وزیراعظم عمران خان نے حکومت میں آتے ہی ایک ٹاسک فورس اور کمیٹی بنائی ہے ‘جو چین جا کر اس کی معاشی ترقی کی وجوہ پر غور کرے گی اور ان کی روشنی میں پاکستان کو اس کے پائوں پر کھڑا کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ چین کوئی صدیوں سے اس خطے یا دنیا پر نہیں چھایا ہوا۔ آپ صرف اٹھائیس برس پیچھے چلے جائیں ساری حقیقت آپ پر آشکار ہو جائے گی۔
1990ء میں دنیا بھر میں جتنی مینوفیکچرنگ ہو رہی تھی‘ چین اس کا اس میں حصہ صرف تین فیصد تھا۔ آج اٹھائیس برس میں یہ تین فیصد سے بڑھ کر پچیس فیصد ہو چکا ہے۔چین آج دنیا کے ایک سو اٹھانوے ممالک کے لئے ہر طرح کی اشیا تیار کر کے انہیں برآمد کر رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں چین آج دنیا میں گلوبل فیکٹری بن چکا ہے۔ دنیا بھر کی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے اپنے ممالک میں فیکٹریاں بند کر رہی ہیں اور چین میں دفاتر کھول چکی ہیں۔ چین آج ان کے لئے وہ سب بنا رہا ہے‘ جو کبھی یہ کمپنیاں اپنے ممالک میں بنایا کرتی تھیں۔یہ سب اچانک نہیں ہوا۔ چین نے اس کے لئے بھرپور تیاری کی۔ چینی عوام کو اس مقصد کیلئے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کیا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ بچے سے لے کر بوڑھے تک سبھی کو اس ملک کا ایک کارآمد حصہ بننا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے اسی فیصد ایئرکنڈیشنر‘ دنیا کے ستر فیصد موبائل فون اور دنیا بھر کے ساٹھ فیصد جوتے اکیلا چین بنا رہا ہے؛حتیٰ کہ دنیا کا ساٹھ فیصد سیمنٹ‘پچاس فیصد کوئلے کی پروڈکشن اور زمین پر استعمال ہونے والا پچاس فیصد ‘یعنی ایک اعشاریہ چھ میٹرک ٹن لوہا تک چین کی فیکٹریوں میں تیار ہو رہا ہے۔
یہی نہیں ‘بلکہ آج دنیا بھر کے ممالک میں پچاس فیصد سیب چین سے آ رہے ہیں‘جبکہ امریکہ صرف چھ فیصد سیب پیدا کر رہا ہے؛حتیٰ کہ امریکہ کا قومی پرچم تک چین سے تیار ہو کر امریکہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین آج دنیا میں 23ٹریلین ڈالر کی دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے۔ اس کی برآمدات 2.2ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکی ہیں ‘جو دنیا کے تمام ملک سے زیادہ ہیں۔یہ غلط فہمی بھی دور کر لیں کہ چین صرف سستی اور غیر معیاری اشیا بناتا ہے۔ آج دنیا کی ساٹھ فیصد لگژری اشیا چین میں تیار ہو رہی ہیں۔ یہ وہی چین ہے جو 1978ء تک ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر جانا جاتا تھا۔1978ء تک اس کی فی کس سالانہ آمدن ڈیڑھ سو ڈالر تھی‘ جو آج بڑھ کر آٹھ ہزار ڈالر فی کس ہو چکی ہے‘ جس کے نتیجے میں چین کی 80 کروڑ آبادی غربت کی لکیر سے باہر نکل آئی ہے۔ چین نے یہ سب کیسے کیا‘ یہ سب سے بڑا سوال ہے۔ اس بارے میں معروف ریسرچر ڈاکٹر ویویک نے چند ایسے پوائنٹ بتائے ہیں ‘جو چین کی ترقی کی وجہ بنے۔ پہلا ‘ چین چیزوں کی بہت وسیع سطح پر پیداوار شروع کر دیتا ہے۔ پروڈکشن کو اس کو اس قدر پھیلا دیتا ہے کہ جس ملک میں جا کر ایکسپورٹ کرتا ہے ‘اس ملک میں پیدا ہونے والی اسی چیز کی قیمت سے کم میں فروخت کرنے لگتا ہے۔ چین پہلے اس ملک میں جا کر متعلقہ اشیا کی قیمتیں دیکھتا ہے ‘اس کے بعد اپنے ملک میں اسی چیز کی پیداوار اتنے بڑے پیما نے پر کر دیتا ہے کہ پیداواری لاگت انتہائی کم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد وہی چیز اس ملک میں زیادہ تعداد اور مقامی قیمتوں سے کم میں بیچنا شروع کر دیا ہے۔
یوں ساری مارکیٹ پر قبضہ کر لیتا ہے۔ ایئرکنڈیشنرز کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ کبھی ملائشیا اور برطانیہ کے ایئرکنڈیشنر دنیا میں معروف تھے۔ آج دنیا کی تمام معروف کمپنیاں چین سے ایئرکنڈیشنر بنواتی ہیں‘ اپنی مہر لگواتی ہیں اور اپنے ملک میں لا کر بیچ دیتی ہیں۔ چین نے پروڈکشن کو اتنا سکیل اپ کر دیا کہ دیگر ممالک کوزیادہ پیداواری لاگت کی وجہ سے اپنے ہاں کارخانے بند کرنا پڑے۔دوسرا کام چین یہ کرتا ہے کہ ریسرچ اور ڈیزائننگ میں وقت ضائع نہیں کرتا ‘بلکہ دنیا بھر میں جہاں نئی ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی چیز بنتی ہے‘ چین میں اسے کھول کر معائنہ کیا جاتا ہے اور اس جیسی ٹیکنالوجی اور آئیڈیا کا استعمال کر کے وہی چیز کم لاگت میں تیار کر لی جاتی ہے ۔ تیسری چیز جس کی طرف چین بہت توجہ دیتا ہے ‘وہ لیبر کے سکلز کے معیار پر توجہ دینا ہے۔ آج چین میں کام کرنے والا ایک الیکٹریشن یا ویلڈر پاکستان یا بھارت میں کام کرنے والے الیکٹریشن یا ویلڈر سے کم وقت میں کہیں زیادہ بہتر اور عمدہ معیار کا کام کر سکتا ہے۔ اس کے پاس ٹولز بھی زیادہ موجود ہیں اور وہ کم وقت میں زیادہ کام کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں لیبر کی زیادہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح ایڈوانس میں پیسے لے کر کام کو لٹکا دیا جائے‘ جس کے بعد مالک پیچھے اور لیبر آگے آگے ہوتی ہے۔ چین میں اس طرح نہیں ہوتا۔ آج چین میں چھوٹا سا پرنٹر بنانا ہو یا ایک سو منزلہ عمارت تعمیر کرنی ہو ‘چین کے پاس کروڑوں کی تعداد میں ایسی ہنرمند لیبر موجود ہے‘ جو صرف سات گھنٹے کام کر کے وہ رزلٹ دیتی ہے‘ جو ہمارے ہاں کی لیبر سولہ گھنٹے میں بھی نہیں دے سکتی۔ وہاں کی فیکٹریاں جدید پیمانے پر استوار ہیں۔ وہاں کی لیبر اگر ایک گھنٹے میں پچاس گھڑیاں تیار کر لے گی‘ ہماری لیبر پانچ بھی نہیں تیار کر پائے گی۔
اوّل تو ہمارے ہاں اچھی لیبر ملتی نہیں اور مل بھی جائے‘ تو کسی ایک فیکٹری میں ٹکتی نہیں ہے۔ اسے جہاں دو ہزار زیادہ ملے یہ وہاں چلی جاتی ہے اور یوں ایک خلا ء مسلسل قائم رہتا ہے۔اچھی لیبر نہ ہونے کے باعث ہم ویسی پیداوار نہیں دے سکتے اور یوں لاگت کو کنٹرول نہیں کر تے ‘جس سے کوئی بھی فیکٹری سال دو سال بعد دم توڑنے لگتی ہے۔چوتھا یہ کہ چین میں استحکام موجود ہے۔ وہاں جاتے وقت کوئی سرمایہ کار یہ سوچ کر نہیں گھبرتا کہ وہاں سرکار چلے گی یا نہیں چلے گی‘ میرا پیسہ ڈوب تو نہیں جائے گا ‘ یہ کرپشن کی نذر تو نہیں ہو جائے گا۔ ایسا چین میں نہیں ہوتا۔ پاکستان جیسے ممالک میں سرمایہ کار سو مرتبہ سوچتا ہے۔ حکومت کب تک چلے گی۔ قوانین پر عمل درآمد ہو گا یا نہیںاور نئی حکومت آ کر پچھلے سارے منصو بے ٹھپ تو نہیں کر دے گی۔ یہ سب سوچ کر سرمایہ کار پیسہ جیب میں ڈالتا ہے اور چین چلا جاتا ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے وہاں نہ لوڈشیڈنگ ہے‘ نہ حکومت بدلنے کا کوئی ڈر ہے‘ نہ مارشل لا کا خوف ہے اور نہ ہی وہاں سیاسی پارٹیاں اپنے ذاتی منشور نافذ کر سکتی ہیں‘ بلکہ انہیں ایک قومی چھتری تلے مل کر کا م کرنا ہوتا ہے۔
کوئی بھی ایک انچ ادھر سے اُدھر نہیں ہو سکتا ؛ چنانچہ یہ استحکام جب تک پاکستان میں میسر نہیں ہو گا باہر سے غیرملکی سرمایہ کار تو کیا کوئی اپنا بھی دھیلا لگانے کو تیار نہیں ہو گا۔یہاں تو ماضی میں کئی سربراہ مملکت ایسے بھی گزرے‘ جو یہاں بیرونی کمپنیوں سے دس فیصد کمیشن وصول کرتے تھے۔ اس کے باوجود ان کمپنیوں کو نہ تو سازگار ماحول ملا اور نہ ہی انہیں کام کرنے دیا گیا؛ چنانچہ بددل ہو کر یہ کمپنیاں بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور ہو گئیں۔جب لوگوں کو محسوس ہو گا کہ سرکاران کے پیسے کی حفاظت کرے گی اور انہیں ریٹ آف ریٹرن بھی اچھا ملے گا‘ تو وہ اعتماد کے ساتھ یہاں آئیں گے اور دوبارہ بھی آنے کا سوچیں گے‘ جو بھی یہاں سرمایہ کاری کے لئے سوچے گا ‘وہ سب سے پہلے سیاسی استحکام دیکھے گا؛ چنانچہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے ضروری ہے کہ حکومت پہلے ایک سازگار ماحول مہیا کرے‘ سرمایہ کاروں کو ون ونڈو کی سہولت دے ‘یہ نہ ہو کہ کوئی یہاں آ جائے‘ تو اداروں کے درمیان فٹ بال بن کر رُلتا پھرے اور کوئی اس کا والی وارث نہ ہو۔ لوڈشیڈنگ ختم اور بجلی سستی کی جائے اور مقامی سطح پر لیبر کو اعلیٰ معیار کی ٹریننگ دی جائے اور ان میں کم وقت میں معیاری کام دینے کی صلاحیت اجاگر کی جائے‘ جیسا کہ چین میں ہوتا ہے۔ان بنیادی پہلوئوں پر توجہ دی جائے‘ تو پاکستان بھی چین کی طرح خطے میں معاشی طاقت بن کر اُبھر سکتا ہے۔