بھارت میں فری لانسرز کے کام کا انداز بڑا دلچسپ ہے۔ یہ دو دو چار چار کے گروپ بناتے ہیں‘ دو جوڑے کپڑے اور لیپ ٹاپ پکڑتے ہیں اور کسی پہاڑی تفریحی مقام کو نکل جاتے ہیں۔ یہ وہاں دو ہفتے کے لئے کمرہ لیتے ہیں اور کام اور آرام دونوں کے ساتھ جی بھر کے انصاف کرتے ہیں۔ یہ ان دو ہفتوں میں جی بھر کے کام بھی کرتے ہیں‘ نیند بھی پوری کرتے ہیں‘ شام کے وقت پہاڑ کی اوٹ میںغروب ہوتے سورج کا نظارہ بھی کرتے ہیں‘ چشموں اور جھرنوںکے پانیوںکی تازگی کو بھی اپنی روح میں اتارتے ہیں‘ فضائوں میں تیرتے آزاد پرندوں کی اڑانوںکو بھی دیکھتے ہیں‘ بار بی کیو اور گرما گرم کافی کا بھی لطف اٹھاتے ہیں‘ دوستوں کے ساتھ بچپن کی یادیں بھی شیئر کرتے ہیں‘ مختلف کھیل کھیلتے ہیں‘ جی بھر کے گپیں لگاتے ہیں اور مختلف موضوعات پر ایک دوسرے سے نالج بھی شیئر کرتے ہیں۔ یہ ایسی زندگی ہے جو شاید کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے سی ای او یا وزیر اعظم تک کو بھی نصیب نہ ہو گی‘ لیکن آج کے دور میں فری لانسرز یہ زندگی جی بھی رہے ہیں اور انجوائے بھی کر رہے ہیں۔ یہ اپنی مرضی سے کام کرتے ہیں‘ جہاں سے چاہیں کرتے ہیں‘ جب چاہے کرتے ہیں‘ اور جتنا چاہیں کرتے ہیں۔ انہیںکام کی کمی کا بھی اندیشہ نہیں۔ فری لانسنگ میں اتنا کام میسر ہے کہ یہ چوبیس گھنٹے بھی کرتے رہیں تو ختم نہیں ہوتا اور صرف بھارت ہی نہیں امریکہ‘ برطانیہ‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش سمیت جن جن ممالک میںفری لانسنگ ہو رہی ہے وہاں بیشتر فری لانسرز ایسی ہی زندگی جی رہے ہیں۔ یہ کام اور سیر و تفریح ایک ساتھ کرتے ہیں‘ ڈالر بھی کماتے ہیں اور انجوائے بھی کرتے ہیں‘ یہ اپنا لائف سٹائل خود ترتیب دیتے ہیں اور ان کو رات کو ایسے ڈرائونے خواب بھی نہیں آتے کہ صبح ہر حالت میں نو بجے دفتر پہنچنا ہے اور رات کو آ کر دھڑام سے بستر پر گر جانا ہے۔ روایتی نوکریاں کرنے والے تو کولہو کے بیل کی طرح جیتے ہیں اور ہفتہ وار اور چند سالانہ سرکاری چھٹیاں نیند پوری کرنے میںگزار دیتے ہیں۔ یہ کسی شادی یا جنازے میں بھی ہانپتے ہوئے شریک ہوتے ہیں اور اتنے کام کے بعد بھی مہینے کے پانچ سو روپے تک نہیں بچا پاتے؛ چنانچہ دنیا میں فری لانسنگ کی بڑھتی مقبولیت کی ایک وجہ لائف سٹائل بھی ہے۔ امریکہ اور بھارت میں تو ایسے کئی پوائنٹس بن چکے ہیں جہاں فری لانسرز کے لئے فائیو سٹار ہوٹلز کی لابی جیسا ریلیکس ماحول‘ تیز ترین انٹرنیٹ اور پرائیویسی میسر ہوتی ہے۔ آپ کے گھر میں بجلی نہیں‘ آپ لیپ ٹاپ اٹھاتے ہیں ایسی جگہوں پر جاتے ہیں اور کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ فری لانسنگ میں آپ دفاتر میں ہونے والی سازشوں اور ٹانگیں کھینچنے والوں سے بھی بچے رہتے ہیں۔ آپ ہوتے ہیں اور آپ کا کلائنٹ ہوتا ہے۔ آپ کام کرتے ہیں تو پیسے آپ کے اکائونٹ میں آ جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں تیس لاکھ اے ٹی ایم مشینیں ہیں۔ آپ دنیا کے کسی بھی کونے سے اے ٹی ایم کارڈ سے پیسے نکال سکتے ہیں۔ فری لانسنگ کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ اس کی تقریباً زیرو انویسٹمنٹ بھی ہے۔ آپ کو کام شروع کرنے کیلئے صرف تین چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر‘ اچھا انٹرنیٹ کنکشن اور کسی کام میں مہارت۔ کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ آپ کو دس سے تیس چالیس ہزار اور انٹرنیٹ ماہانہ پندرہ سو میں مل جاتا ہے‘ تیسری چیز کام کی مہارت ہے جو آپ کو سیکھنے اور تجربے سے آتی ہے۔ جبکہ عام چھوٹے موٹے کاروبار حتیٰ کہ چھوٹی سی برگر شاپ کھولنے کے لئے بھی آپ کو سینکڑوں جتن کرنے پڑتے ہیں۔ کرایہ پر دکان لینی پڑتی ہے۔ تین مہینے کا ایڈوانس کرایہ‘ دکان کی سجاوٹ‘ سامان‘ بجلی کا کمرشل بل‘ مختلف ٹیکس‘ یو پی ایس‘ تشہیر کا خرچ‘ لوڈ شیڈنگ کا عذاب‘ ملازموںکی تنخواہ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد بھی کام چلے نہ چلے‘ کچھ نہیںکہا جا سکتا۔ جبکہ فری لانسنگ میں آپ جیسے ہی پانچ ڈالر کا ایک آرڈر مکمل کر لیتے ہیں‘ آپ کا اعتماد پچاس گنا بڑھ جاتا ہے۔ مشکل صرف پہلے آرڈر تک ہوتی ہے‘ پہلا آرڈر ملتے ہی آپ کا اعتماد بحال ہو جاتا ہے۔
جہاں تک جاب مارکیٹ کی بات ہے تو صورت حال بھارت میں بھی مختلف نہیں۔ وہاں بھی انجینئر‘ اکائونٹنٹس‘ ڈاکٹر اور ایم بی اے پاس نوکریوں کی تلاش میں دربدر ہیں؛ تاہم ان کی زیادہ تعداد اب فری لانسنگ کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ بھارت میں پاکستان کے برعکس ایک چیز کافی بہتر ہے۔ وہاں لوگ ایک دوسرے کو سکھانے میںکنجوسی نہیںکرتے۔ یہاں تو ہمسائے میںکوئی لڑکا فری لانسنگ سے ماہانہ لاکھوںکما رہا ہے تو وہ اپنے ہمسائے اور رشتہ دار تو دُور کی بات اپنے بھائی تک کو خبر نہیں ہونے دے گا کہ کہیں وہ بھی خوش حال نہ ہو جائے۔ تین چار سال قبل میں نے انٹرنیٹ سے آمدنی پر ایک کالم لکھا تو ایک نوجوان نے مجھے جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ ضلعے سے ای میل کی اور مجھے بتایا کہ وہ انٹرنیٹ پر بلاگز لکھ کر فری لانسنگ سے دو سے تین لاکھ ماہانہ کما رہا ہے۔ میں نے اسے جواباً ای میل میںکہا کہ کیا وہ مزید لوگوںکو یہ طریقہ سکھا رہا ہے‘ مجھے اس کا کبھی جواب نہیں آیا۔ ہم لوگ یہ سمجھتے ہیںکہ شاید اس طرح سے ہمارا رزق کم ہو جائے گا جو انتہائی احمقانہ سوچ ہے۔ ذرا فری لانسنگ کی فائیور ویب سائٹ یا کسی اور پر جا کر دیکھئے‘ ہزاروں طرح کے کلائنٹس مختلف کاموں کے لئے پوسٹس کرتے نظر آئیں گے‘ کسی کو سوشل میڈیا مارکیٹنگ‘ بلاگز رائٹنگ تو کسی کو ویب سائٹ ڈیزائننگ درکار ہو گی‘ کوئی مختلف زبانوں میں تراجم کا خواہاں ہو گا‘ کیا ہمیں یہ سب کام آتے ہیں۔ ہم ہزار میں سے شاید ایک کام کر لیں تب بھی ہم کسی کو کانوںکان خبر نہیں ہونے دیں گے کہ ہم کر کیا رہے ہیں۔ بھارت میں خواتین اور معذور افراد خاص طور پر اس جانب راغب ہو رہے ہیں۔ ان میں سیکھنے کی لگن ہے اس لئے وہ آن لائن کام سیکھ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ محنت کرنے اور وقت دینے کو تیار نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ میٹرک کے حل شدہ پرچوںکی طرح کوئی جڑی بوٹی مل جائے جسے وہ پانی میںگھول کر پی لیں اور انہیں ڈالر ملنے لگ جائیں۔ مجھے روزانہ ای میلز آتی ہیں کہ بتائیں ہم کیسے کام کریں کیسے پیسے کمائیں۔ ایسے لوگ میرے وہ سابقہ کالم پڑھ لیں جن میں عالیان چوہدری اور دانیال سلیم ایسے نوجوانوںکی کہانی ہے‘ جنہوں نے کہیں سے بھی تربیت حاصل نہیں کی اور صرف اور صرف فری لانس ویب سائٹس 'انٹرنیٹ بلاگز اور یو ٹیوب ویڈیوز کی مدد سے کام سیکھ کر لاکھوں روپے ماہانہ کما رہے ہیں۔ بھارت میں بھی اب کہیں جا کر ڈیجیٹل انڈیا پلیٹ فارم کے نام سے ایک منصوبہ شروع ہوا ہے۔ اس سے قبل نوجوان خود سے ہی سیکھ کر کام کر رہے ہیں۔ بھارت میں البتہ عوام کو تیز رفتار اور سستا انٹرنیٹ میسر ہے جبکہ ہمارے ہاں فور جی کے نام پر ٹو جی سپیڈ دی جاتی ہے‘ اوپر سے ٹیکس بے شمار ہوتے ہیں؛ تاہم میں پھر کہتا ہوںکہ ان سب مشکلات کے باوجود پاکستان میں اب بھی تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد فری لانسنگ سے وابستہ ہیں اور ایک ارب ڈالر سالانہ کما رہے ہیں۔ جبکہ بھارت میں یہ تعداد پندرہ لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ Payoneer کمپنی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فری لانسنگ سے چار سو ارب سالانہ ملک میں لا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ سے پیسے ٹرانسفر کرنے کی سہولت دینے والی کمپنی پے پال نے پانچ سو بھارتی فری لانسرز کا سروے کیا جس کے مطابق ان میں سے تئیس فیصد ماہانہ سوا کروڑ روپے سے زائد کما رہے ہیں‘ جبکہ ایک اوسط بھارتی فری لانسر کی سالانہ آمدن چالیس لاکھ روپے ہے۔ ان میں سے اکتالیس فیصد کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک سال پہلے کام شروع کیا اور اب وہ خوش حال ہو چکے ہیں‘ لیکن اس کے لئے انہیں ابتدا میں بہت زیادہ محنت کرنا پڑی اور اب بھی معیار برقرار رکھنے کیلئے وہ تگ و دو کر رہے ہیں؛ تاہم انہیںخوشی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کام کرتے ہیں اور انہیں اپنی جاب سکیورٹی کی بھی کوئی فکر نہیںکیونکہ امریکہ‘ آسٹریلیا اور برطانیہ سے اتنا کام مل رہا ہے کہ سارا بھارت بھی فری لانسنگ پر لگ جائے تب بھی ختم نہ ہو۔
آخر میں پاکستان بارے اچھی خبر یہ ہے کہ اس عاجز کی درخواست پر نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن کے روح رواں ذوالفقار احمد چیمہ نے فری لانسنگ کی تربیت پورے ملک میں شروع کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ اس ضمن میں ان کا پنجاب آئی ٹی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر عمر سیف کے ساتھ باضابطہ معاہدہ بھی جلد متوقع ہے۔ پی ٹی آئی حکومت اگر اس کام کو میگا پراجیکٹ کے طور پر شروع کرے تو سالانہ لاکھوں نوکریاں پیدا کر سکتی ہے اور اگر ایسا ہو گیا تو پھر پاکستان اور پاکستانیوں کے وارے نیارے۔