"ACH" (space) message & send to 7575

ایمزون اور اکنامک ایڈوائزری کونسل

بارہ جولائی 1964ء کو میکسیکو میں ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔ والدین نے اس کا نام جیف بیزوس رکھا۔ جیف تین سال کا تھا جب اس کی والدہ کو طلاق ہو گئی۔ جیف کا والد اسے بے سہارا چھوڑ کر چلا گیا۔ بچپن سے ہی جیف کو الیکٹرانکس کا شوق تھا۔ آٹھ برس کی عمر میں جیف نے اپنے کمرے میں بغیر اجازت کسی کو گھسنے سے روکنے کیلئے دروازے پر ایک الیکٹرانک الارم بنا کر لگا دیا۔ چوتھی کلاس میں پہلی مرتبہ جیف کے سکول میں کمپیوٹر آیا۔ ابھی اساتذہ کو بھی کمپیوٹر چلانا نہیں آتا تھا مگر جیف نے کمپیوٹر چلانا سیکھ لیا۔ اس کے اسی ٹیلنٹ کی وجہ سے اسے سکول میں کئی ایوارڈ بھی ملے۔ جیف نے پرنسٹن یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں انجینئرنگ کی ڈگری لی۔ جیف کو کتابوں سے بہت لگائو تھا۔ اس نے گھر میں کتابوں کی بہت بڑی لائبریری بنا رکھی تھی۔ اسے ایک منٹ کی بھی فرصت ہوتی‘ تو وہ کتاب پڑھنا شروع کر دیتا۔ 1990ء میں وہ ایک بینک کا نائب صدر بن گیا۔ اپریل 1994ء میں اسے پتہ چلا کہ انٹرنیٹ پر صارفین کی تعداد دو ہزار فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ اسی پل اسے ایک آئیڈیا سوجھا کہ کیوں نہ آن لائن بزنس کیا جائے۔ اس خیال کو عملی صورت میں ڈھالنے کیلئے اس نے بینک کی نائب صدر جیسی نوکری کو لات مار دی۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ اس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ اب سوال یہ تھا کہ انٹرنیٹ پر بیچا کیا جائے؟ گہرے غوروفکر کے بعد اس نے کتابوں کی آن لائن خرید و فروخت کا فیصلہ کیا۔ وہ دو سال تک اس پر کام کرتا رہا اور 1996ء میں ایمزون کے نام سے آن لائن بک سٹور لانچ کر دیا۔ ایمزون جنوبی امریکہ میں بہت بڑا دریا ہے۔ جیف بیزوس نے اپنے آن لائن بک سٹور کو ایمزون دریا سے کہیں بڑا کتابوں اور بعد ازاں الیکٹرانکس اور دیگر اشیا کا سمندر بنا دیا۔ جیف نے ایمزون کی شروعات اپنے گھر کے گیراج میں رکھے تین کمپیوٹرز سے کی۔ جیف کے والد نے جیف کو ابتدائی سرمایہ کاری کے لئے تین لاکھ ڈالر دیتے ہوئے اس کی ماں سے پوچھا کہ انٹرنیٹ کیا ہوتا ہے۔ جیف کی والدہ بولی‘ ہم یہ پیسہ انٹرنیٹ نہیں بلکہ اپنے بیٹے کے اعتماد پر لگا رہے ہیں۔ جیف کے والدین کمپنی کے چھ فیصد کے مالک تھے اور سن 2000ء میں کمپنی کے عروج کے باعث ارب پتی بن گئے۔ ابتدا میں جیف گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کتابوں کے پیکٹ بناتا اور خود کورئیر کمپنی کے دفاتر تک پہنچاتا۔ ایمزون کے لئے ٹرننگ پوائنٹ 2007ء میں اس وقت آیا جب ایمزون نے کِنڈل سافٹ ویئر لانچ کیا۔ اس سافٹ ویئر کے ذریعے کتابیں ڈائون لوڈ کر کے موبائل‘ کمپیوٹر اور ٹیب میں بھی پڑھی جا سکتی تھیں۔ کِنڈل کے مارکیٹ میں لانچ ہوتے ہی چھ گھنٹے میں اس کا سارا ریکارڈ فروخت ہو گیا۔ یہ اتنی بڑی کامیابی تھی جس کا خود جیف بیزوس کو اندازہ نہ تھا۔ کِنڈل ریڈر کے ذریعے ایمزون نے امریکہ کے پچانوے فیصد ای ریڈرز شیئر پر قبضہ کر لیا۔ یہ کمپنی اتنی تیزی سے اُٹھی کہ آج 1996ء میں تین لوگوں سے شروع ہونے والی کمپنی میں پانچ لاکھ چھیاسٹھ ہزار ملازمین ہیں اور جیف بیزوس 112 بلین ڈالر کے ساتھ دنیا کے سب سے امیر آدمی بن چکے ہیں۔ ایمزون کے اس وقت پوری دنیا میں سولہ کروڑ کسٹمر ہیں۔ ایمزون واحد کمپنی ہے جو زیرو مارکیٹنگ بجٹ کے ساتھ اس مقام تک پہنچی۔ جیف نے خریداری کو اتنا آسان بنا دیا کہ لوگ دیگر آن لائن سٹورز چھوڑ کر ایمزون پر آ گئے۔ یہاں انہیں آرڈر کرنے میں کم وقت لگتا‘ ان کا آرڈر انہیں بروقت ملتا اور وہی چیز ملتی جو نیٹ پر دکھائی جاتی۔ ان خصوصیات کی بنا پر صارفین اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں ایمزون کا چرچا کرنے لگے۔ 
آج جیف بیزوس دنیا کے ایک سو پچیس ممالک کے سالانہ بجٹ سے بھی زیادہ سرمائے کے مالک ہیں۔ کچھ وہ کمپنیاں ہیں جو ایمزون نے خرید لیں۔ ان میں ہول فوڈز‘ آئی ایم ڈی بی اور امریکہ کا مقبول ترین اخبار واشنگٹن پوسٹ بھی شامل ہے۔ آج ایمزون صرف کتابوں کی فروخت تک محدود نہیں بلکہ کئی مزید کمپنیاں بنا چکا ہے جن میں ایمزون پرائم‘ کنزیومر الیکٹرانکس‘ ایمزون گیمز‘ ایمزون پرائم ویڈیوز‘ ایمزون گو‘ ایمزون کِنڈل‘ ایمزون ویب سروس اور ایمزون وائرلیس شامل ہیں۔ جیف نے پہلی بار یہ سلوگن متعارف کروایا کہ کسٹمر راجہ اور ہم اس کے خادم ہیں۔ وہ دو چیزوں پر بہت دھیان دیتے۔ کسٹمر کو کیا بہت پسند ہے اور کیا بہت ناپسند ہے۔ بہت زیادہ پسند کو تو لوگ دیکھتے ہیں لیکن ناپسند کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جیف نے جائزہ لیا کسٹمر کو تاخیر‘ گھٹیا معیار اور آئوٹ آف سٹاک جیسی چیزیں بالکل پسند نہیں۔ کسٹمر کو چیز دیر سے پہنچے‘ خراب حالت میں ملے یا آرڈر کرتے وقت اسے پیغام ملے کہ یہ چیز سٹاک میں نہیں‘ ان عوامل سے احتیاط نہایت ضروری ہے۔ جیف نے ویب سائٹ کے کھلنے کے وقت کو بھی انتہائی کم کیا۔ جیف کہتے کہ اگر ویب سائٹ کا کوئی صفحہ اعشاریہ ایک سیکنڈ بھی تاخیر سے کھلا تو ایک فیصد کسٹمر ہاتھ سے نکل جائے گا اور ویب سائٹ لوڈ ہونے میں ایک سیکنڈ لگا تو دس فیصد کسٹمر ہاتھ سے جائیں گے اور اگر ویب سائٹ لوڈ ہونے میں دس سیکنڈ لگے تو سو کا سو فیصد کسٹمر ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ایمزون کی کامیابی کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ وہ اسی روز چیزیں ڈیلیور کرتی تھی جس دن آرڈر دیا جاتا۔ آج کوئی شخص امریکہ میں بیٹھ کر کمپیوٹر ایل سی ڈیل آرڈر کرتا ہے اور پتہ بمبئی کے کسی علاقے کا دیتا ہے تو ایک گھنٹے کے اندر وہ ایل سی ڈیل اس کے گھر پہنچ جاتی ہے۔ ایمزون کا تازہ ترین منصوبہ ایمزون گو ہے۔ اسے آپ مستقبل کا شاپنگ سٹور بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس سٹور نے شاپنگ کو دلچسپ اور آسان بنا دیا ہے۔ ایمزون اب تک امریکہ میں تین ایسے سٹور قائم کر چکا ہے جہاں کوئی بھی شخص داخلے کے وقت موبائل ایپ سے ایک کوڈ سکین کرکے موبائل جیب میں رکھ لیتا ہے اور خریداری شروع کر دیتا ہے۔ وہ سٹور میں جو بھی چیز اٹھا کر بیگ میں رکھے گا وہ خودبخود اس کے آن لائن اکائونٹ میں شامل ہو کریڈٹ کارڈ بل میں آ جائے گی۔ اس کے لئے سٹور میں انتہائی حساس سینسرز اور کیمرے لگائے گئے ہیں۔ اس سٹور میں خریدار کو چیزیں لینے کے بعد اس کی ادائیگی کے لئے طویل قطاروں میں نہیں لگنا پڑتا بلکہ وہ اپنا ضرورت کا سامان لیتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ 
آئی ٹی انڈسٹری کس طرح ملکوں کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا سکتی ہے‘ میں نے اس کالم میں ایمزون کی کہانی نئی حکومت کے لئے توجہ دلائو نوٹس کے طور پر لکھی ہے کہ جس کے مالک نے اس سال دولت میں بل گیٹس کو بھی پچھاڑ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر جیف بیزوس تخیل سے حقیقت تک کا سفر طے کر کے ایک سو پچیس ممالک سے زیادہ امیر بن سکتا ہے‘ اگر وہ ایک گیراج سے کمپنی شروع کر کے دنیا بھر میں ساڑھے پانچ لاکھ ملازمین تک پھیلا سکتا ہے تو پھر پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ چلیں امریکہ کو چھوڑیں ہمارے ہمسائے بھارت میں انفوسس جیسی کمپنیاں موجود ہیں جن کی مالیت پاکستان کی سالانہ برآمدات سے بھی زیادہ ہے۔ اگر بھارت میں ایسا ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ پاکستان میں بھی کئی ٹیکنالوجی پر مبنی سٹارٹ اپس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں لیکن مجموعی طور پر پاکستان بھارت سے بھی بہت پیچھے ہے۔ بھارت کی سب سے بڑی آئی ٹی کمپنی میں اسی ہزار ملازمین ہیں جبکہ پاکستان کے بڑے سے بڑے سافٹ ویئر ہائوس یا آئی ٹی کمپنی میں چھ سو ملازمین ہیں۔ آج ایمزون کا سالانہ ریونیو 177بلین ڈالر ہے جو پاکستان کی کل برآمدات سے دس گنا زیادہ ہے۔ اس کا مطلب ہے اگر حکومت آئی ٹی کی صنعت کو پھیلانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے تو پاکستان کے سارے قرضے صرف دس آئی ٹی کمپنیاں اتار سکتی ہیں۔ پاکستان میں پے پال‘ جو آن لائن ادائیگیوں کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے‘ لانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ایمزون انڈیا میں آ چکا ہے پاکستان میں بھی آنا چاہیے۔ ان سے آئی ٹی انڈسٹری کو بُوم ملے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت میں موجود افراد آئی ٹی کی باریکیوں اور افادیت کو سمجھتے ہیں اور کیا وزیر اعظم عمران خان کی قائم کردہ نئی اکنامک ایڈوائزری کونسل اس جانب توجہ دے گی؟

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں