"ACH" (space) message & send to 7575

سیڑھیاں چڑھنے والی ویل چیئر

انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانکس انجینئرز (IEEE)دنیا بھر کے ماہر انجینئرز کا انٹرنیشنل پلیٹ فارم ہے جس کا مرکزی دفتر نیویارک میں واقع ہے۔یہ ادارہ 1963ء میں قائم ہوا۔ ایک سو ساٹھ ممالک کے چار لاکھ بیس ہزار انجینئرز اس کے ممبرز ہیں۔اسے قائم کرنے کا مقصد الیکٹریکل‘ الیکٹرانک انجینئرنگ ‘ ٹیلی کمیونیکیشن اور کمپیوٹر انجینئرنگ کے شعبوں میں نئی ایجادات‘ آئیڈیاز اور دریافتوں کو سامنے لانا تھا۔ دنیا بھر کے پروفیشنلز انجینئرز کے ساتھ ساتھ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا بھی معمولی فیس کے ساتھ اس کے ممبر بن سکتے ہیں۔یہ ادارہ دنیا بھر کے انجینئرنگ پروفشنلز کیساتھ ساتھ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے درمیان بھی سالانہ مقابلہ منعقد کراتا ہے جس میں اس کے ممبر طلبا حصہ لے سکتے ہیں۔ یہ طلبا اپنے اپنے کالج اور یونیورسٹی میں کئے جانے والے اپنے بہترین پراجیکٹ اس مقابلے میں جمع کراتے ہیں جس کے بعد اس ادارے کے ججز حضرات اور پروفیشنل کمیٹی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کس ملک کے طالب علم کا پراجیکٹ زیادہ اہم اورعملی زندگی میں قابل عمل اور مفید ہے۔ ایسے منصوبوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جو انسانی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کا باعث بنتے ہوں۔ اس سال یہ مقابلہ دو ماہ قبل منعقد ہوا جس میں پوری دنیا سے طلبا نے اپنے اپنے پراجیکٹ جمع کروائے۔ دو ہفتے قبل انجینئرنگ کے اس عالمی مقابلے کا نتیجہ بھی آ گیا اور کل پانچ پوزیشنوں کا اعلان کیا گیا۔ پانچویں نمبر پر چھوٹا سا ملک پیرو تھا جس کے طالب علم نے بجلی کی بچت کرنے کا آلہ بنایا‘ چوتھے نمبر پر سری لنکا تھا جس کے طالب علم نے ڈینگی سے بچائو کرنے والا ڈرون بنایا‘ تیسرے نمبر پر بھارت رہا جس نے ہیلتھ مانیٹرنگ سسٹم اور مریضوں کی ٹریکنگ کا نظام بنایا‘ دوسرے نمبر پر تیونس تھا جس کے طالب علم نے آبپاشی کا جدید نظام متعارف کرایا اور پہلے نمبر پر‘ جی ہاں پہلے نمبر پر وہ ملک تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے نوجوان دنیا بھر سے زیادہ ٹیلنٹ رکھتے ہیں اور اگر انہیں موقع ملے تو وہ حیران کن نتائج دے سکتے ہیں۔ جی ہاں ‘ محمد عمر نور وہ طالب علم تھا جو پاکستان کی طرف سے اس مقابلے میں شریک ہوا اور پوری دنیا کے انجینئرز کے مقابلے میں اول پوزیشن کا مستحق ٹھہرا ۔ دیگر طلبا کی طرح محمد عمر نور کو انجینئرنگ کے فائنل ایئر میں ایک ایسا پراجیکٹ بنانا تھا جو دوسروں سے ہٹ کر ہو اور جو انسانیت کے کام آ سکتا ہو۔ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے اس طالب علم نے اپنی ٹیم کے دیگر ارکان محمد دانش قریشی اور محمد عثمان اکرم کے ساتھ مل کر ایک ایسی الیکٹرانک کمپیوٹرائزڈ ویل چیئر بنائی جو کئی منازل تک سیڑھیاں چڑھ بھی سکتی ہے اور اُتر بھی سکتی ہے۔یہ آئیڈیا اپنی جگہ خود ایک انقلاب تھا۔ ایک ایسا انقلاب جو ان لاکھوں کروڑوں مریضوں کی زندگیوں میں آسانی پیدا کر سکتا ہے جنہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے اور ہسپتالوں‘ گھروں اور پبلک مقامات میں نقل و حرکت کرنے میں شدید دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے چار سال قبل خود میری والدہ کے دونوں پائوں فریکچر ہو گئے تھے‘ وہ میرے پاس دوسری منزل پر فلیٹ میں مقیم تھیں جس کی لفٹ بدقسمتی سے ان دنوں خراب تھی۔ ہم تین لوگ مختلف سمت میں ویل چیئر کو پکڑکر انہیں اوپر کی منازل پر لے جاتے اور اتارتے۔ چنانچہ ہر وہ شخص جو اس اذیت سے گزرا ہوا ہے ‘ یا گزر رہا ہے وہ اس ایجاد کی اہمیت کو سمجھ سکتا ہے۔ امریکہ وغیرہ میں تو معذوروں کے لئے پبلک مقامات‘ ٹرانسپورٹ اور عمارتوں میں خصوصی ریمپس بنے ہوتے ہیں مگر پاکستان جیسے ملک میں تو یہ بھی میسر نہیں۔حتیٰ کہ کئی ہسپتالوں میں بھی اس کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔چنانچہ اس شاندار اور بے مثال ایجاد پر محمد عمر نور اور ان کی ٹیم کو جتنی داد دی جائے کم ہے بلکہ پاکستان سمیت پوری دنیا ان کی احسان مند ہے۔ جو ٹیمیں ہر سال پوزیشن لیتی ہیں ان کے ایک ایک رکن کو امریکہ میں سالانہ کانفرنس میں مدعو کیا جاتا ہے‘ ان کے تمام اخراجات یہ ادارہ ادا کرتا ہے اور وہاں ان کی اس ایجاد کو دنیا بھر کی ماہر انجینئرنگ اور کاروباری کمپنیوں کے سامنے رکھا جاتا ہے یوں ان طالب علموں کے لئے ترقی کے نئے در کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اس سال یہ کانفرنس امریکہ میں ستمبر میں ہو گی اور عمر نور اس میں پاکستان کی میزبانی کریں گے۔ فی الوقت ہم اس شاندار ویل چیئر کی جانب واپس آتے ہیں۔ اس ویل چیئر میں مزید کئی خوبیاں ہیں۔ مثلاً یہ کہ اسے بول کر بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ دائیں بائیں مڑنے اور آگے پیچھے حرکت دینے کے لئے صرف ایک لفظ بولنے سے یہ تعمیل کرتی ہے۔ یہی نہیں‘ سماعت سے محروم کوئی شخص اگر ویل چیئر چلانا چاہتا ہے تو اس کے لئے آنکھ کے اشاروں پر مبنی خصوصی سینسرز لگائے گئے ہیں۔ مثلاً وہ ایک بار پلک جھپکائے گا تو ویل چیئر آگے کو چل پڑے گی‘ دو بار جھپکائے گا تو دائیں مڑ جائے گی‘ تین بار جھپکانے سے بائیں اور چار مرتبہ جھپکانے سے ریورس چل پڑے گی اور آنکھیں بند کرنے سے رک جائے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ویل چیئر کو بنانے کے جتنے بھی اخراجات ہوئے وہ ان طالب علموں نے خود ادا کئے ۔ انہیںایک ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ آپ کو ستر ہزار روپے اس پراجیکٹ کو بنانے کے لئے دئیے جائیں گے لیکن وہ سترہزا روپے آج تک ان کو نہیں مل سکے۔ لیکن ان جنونی نوجوانوں نے جو کام کر دکھایا اس نے انہیں تاریخ میں امر کر دیا ہے۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی بادشاہ ہے۔ یہ چاہے تو سکندر جیسے دماغی مریض کو چار چار دن لائیو دکھاتا رہے اور چاہے تو محمد عمر نور جیسے نوجوانوں کو اگنور کر دے جو محدود مالی اور تکنیکی وسائل کے باوجود دنیا بھر میں پاکستان کا ڈنکا بجا رہے ہیں۔ عمر نور کی بنائی گئی اس ویل چیئر کی ویڈیو یوٹیوب پر AN AUTOMATED GUIDED WHEEL-CHAIR لکھ کر دیکھی جا سکتی ہے ۔ محمد عمر نور اور ان کی ٹیم کے ارکان اپنے وسائل میں جو کر سکتے تھے انہوں نے کر دیا‘ ذرا سوچیں اگر یہ ویل چیئر کمرشل ہو کر بازار میں آ جائے تو ان لاکھوں نابینا‘ گونگے بہرے اور عام مریضوں اور معذور افراد کو کس قدر فائدہ پہنچے گا اور وہ سیڑھیاں اترنے اور چڑھنے کے لئے کسی کے محتاج نہیں رہیں گے۔مجھے خدشہ ہے کہ عمر نور اور ان کی ٹیم کے ارکان کو دنیا کی بہترین کمپنیوں کی طرف سے نوکری کی آفرز آئیں گی اور یوں ہم ایک مرتبہ پھر برین ڈرین کا شکار ہو جائیں گے‘ عمر نور اور ان کے ساتھی ان جدید ممالک کو جا کر اپنی خدمات فراہم کریں گے جو پہلے ہی ترقی یافتہ ہیں جبکہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک ایسے شاندار ٹیلنٹ سے محروم ہو جائیںگے۔ لیکن اس سے فرق کس کو پڑتا ہے؟ کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اس بارے میں سوچے؟ سیاستدانوں کو اپنی پڑی ہے‘ الیکشن سر پر ہیں‘ چینلز ایسی خبریں سرسری طور پر چلا کر آگے نکل جاتے ہیں‘ وہ اس ایجاد میں چھپے اس سمندر کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے ‘ جن چیزوں پر مباحثے ہونے چاہئیں‘ جو آئیڈیاز دیگر ممالک کی نظر میں کروڑوں اربوں ڈالر کی اہمیت رکھتے ہیں انہیں ہمارے ہاں گھاس تک نہیں ڈالی جاتی ۔ گزشتہ دنوں وائس چانسلر ڈاکٹر عمر سیف کی زیر انتظام لاہور کی آئی ٹی یونیورسٹی میں ایسا ہی ایک ایونٹ انٹرنیشنل روبوٹکس منعقد ہوا جس میں کمپیوٹر سائنس کے طلبا نے ایسے جدید روبوٹ بنائے کہ عقل دنگ رہ گئی۔ ان میں ایک روبوٹ دیواروں اور چھتوں پر چل سکتا ہے‘ ایک روبوٹ پانی میں تیر سکتا ہے‘ایک روبوٹ سپیچ تھراپی کے لئے استعمال ہوسکتا ہے اور ایک روبوٹ ایسا بھی ہے جو انسانی چہروں کو نہ صرف پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ ان کے ساتھ براہ راست بات چیت بھی کر سکتا ہے۔ 
مجھے یقین ہے پاکستانی نوجوانوں کی یہ تمام ایجادات اور آئیڈیاز یونہی ضائع نہیں جائیں گے‘ پاکستان بدل رہا ہے‘ سوشل میڈیا نے لوگوں کو بڑا شعور دیا ہے‘ اب ہر اہم چیز خود اپنی جگہ بنا لیتی ہے‘ محمد عمر نور اور ان کی ٹیم نے یہ شاندار ویل چیئر خالصتاً انسانی خدمت کے جذبے کے تحت بنائی ہے اور اللہ کے ہاں انسانیت کی فلاح کے لئے نیک نیتی سے اٹھائے گئے قدم کبھی رائیگاں نہیں جاتے‘ ایسی نیکیاں کبھی ضائع نہیں ہوتیں!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں