زندگی جس قدر مصنوعی ہوتی جا رہی ہے‘ اتنی ہی خطرناک اور پیچیدہ بھی۔ مصنوعی ذہانت کو ہی لے لیں۔ آرٹی فیشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت اس وقت ٹیکنالوجی کی جدید ترین قسم ہے۔ یہ تیزی سے انسانوں کی جگہ لے رہی ہے۔ آپ گوگل کی بغیر ڈرائیور چلنے والی کار کی مثال دیکھ لیں۔ گوگل آج سے دس برس پہلے یہ گاڑی بنا چکا ہے جو کسی ڈرائیور کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتی ہے۔ گوگل کے اس منصوبے کا نام وے مو ہے۔ وے مو کار امریکہ کی چھ ریاستوں اور پچیس شہروں میں پانچ لاکھ کلومیٹر کی ٹیسٹ ڈرائیو کر چکی ہے۔ گاڑی میں ایک کمپیوٹر نصب ہے جو سیٹیلائٹ سے جڑا ہوا ہے۔ گاڑی کے چاروں اطراف مختلف کیمرے اور سینسرز لگے ہیں جو اسے چلنے میں مدد دیتے ہیں۔ گوگل چاہتا تو اسے بہت پہلے ہی مارکیٹ میں لا سکتا تھا‘ لیکن امریکہ میں قوانین مختلف ہیں۔ وہاں انسانی جان اور املاک کے سو فیصد تحفظ کے بغیر کوئی بھی ایجاد مارکیٹ میں نہیں آ سکتی۔ گزشتہ برس وے مو گاڑی کو دس برس مکمل ہوئے تو گوگل کی خود سے چلنے والی گاڑی کو سڑک پر آنے کی اجازت مل گئی۔ پانچ دسمبر کو وے مو ون کے نام سے پہلی خودکار ٹیکسی ریاست ایریزونا میں منظر عام پر آئی جسے صارفین ایک اپیلی کیشن کی مدد سے اپنے گھر‘ دفاتر یا مارکیٹ میں بلا سکتے تھے۔ ایسی ہی ٹیکسی سروس کا ٹرائل دبئی میں بھی شروع ہو چکا ہے۔ اس گاڑی میں چار افراد سفر کر سکتے ہیں اور اس کی زیادہ سے زیادہ سپیڈ پینتیس کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی۔ گاڑی کے چاروں کونوں میں ایک ایک سنسر لگا ہے‘ جبکہ گاڑی کے آگے پیچھے اور اندر بھی کیمرے ہیں۔ گاڑی کی فرنٹ گرل میں دو ریڈار جبکہ ایک ریڈار چھت پر ہے۔ یہ ریڈار گاڑی کو کسی بھی حادثے سے بچانے کے لئے سگنل کا کام کریں گے۔ ایسے ہی ریڈار کئی جاپانی گاڑیوں میں بھی لگے ہیں جو پاکستان میں چل رہی ہیں۔ جیسے ہی کوئی شخص یا چیزگاڑی کے سامنے آتی ہے تو یہ ریڈار ایک سگنل جاری کرتا ہے جس سے گاڑی فوراً آہستہ ہو جاتی یا رُک جاتی ہے۔ اسی طرح موبائل ایپ کے ذریعے ٹیکسی سروس فراہم کرنے والی ایک کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ صرف ایک سال بعد 2020ء سے اپنی نوعیت کی پہلی ہوائی ٹیکسی کی ٹیسٹ فلائٹ شروع کر دے گی۔ یہ سروس بھی دبئی میں شروع کی جائے گی اور اس کی ٹیسٹنگ کا عمل بھی جاری ہے۔ یہ ہوائی ٹیکسیاں بغیر ڈرائیور یا پائلٹ اڑیں گی اور ایک بٹن دبانے پر مسافر اپنی منزل پر پہنچ جایا کریں گے۔ یہ ہوائی ٹیکسیاں ڈیڑھ سے دو سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین سے ایک سے دو ہزار فٹ کی بلندی پر اڑیں گی۔ انہیں بجلی سے چارج کیا جا سکے گا اور ایک مرتبہ چارجنگ کے بعد 60 میل تک پرواز کر سکیں گی۔ ایک ہوائی ٹیکسی کو چارج کرنے میں صرف پانچ سے آٹھ منٹ درکار ہوں گے۔ یہ مسافروں کو اتارنے کیلئے اتریں گی تو اس دوران نئے مسافروں کے بیٹھنے تک دوبارہ چارج ہو جایا کریں گی۔ ایک ہوائی ٹیکسی میں چار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہو گی۔ کمپنی ابتدا میں ایک مسافر سے چھ ڈالر فی میل کرایہ چارج کرے گی۔ عام ہیلی کاپٹروں کے برعکس یہ ہوائی ٹیکسیاں انتہائی خاموشی سے اڑیں گی اور ان کے پنکھوں وغیرہ کا شور بھی نہیں ہو گا۔ ابتدا میں یہ کمپنی ائیرپورٹس‘ ہیلی پیڈز اور عمارتوں کی چھتوں کو استعمال کرے گی، بعدازاں کمپنی اپنے الگ ایئر ٹیکسی پیڈ تعمیر کرے گی۔ ٹیکسیوں کے علاوہ مصنوعی ذہانت کا استعمال روبوٹس میں بھی بہت زیادہ عام ہو چکا ہے۔ جاپان اور دیگر جدید ممالک میں یہ روبوٹس مختلف جگہوں پر آپ کی معاونت کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ استقبالیے پر موجود ہوتے ہیں اور آپ جس شعبے میں جانا چاہتے ہیں‘ یہ آپ کی مکمل رہنمائی کرتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی ایک اور قسم مصنوعی دکان ہے‘ جہاں کوئی دکاندار موجود نہیں ہوتا اور آپ مشین میں پیسے ڈال کر اپنی مرضی کی چیز حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں بھی مختلف شاپنگ سٹورز وغیرہ میں ایسی مشینیں نصب ہو چکی ہیں‘ جن میں چاکلیٹس‘ بسکٹس‘ چپس وغیرہ رکھے ہوتے ہیں۔ آپ دس بیس پچاس یا کوئی نوٹ داخل کرکے مطلوبہ چیز کا نمبر سیلیکٹ کرتے ہیں تو وہ چیز نہ صرف نیچے خانے میں آ جاتی ہے بلکہ آپ کو آپ کی بقایا رقم بھی فوری مل جاتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ایک اور مثال وائس ٹو ٹیکسٹ فیچر ہے۔ یعنی آپ بولتے جاتے ہیں اور سکرین پر الفاظ ٹائپ ہو جاتے ہیں۔ یہ سہولت ہمارے موبائل فونز میں موجود ہے اور اب تو اردو میں بھی ٹائپنگ ہو جاتی ہے۔ گوگل سینکڑوں زبانوں میں یہ سروس مہیا کر چکا ہے۔ مصنوعی ذہانت کا استعمال جنگی آلات میں بھی ہو رہا ہے۔ بالخصوص ڈرونز میں اپنے ہدف کو نشانہ بنانے یا مختلف جگہوں کی تصاویر بنانے کی صلاحیت اسی مصنوعی ذہانت کی وجہ سے ہے۔ اسی طرح مصنوعی ذہانت کی ایک روزمرہ مثال ہمارے موبائل میں موجود گوگل نیوی گیشن میپ ہے‘ جس کی مدد سے ہم کسی مقام پر بآسانی پہنچ پاتے ہیں۔ ہم اس سافٹ ویئر میں صرف اپنی منزل مقرر کرتے ہیں باقی کا کام موبائل سافٹ ویئر خود انجام دیتا ہے۔ یہ آپ کو قریب ترین راستے سے منزل تک پہنچاتا ہے۔ اس دوران اگر آپ غلط سمت مڑتے ہیں تو یہ بول کر آپ کو مطلع کرتا ہے اور آپ کی سمت درست کر دیتا ہے۔ بینکنگ میں بھی مصنوعی ذہانت کا استعمال ہو رہا ہے۔ اے ٹی ایم مشین اس کی ایک مثال ہے جس سے ہم بغیر کسی انسانی مدد کے پیسے نکلواتے ہیں۔ اب تو پیسے جمع کرنے والی مشینیں بھی بعض بینکوں میں موجود ہیں۔ آپ جتنے پیسے مشین میں ڈالیں گے‘ یہ آپ کے متعلقہ اکائونٹ میں پہنچ جائیں گے۔ اسی طرح چیک جمع کرنے والی مشینیں بھی لگ چکی ہیں۔ آپ سکرین پر اپنا اکائونٹ نمبر درج کرکے اپنا چیک مشین میں ڈال دیتے ہیں‘ جو بعد ازاں آپ کے اکائونٹ میں پہنچ جاتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ایک عام مثال آن لائن سکیورٹی کیمرے ہیں۔ جیسے ہی کوئی ان کے سامنے سے گزرتا ہے یہ اس کی حرکت کو ریکارڈ کرکے اس کی تصاویر آپ کو ای میل یا ویب سائٹ پر بھیج دیتے ہیں۔ سمارٹ ہوم کا ٹرینڈ بھی پاکستان میں آ رہا ہے۔ اس میں آپ کے گھر کے مرکزی دروازے سے لے کر گھر کی بتیوں‘ پنکھوں‘ ایئرکنڈیشنر اور پردوں تک سبھی چیزیں خودکار طریقے سے کنٹرول ہوتی ہیں۔ یہ علی بابا کی کہانی کھل جا سم سم کی جدید قسم ہے۔ اس میں آپ وائس کمانڈز اور مقررہ ٹائمنگز کے ذریعے گھر کے آلات کنٹرول کر سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ آپ اگر صبح ٹھیک سات بجے کافی پینا چاہتے ہیں تو آپ کافی مشین میں ایک مرتبہ ٹائمنگ نوٹ کروا دیں تو آپ کو مقررہ وقت پر کافی تیار ملے گی۔ اسی طرح آپ گھر کی باہر کی بتیاں صبح ہونے پر بند دیکھنا چاہتے ہیں تو بھی ایک خودکار نظام کے تحت یہ بند ہو جایا کریں گی اور ہر بٹن کو جا کر الگ الگ بند نہیں کرنا پڑے گا۔
یہ صرف چند مثالیں تھیں‘ جدید ممالک میں تو مصنوعی ذہانت پر اربوں ڈالر کی تحقیق کی جا رہی ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس سے کام لیا جا رہا ہے۔ انسان یہ دیکھے بغیر کہ اس سے انسانیت کو فائدہ ہو گا یا نقصان اندھا دھند ٹیکنالوجی کی دوڑ میں انسانیت کو روندنے میں لگا ہے۔ اس مصنوعی ذہانت نے جہاں زندگی کو مزید مصنوعی بنا دیا ہے‘ وہاں اربوں انسانوں کو بھی مستقبل کے نئے خطروں اور اندیشوں سے دوچار کر دیا ہے۔ آپ خود دیکھیں کہ اگر گاڑیاں بغیر ڈرائیور چلنے لگیں گی تو لاکھوں ڈرائیورز بے روزگار ہو جائیں گے‘ استقبالیہ پر روبوٹ بیٹھے گا تو ریسیپشنسٹ کی جاب ختم ہو جائے گی‘ خود کار مشین والی دکانیں ہوں گی تو سیلزمین کا کام ختم ہو جائے گا‘ خودکار کیمروں سے سکیورٹی کا کام لیا جائے تو سکیورٹی گارڈ کی ضرورت ختم ہو جائے گی‘ بینکوں میں سارا لین دین مشینیں کریں گی تو بینک کا سٹاف بے کار ہو جائے گا‘ غرضیکہ زندگی کے دیگر ایسے درجنوں شعبے ہیں جہاں مصنوعی ذہانت تیزی سے پنجے گاڑ رہی ہے اور انسانوں کے لئے معاشی خطرات پیدا کر رہی ہے۔ آپ خود سوچیں مشینیں انسان کی جگہ لے لیں گی تو انسان کہاں جائے گا‘ کہاں سے کمائے گا اور کیا کھائے گا‘ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب پالیسی سازوں اور سائنسدانوں کو ساتھ ہی ساتھ تلاش کر لینا چاہیے‘ وگرنہ اسی صدی میں ایک نئی عالمی جنگ شروع ہو جائے گی اور یہ روایتی جنگ نہیں ہو گی بلکہ انسانوں اور مصنوعی ذہانت والی مشینوں کے درمیان لڑی جائے گی اور اس جنگ کا سارا نقصان ان مشینوں کو نہیں بلکہ انسانوں کو ہی ہو گا۔