"ACH" (space) message & send to 7575

پراپرٹی کی خریدوفروخت کیسے آسان ہوئی؟

احمد عدنان برطانوی نژاد اور پیدائشی معذور ہے۔ اس کے والد اجمل خان لندن کے ایک کالج میں استاد تھے۔ 1997ء میں اجمل خان کو دل کا دورہ پڑا اور وہ جانبر نہ ہو سکے۔ والد کی وفات کے بعد احمد عدنان‘ اس کی والدہ اور دو بہنیں پاکستان آ گئے۔ گلبرگ کے پوش علاقے میں ان کی آبائی کوٹھی تھی جس کا نگران ان کے مرحوم والد نے اپنے عزیز عبدالحمید کو مقرر کیا تھا؛ تاہم احمد کے والد کی وفات کے بعد عبدالحمید کی نیت خراب ہو گئی۔ اس نے پراپرٹی کے جعلی کاغذات بنوائے اور ساڑھے چار کروڑ کی کوٹھی کا مالک بن بیٹھا۔ یہ سن 2000ء کی بات ہے۔ آج اس پراپرٹی کی قیمت اٹھاسی کروڑ سے زائد ہے‘ لیکن احمد عدنان اور اس کی فیملی اس پراپرٹی کی دہلیز تک پار نہیں کر سکتے۔ احمد بیس برس سے قانون کا دروازہ کھٹکھٹائے جا رہا ہے لیکن دروازہ ابھی تک بند ہے۔ 
محمود خان بھی اوورسیز پاکستانی اور برطانوی شہر‘ برمنگھم میں مقیم ہے۔ یہ سترہ برس قبل برطانیہ پہنچا‘ مختلف ریسٹورنٹس میں چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں اور پانچ چھ برس کی مشقت کے بعد چھوٹا سا گروسری سٹور کھولنے میں کامیاب ہو گیا۔ چند برس بعد اس کی باقی فیملی بھی برطانیہ منتقل ہو گئی۔ یہ سب معاشی طور پر تو آسودہ ہو گئے لیکن ایک پریشانی ابھی باقی تھی۔ محمود خان سب کچھ برطانیہ لے آیا تھا لیکن اس کا دل پاکستان میں رہ گیا تھا۔ وہ جانتا تھا‘ برطانیہ میں وہ جتنی بھی ترقی کر لے‘ جتنا بھی آگے نکل جائے اسے سیکنڈ کلاس سٹیزن ہی شمار کیا جائے گا اور اس کے بچے اگر برطانوی کلچر میں رنگے گئے تو اس کے پاس کچھ بھی باقی نہیں بچے گا؛ چنانچہ اس نے عہد کر لیا کہ وہ چند برس مزید رہنے کے بعد پاکستان واپس آ جائے گا‘ یہاں کوئی کاروبار کرے گا اور اپنی فیملی کو بھی واپس بلا لے گا۔ وہ برطانیہ آ تو گیا لیکن برطانیہ کا رنگ اس پر نہ چڑھ سکا۔ آئے روز مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کے ساتھ ناروا سلوک کی خبریں سامنے آتیں تو اس کا دل چاہتا وہ اُڑ کر واپس اپنے وطن چلا جائے۔ معاشی مجبوریاں نہ ہوتیں تو وہ کبھی یہاں نہ آتا۔ محمود خان فیصل آباد کا رہائشی تھا‘ جہاں اس کا آبائی گھر اور کچھ زرعی زمین موجود تھی۔ برطانیہ میں گروسری سٹور کا تجربہ کامیاب رہا تو اس نے فیصلہ کیا کہ اپنی زمین بیچ کر فیصل آباد میں کمرشل پلاٹ لے گا‘ اور اس پر جدید طرز کا بڑا گروسری سٹور بنائے گا۔ اس مقصد کے لئے وہ 2015ء میں ایک ہفتے کے لئے پاکستان آیا۔ اس نے زرعی زمین فروخت کرنے کی کوشش کی تو پٹواریوں اور دیگر محکموں نے اسے اتنے چکر لگوائے کہ اسے دن میں تارے نظر آ گئے۔ وہ پورے سات روز پاکستان میں رہا لیکن اپنی پراپرٹی کی خرید و فروخت کے لئے ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکا۔ حتیٰ کہ سٹامپ پیپر کا حصول تک اس کے لئے عذاب بن گیا۔ کبھی اسے کہا جاتا کہ سٹامپ پیپر ختم ہو گئے ہیں‘ تو کبھی اس سے ایک کروڑ کے سٹامپ پیپر کے عوض پانچ فیصد یا پانچ لاکھ رشوت مانگی جاتی۔ انہی چکروں میں سات دن گزر گئے‘ اس کی فلائٹ کا وقت ہو گیا اور مایوس ہو کر وہ واپس پلٹ گیا۔ کوئی دو ماہ قبل اسے وطن کی یاد ستائی تو دوبارہ پاکستان آنے اور پراپرٹی خریدنے کا فیصلہ کیا۔ کسی دوست نے اسے بتایا کہ اب نظام بدل چکا ہے‘ اور بہت سا کام آن لائن ہو جاتا ہے۔ ہدایات کے مطابق وہ ای سٹیپمنگ کی ویب سائٹ پر گیا۔ برطانیہ میں بیٹھے بیٹھے اس نے آن لائن ہی اپنے فارم پُر کئے‘ اسی ویب سائٹ میں زمینوں کی ڈی سی ریٹس کے مطابق قیمتیں موجود تھیں‘ اپنی زمین کی ویلیو کا پتہ چلانے میں اسے پانچ منٹ لگے۔ آن لائن ضروری معلومات مکمل کرنے کے بعد اس نے پاکستان میں اپنے رشتے دار سے کہا کہ بینک سے سٹامپ پیپر لے آئے۔ یہ سٹامپ پیپر بار کوڈ پر مبنی تھا‘ جس کی آن لائن تصدیق ممکن تھی۔ یہ ساری چیزیں اس کے لئے حیرت کا باعث تھیں۔ اسے یقین تھا اب اس کے ساتھ کوئی فراڈ نہ ہو گا‘ اس کا زیادہ وقت لگے گا اور نہ ہی اسے کسی کو رشوت دینا پڑے گی۔ اس نے آن لائن تمام چیزیں مکمل کیں اور صرف تین دن کے لئے پاکستان آیا۔ پُر رونق علاقے میں ایک کمرشل پلاٹ پسند کیا‘ ای سٹامپ پیپر لئے اور سب رجسٹرار کے سامنے پیش ہو کر اپنی زمین کی فروخت اور کمرشل پلاٹ خریدنے کا عمل صرف تین دن میں مکمل کر لیا۔ کسی بھی زمین کی خرید و فروخت کے لئے اس زمین کی کل لاگت کا تین فیصد سٹامپ ڈیوٹی کے طور پر حکومت کو ادا کرنا ہوتا ہے‘ اور اس سٹامپ ڈیوٹی کی ادائیگی کے لئے سٹامپ پیپر درکار ہوتے ہیں۔ ماضی میں جب محمود پاکستان آیا تھا تو صرف سٹامپ پیپر کے حصول کے لئے پانچ سے سات دن لگ جاتے تھے‘ لیکن اس مرتبہ سارا عمل چند گھنٹوں میں مکمل ہو گیا۔ اسے ٹریژری آفس کے دھکے نہیں کھانے پڑے‘ طویل قطاروں میں نہیں لگنا پڑا اور وہ صرف تین روز میں پراپرٹی کی خریدوفروخت سے فارغ ہو کر جون جولائی میں گروسری سٹور شروع کرنے کی نیت لے کر برطانیہ واپس چلا گیا۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ ای سٹیمپنگ منصوبے سے نہ صرف کروڑوں پاکستانی فائدہ اٹھا رہے ہیں بلکہ اس کے چرچے موجودہ وفاقی حکومت کی مالیاتی پالیسی بھی کھول کر بیان کر رہی ہے۔ میں نے وفاقی حکومت کی مالیاتی پالیسی برائے 2018-19 کا مطالعہ کیا تو اس کے صفحہ نمبر تئیس پر حیران کن اعداد و شمار دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ سال 2017-18 کے دوران سٹامپ ڈیوٹی کی مد میں حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق صوبوں نے مجموعی طور پر 64 فیصد اضافی ریونیو حاصل کیا تھا‘ جس میں پنجاب نے پچھلے سال کے مقابلے میں 80 فیصد زائد ریونیو حاصل کیا جبکہ سندھ کا اضافی ریونیو 17 فیصد‘ خیبر پی کے 29 فیصد اور بلوچستان کا 2 فیصد تھا۔ رپورٹ میں پنجاب کے باقی صوبوں کی نسبت اس نمایاں فرق کی بنیادی وجہ واضح طور پر ای سٹیمپنگ کو قرار دیا گیا ہے۔ پنجاب آئی ٹی بورڈ نے یہ منصوبہ محکمہ مال کے اشتراک سے وضع کیا تھا‘ جس کے تحت پرانی تاریخوں والے بوگس سٹامپ پیپر حاصل کرنا بھی ممکن نہیں رہا‘ بلکہ ہر سٹامپ پیپر کی ایس ایم ایس اور بار کوڈ کے ذریعے تصدیق کی جا سکتی ہے۔ اس منصوبے کی وجہ سے مقامی اور سمندر پار پاکستانیوں کی پراپرٹی محفوظ اور خریدوفروخت پر اعتماد بحال ہوا ہے۔ یہ منصوبہ سابق حکومت نے 2016ء میں شروع کیا تھا‘ اور اچھی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اس کا دائرہ کار بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ ماضی کی حکومتوں میں پرانے منصوبے جہاں تھے وہیں ختم کر دیے جاتے تھے جس سے ناقابل تلافی معاشی اور عوامی نقصان ہوتا تھا۔ ای سٹیمپنگ منصوبے کے ڈائریکٹر جنرل ساجد لطیف کے مطابق آئندہ چند ماہ میں ایک ہزار سے کم مالیت والے ای سٹامپ پیپر بھی متعارف کرا دئیے جائیں گے جس کے بعد ریونیو میں زبردست اضافہ مشاہدے میں آئے گا۔ فی الوقت ایک ہزار روپے یا اس سے زائد مالیت کے جوڈیشل اور نان جوڈیشل مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ سٹامپ پیپر دستیاب ہیں اور دو برسوں میں 112 ارب 72 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے ساڑھے اکتالیس لاکھ سٹامپ پیپرز فروخت کئے جا چکے ہیں۔
ای سٹیمپنگ کی کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کو جتنے بھی مسائل درپیش ہیں ان کا واحد حل تمام سرکاری اور عوامی منصوبوں کی ٹیکنالوجی پر فوری منتقلی ہے۔ ٹیکسوں کی ادائیگی کا عمل بھی آسان اور آن لائن کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگ ٹیکس دینا چاہتے ہیں‘ لیکن پیچیدہ اور طویل طریقہ کار کی وجہ سے آمادہ نہیں ہو پاتے۔ موجودہ حکومت کو سپورٹ کرنے میں اوورسیز پاکستانیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ لہٰذا حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کا خیال کرے‘ ان کے مسائل حل کرے اور ایئرپورٹ آمد سے لے کر دیگر عوامل تک کو آسان تر بنائے۔ ای سٹیمپنگ کا یہی نظام اگر پہلے نافذ ہو جاتا تو برطانوی نژاد معذور احمد عدنان جیسے لوگوں کی جائیداد پر قبضے ہوتے نہ ہی جعلی سٹامپ پیپر بنا کر مالکانہ حقوق حاصل کئے جاتے۔ یہ نظام دیگر صوبوں میں نافذ ہو جائے تو پورا پاکستان پراپرٹی کی خریدوفروخت میں پیدا ہونے والی ان آسانیوں سے فائدہ اٹھا سکے گا‘ اور کوئی چالباز کسی معذور‘ کسی بیوہ‘ کسی یتیم اور کسی اوورسیز پاکستانی کی جائیداد ہتھیانے اور اس کا آشیانہ چھیننے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں