقین پیدا کر لیں تو ہر خواب کی تعبیر حاصل کی جا سکتی ہے۔