کیلیفورنیا میں ایک چھیاسٹھ سالہ خاتون کے قتل کے حوالے سے مقتولہ کے ہاتھ پر بندھے گھڑی نما سمارٹ بینڈ سے پولیس کو ایسی معلومات ملی ہیں جن سے قاتل کی پہچان اور اس تک رسائی ممکن ہو گئی ہے۔ یہ سمارٹ بینڈ نبض کی رفتار‘ قدموں اور نیند کا دورانیہ خود بخود ریکارڈ کر سکتا ہے۔ پولیس کو اس بینڈ کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ تین بجکر بیس منٹ پر مقتولہ کے دل کی رفتار اچانک تیز اور اس کے آٹھ منٹ بعد نبض چلنا بند ہو گئی۔ ان معلومات سے موقع پر موجود افراد کی موجودگی کا پتہ چلایا گیا اور ایک مشتبہ شخص‘ جو خاتون کا رشتہ دار بھی ہے‘ کو شامل تفتیش کر لیا گیا۔ کلائی پر باندھے جانے والے یہ الیکٹرانک بینڈز دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں اور اپنی صحت بارے فکرمند لوگ انہیں استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک دن میں انسان کتنے قدم چلتا ہے‘ اس کا دل کتنی مرتبہ دھڑکتا ہے اور وہ کتنے گھنٹے کے لئے سوتا ہے‘ یہ سب اس کلائی پر باندھے جانے والے الیکٹرانک بینڈ سے معلوم ہو سکتا ہے۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے‘ سائنسی اختراعات اس امر پر مہر تصدیق ثبت کرتی چلی جا رہی ہیں کہ اس کائنات اور اس میں موجود جمیع مخلوقات کو چلانے والا رب واقعتاً موجود ہے جس نے اپنی کتاب حمید میں فرمایا کہ وہ انسان کی ہر حرکت‘ ہر جنبش اور دلوں میں آنے والے ہر خیال سے واقف ہے۔ ایسی ایجادات دراصل انسان کے اپنے رب اور روز قیامت پر ایمان کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔ ایک جگہ یہ فرمایا ہے کہ انسان کے بارے میں تمام معلومات ایک رجسٹر میں محفوظ کی جا رہی ہیں۔ ہم اسے دوسرے لفظوں میں میموری کارڈ بھی کہہ سکتے ہیں جیسا ہمارے موبائل میں موجود ہوتا ہے اور ہمارے موبائل فون میں ہونے والی ہر ایکٹیوٹی کو محفوظ رکھتا ہے۔ سائنسدانوں نے تو ایسی چپ بھی ایجاد کر لی ہے جو اگر کسی انسان کے دماغ کے قریب لگا دی جائے تو اس کے دماغ میں آنے والے خیالات بھی ریکارڈ ہو سکتے ہیں۔ سٹیفن ہاکنگ اس کی ایک بہترین مثال ہیں۔ اس عظیم سائنسدان کے جسم کا ہر حصہ حتیٰ کہ آنکھ کی پتلیاں تک مفلوج ہو چکی تھیں اور وہ ایک ویل چیئر تک محدود ہو کر رہ گیا تھا؛ تاہم اس نے اس حالت میں بھی زندگی کو بھرپور انداز میں جینے کا فیصلہ کیا۔ انٹیل کارپوریشن نے سٹیفن کے لئے خصوصی طور پر ایک کمپیوٹر چپ بنائی جو اس کے دماغ میں نصب کی گئی۔ اس کے ذریعے ایک تار منسلک کیا گیا‘ جس کا دوسرا سرا کمپیوٹر سے جا ملتا تھا۔ سٹیفن ہاکنگ جو بھی کہنا چاہتا انہیں خیالات کے ذریعے ذہن میں لاتا اور اس کے دماغ میں لگی مائیکرو کمپیوٹر چپ ان خیالات کو الفاظ میں تبدیل کر کے کمپیوٹر پر درج کرتی جاتی۔ یوں سٹیفن نے کئی کتابیں لکھ ڈالیں اور یہ ثابت کر دیا کہ انسان کا حوصلہ بلند ہو تو وہ ہر قسم کی بیماری اور بحران کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ سائنس جس تیزی سے ترقی کر رہی ہے آج سے تیس چالیس برس بعد نہ جانے کیا کچھ تبدیل ہو چکا ہو گا۔ حتیٰ کہ سفر کے روایتی طور طریقے بھی ناپید ہو جائیں گے۔ فی الوقت پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں جدید ممالک میں ختم ہو رہی ہیں اور ان کی جگہ ہائبرڈ یا الیکٹرک گاڑیاں لے رہی ہیں۔ امریکہ میں چھتیس فیصد گاڑیاں بجلی سے چارج ہوتی ہیں اور یوں فضائی آلودگی اور اخراجات دونوں میں نمایاں کمی آتی ہے۔ آہستہ آہستہ گاڑیوں کی جگہ ہوائی گاڑیاں لے لیں گی۔ اس کی ایک ابتدائی شکل ہوائی ٹیکسیوں کی صورت میں تیار ہو چکی ہے۔ موبائل ایپ کے ذریعے ٹیکسی سروس فراہم کرنے والی عالمی کمپنی اوبر نے اعلان کیا ہے کہ وہ صرف ایک سال کے وقفے کے بعد 2020ء سے اپنی نوعیت کی پہلی ہوائی ٹیکسی کی ٹیسٹ فلائٹ شروع کر دے گی۔ یہ ہوائی ٹیکسیاں بغیر ڈرائیور یا پائلٹ اڑیں گی اور ایک بٹن دبانے پر مسافر اپنی منزل پر پہنچ جایا کریں گے۔ یہ ہوائی ٹیکسیاں ڈیڑھ سے دو سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین سے ایک سے دو ہزار فٹ کی بلندی پر اڑیں گی۔ انہیں بجلی سے چارج کیا جا سکے گا اور ایک مرتبہ چارجنگ کے بعد ساٹھ میل تک پرواز کر سکیں گی۔ ایک ہوائی ٹیکسی کو چارج کرنے میں صرف پانچ سے آٹھ منٹ درکار ہوں گے۔ یہ مسافروں کو اتارنے کیلئے اتریں گی تو نئے مسافروں کے بیٹھنے تک دوبارہ چارج ہو جایا کریں گی۔ ایک ہوائی ٹیکسی میں چار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہو گی۔ کمپنی ابتدا میں ایک مسافر سے چھ ڈالر فی میل کرایہ چارج کرے گی۔ عام ہیلی کاپٹروں کے برعکس اُوبر کی ہوائی ٹیکسیاں انتہائی خاموشی سے اڑیں گی اور ان کے پنکھوں وغیرہ کا شور بھی نہیں ہو گا۔ ابتدا میں یہ کمپنی ائیرپورٹس‘ ہیلی پیڈز اور عمارتوں کی چھتوں کو استعمال کرے گی، بعدازاں اوبر اپنے الگ ایئرٹیکسی پیڈ تعمیر کرے گی۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے انسانوں کے لئے معاشی مواقع البتہ کم ہو رہے ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان افرادی قوت اور مزدور طبقے کو ہو رہا ہے کیونکہ آٹومیشن اور مشین لرننگ انہیں سب سے زیادہ متاثر کر رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ایسے روبوٹ تیار کیے جا رہے ہیں جو انسانوں کی جگہ لے سکیں۔ یونیورسٹی آف نیگو اسرائیل کے محققین نے ایسا ہی ایک روبوٹ تیار کر لیا ہے جو مستقبل میں کاشتکاری کے لئے استعمال ہو سکے گا۔ روبوٹ کا نام سویپر رکھا گیا ہے۔ایسے روبوٹس کی تیاری سے عام مزدوروں اور کسانوں کی ضرورت کم ہو جائے گی اور کاشتکاری کے لئے لاگت میں بہت زیادہ کمی آئے گی کیونکہ عام انسانوں کے برعکس یہ روبوٹ ہفتے کے ساتوں دن اور چوبیس گھنٹے معیاری کام اور بہتر کارکردگی دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ باغات میں درختوں پر لگے پھل اتارنے اور زمین پر موجود سبزیاں اکھاڑنے کا کام بھی کر سکتا ہے اور اس کے کام کی رفتار عام کسان سے کہیں زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسے روبوٹس زرعی صنعت میں ایک انقلاب برپا کر دیں گے۔ اجناس کے ضیاع پر قابو پانے میں بھی مدد دیں گے۔ یہ روبوٹس مارکیٹ میں چار سے پانچ سال بعد فروخت کے لئے دستیاب ہوں گے۔ چین نے تو ایک ایسا روبوٹ بھی تیار کر لیا ہے جو ٹی وی پر خبریں پڑھنے کے لئے استعمال ہو گا۔ جو خبریں ٹائپ کرکے اس کی میموری میں بھیجی جائیں گی وہ انہیں فر فر پڑھتا چلا جائے گا۔ یہ روبوٹ ٹی وی چینلز کے بہت کام آئے گا جنہیں نیوز اینکرز کو عام سٹاف سے کہیں زیادہ معاوضہ دے کر اپنے چینل میں لانا پڑتا ہے۔ چینل مالکان کو ایسے روبوٹس اینکرز کا خرچ ایک مرتبہ اٹھانا پڑے گا اور پھر وہ بیس بیس سال انہیں مفت استعمال کر سکیں گے۔ یہ روبوٹ چونکہ تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ بھی نہیں کریں گے اس لئے چین میں ایسے روبوٹ کی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ فی الوقت یہ چینی اور انگریزی زبان میں خبریں پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تاہم دیگر زبانوں کے لئے بھی روبوٹ نیوز اینکر تیار کئے جا رہے ہیں۔
یہ سب دیکھ کر لگتا ہے آج سے تیس چالیس پچاس برس بعد تو دنیا ہی بدل چکی ہو گی؛ تاہم ٹیکنالوجی کے اس قدر پھیلائو نے انسانوں کی اہمیت کو کم اور ان کو ایک دوسرے سے بہت دور کر دیا ہے۔ لوگ رشتے ناتے بھول چکے ہیں۔ خوشی غمی میں جانا بھی محدود ہو گیا ہے۔ پہلے ساتھ والے ہمسائے کا حال پتہ نہیں ہوتا تھا اب ایک گھر میں موجود بچے اور والدین ایک دوسرے سے کٹ چکے ہیں۔ ہر کوئی موبائل فون سے چپک کر بیٹھا ہے جبکہ موبائل سگنلز کی لہریں اعصاب پر کس خوفناک انداز سے اثر انداز ہو رہی ہیں‘ کس بری طرح نیند اور نظام انہضام کو متاثر کر رہی ہیں اس کا کسی کو اندازہ ہی نہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس شور اور جھنجٹ سے تنگ آ کر جب کبھی گائوں کا چکر لگتا ہے‘ ہرے بھرے کھیتوں اور کچے راستوں پر چند لمحات گزرتے ہیں‘ مٹی کی سوندھی خوشبو اور کوئل کا نغمہ جب کان میں رس گھولتا ہے تو دل چاہتا ہے کاش یہ ٹیکنالوجی‘ یہ موبائل فون یہ سب چیزیں ایجاد نہ ہوئی ہوتیں تو ہم آج بھی زندگی کی اصل خوبصورتی اور تازگی سے محظوظ ہو رہے ہوتے‘ ہم ایک دوسرے سے اتنے دُور نہ ہوتے!