میں جب کبھی حوصلہ ہارنے لگتا ہوں تو میرے سامنے فلپی کروزن اور سہیل احمد شاہانی آ جاتے ہیں۔
فلپی کروزن 1967ء میں فرانس کے شہر مارسیل میں پیدا ہوا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ لوہے کے ایک کارخانے میں ملازم ہو گیا۔ مارچ 1994ء کی بات ہے۔ اس کے ٹی وی سیٹ پر نشریات صاف دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ وہ چھت پر پہنچا اور لوہے کی سیڑھی پر چڑھ کر انٹینا درست کرنے لگا۔ اس دوران آسمانی بجلی چمکی اور سیدھا انٹینا پر آ گری۔ کروزن کا ہاتھ انٹینا پر تھا۔ بیس ہزار وولٹ کی برقی لہر کروزن کے جسم میں داخل ہو گئی۔ وہ بجلی کے جھٹکوں سے لرز اٹھا۔ وہ 26 منٹ تک تڑپتا رہا اور سیڑھی کے ساتھ چپک کر بے ہوش ہو گیا۔ اسے ہسپتال پہنچایا گیا تو اس کا پورا جسم ساکت تھا۔ ڈاکٹروں کے مطابق کروزن کی جان بچانے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ اس کا دایاں بازو‘ دائیں ٹانگ اور بایاں بازو کاٹ دیا جائے اور اگر پھر بھی بات نہ بنے تو بائیں ٹانگ بھی کاٹ دی جائے؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اس کے دونوں بازوئوں اور دونوں ٹانگوں کو جسم سے علیحدہ کر دیا گیا۔ یوں اس کی جان تو بچ گئی لیکن وہ عملی طور پر بے کار ہو گیا۔ وہ کھانے پینے‘ اٹھنے بیٹھنے‘ چلنے پھرنے حتیٰ کہ ہلنے جلنے کیلئے بھی لوگوں کا محتاج ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد ہسپتال میں اس نے ٹی وی پر ایک خاتون تیراک کو ایک مقابلہ جیتتے دیکھا۔ یہ دیکھ کر کروزن کے دل میں ایک عجیب خواہش پیدا ہوئی۔ اس نے فرانس اور برطانیہ کو ملانے والے سمندر کو تیر کر پار کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ بہترین تیراک تھا لیکن جیسے ہی اس نے اپنے جسم پر نظر ڈالی اس کا دل بجھ گیا۔ کچھ دیر وہ سوچتا رہا اور پھر اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ اس نے منصوبہ اپنی بیوی سے شیئر کیا۔ اس کی بیوی نے فرانسیسی نیوی کے چیف آف سٹاف کو ایک خط لکھا اور اس میں کروزن کیلئے سمندر میں تیراکی کیلئے خصوصی معاونت اور تربیت کی درخواست کی۔ چیف آف سٹاف نے درخواست قبول کر لی۔ یہ خبر فرنچ اخبار لی ٹیلی گرام میں شائع ہوئی تو فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی نے فلپی کروزن کو صدارتی محل میں مدعو کیا۔ اس کے اعزاز میں تقریب منعقد کی اور اس میں تمام حکومتی اور عسکری اداروں کو کروزن کی مکمل معاونت اور تربیت کی ہدایت کی۔ فرنچ میرین پولیس کا ایک خصوصی دستہ کوروزن کی ٹریننگ کیلئے وقف کر دیا گیا۔ اب سوال یہ تھا کہ کروزن تیرے گا کیسے۔ یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ کروزن کیلئے ماہر ڈاکٹرز نے دو مصنوعی بازو اور ٹانگیں تیار کیں۔ آپریشن کے ذریعے انہیں کروزن کے جسم سے منسلک کیا گیا اور بازوئوں اور ٹانگوں کے ساتھ پیراکی کیلئے دو خصوصی چپو نما ربڑ کے ہاتھ اور پائوں چڑھا دئیے گئے۔ ان اعضا کی تیاری پر اڑتالیس ہزار یورو خرچ ہوئے اور یہ ساری رقم فرنچ حکومت نے ادا کی۔ کروزن مسلسل دو سال تک کھلے سمندر میں روزانہ پانچ گھنٹے تیراکی کرتا رہا اور اس دوران فرانسیسی وزیر اعظم‘ فرانسیسی سیاستدان اور عوام کے خطوط اس کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ پھر وہ فرانس اور برطانیہ کو ملانے والے سمندر میں اتر گیا۔ یہ سفر خطرناک تھا اور خوفناک بھی۔ اس سمندر میں شارک مچھلیوں اور وہیل کے علاوہ ایروکانڈی جیسی جیلی فش بھی تھیں‘ جو کاٹ لیں تو انسان بیس سیکنڈ میں ہلاک ہو جاتا ہے۔ دونوں کناروں کا فاصلہ 24 کلومیٹر تھا۔ کروزن نے یہ فاصلہ تیرہ گھنٹے‘ بائیس منٹ میں طے کیا اور اس طرح انگلش چینل تیر کر پار کرنے والا دنیا کا پہلا معذور شخص بن گیا۔
دوسرا شخص سہیل احمد شاہانی ہے۔ یہ 1960ء میں پیدا ہوا۔ پیدائش کے وقت وہ بالکل نارمل تھا۔ دس سال کا تھا کہ اس کی زندگی میں ایک خطرناک موڑ آ گیا۔ سکول سے واپس آ رہا تھا کہ اسے ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔ وہ سہارا لے کر بیٹھ گیا۔ دوبارہ کھڑا ہوا مگر چند قدم چلنے کے بعد توازن برقرار نہ رکھ سکا اور لڑکھڑا کر گر پڑا۔ اسے فوراً قریبی کلینک لے جایا گیا مگر بیماری ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہ آئی۔ اس کے والدین اسے لے کر بڑے ہسپتالوں میں گئے‘ مگر اس کی حالت مزید بگڑتی گئی اور اس کا نچلا دھڑ مفلوج ہونے لگا۔ چند دنوں بعد اس کے ہاتھ اور بازوئوں نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا۔ انسانی جسم کے اعضا کی حرکت کا انحصار مسلز (پٹھوں) پر ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ سہیل کے جسم کے مسلز کمزور ہونا شروع ہو گئے۔ بیرون ملک علاج کی خاطر رابطہ کیا گیا تو علم ہوا کہ سہیل احمد خطرناک بیماری ''مسکولر ڈِس ٹروفی‘‘ کا شکار ہو چکا ہے۔ یہ جان کر سہیل کے والدین کی دنیا ساکت ہو گئی۔ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک‘ ان کا بیٹا‘ اُن کے سامنے بے سدھ پڑا تھا‘ مگر وہ بے بس تھے۔ وہ سب کچھ قربان کرکے بھی اسے صحت نہیں دلا سکتے تھے۔ مسکولر ڈس ٹروفی کی بیماری دس لاکھ میں سے ایک شخص کو ہوتی ہے اور ایسا شخص بیماری کے بعد دس پندرہ سال سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ سہیل کے ماں باپ اللہ کے حضور گڑگڑا کر اپنے جگر کے ٹکڑے کی صحت اور عافیت طلب کرتے۔ اللہ نے اُن کی دُعا سن لی اور میڈیکل سائنس کی تاریخ میں ایک عجیب و غریب کارنامہ رونما ہو گیا۔ وہ ڈاکٹر جو 1970ء کے عشرے میں ہی سہیل کی موت کی تاریخ دے چکے تھے‘ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ موت سہیل احمد کو چھو بھی نہ سکی اور وہ آج بھی زندگی کے طوفانوں کا ہمت اور حوصلے سے مقابلہ کر رہا ہے۔ سہیل احمد کو علم ہوا کہ ایک لا علاج بیماری اس کا مقدر بن چکی ہے تو اس کے ذہن میں خیال آیا کہ اگر وہ بازو‘ ٹانگیں‘ ہاتھ‘ پائوں اور گردن ٹھیک طرح سے نہیں ہلا سکتا‘ اگر وہ اربوں لوگوں کی طرح چل پھر اور کھیل کود نہیں سکتا تو کیا اسے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس کی زندگی ختم ہو چکی اور اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اس نے سر سے لیکر پائوں تک اپنا جائزہ لیا۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ بول سکتا ہے‘ سن سکتا ہے‘ کھا اور پی سکتا ہے‘ سونگھ سکتا ہے‘ پہچان سکتا ہے‘ سمجھ سکتا ہے‘ ہنس سکتا ہے‘ پڑھ سکتا ہے اور سب سے اہم یہ کہ اس کا دماغ بالکل ٹھیک کام کر رہا ہے تو اس نے رب کا شکر ادا کیا کہ اس کے پاس اب بھی لا تعداد نعمتیں موجود ہیں اور اسے ان نعمتوں کو استعمال میں لانا چاہیے۔ اس نے مزید تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی اور گریجوایشن کے بعد ایم اے کا امتحان بھی دے دیا۔ یہی نہیں‘ اس نے علم کی روشنی آگے پھیلانے کا فیصلہ کر لیا اور آج وہ نہ صرف درجنوں طالبعلموں میں تعلیم کی دولت بانٹ رہا ہے بلکہ ہمت اور بلند حوصلے کے ساتھ خطرناک بیماری کو بھی شکست دے رہا ہے ۔
میں جب بھی کبھی زندگی کی مشکلات میں حوصلہ ہارنے لگتا ہوں تو میری آنکھوں کے سامنے فلپی کروزن اور سہیل احمد شاہانی آ جاتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں ہمارے پاس جسم ہے‘ صحت ہے‘ وسائل ہیں اس کے باوجود ہم بعض اوقات مایوسی کی دلدل میں اترنے لگتے ہیں لیکن ایسے لوگ جو ہل جل نہیں سکتے‘ جو پانی کا کپ بھی اٹھا کر نہیں پی سکتے وہ ہم سے کتنے زیادہ حوصلہ مند‘ جفاکش اور پرامید دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے یہ دنیا کے صحتمند اور کامیاب ترین انسان لگتے ہیں اور خود سمیت کروڑوں لوگ معذور اور ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ ہم لوگ ذمہ داریوں سے بھاگنے اور بہانے تلاش کرنے والی قوم ہیں۔ ہمارا بخار تھوڑا طویل ہو جائے‘ کوئی سفارش نہ ملے‘ والدین ڈانٹ پلا دیں‘ پسند کی جگہ پر رشتہ نہ ہو سکے‘ نئے ماڈل کی گاڑی حاصل نہ کر سکیں یا ہم کسی امتحان میں فیل ہو جائیں تو فوراً قسمت کو کوسنے لگتے ہیں‘ سسٹم‘ حالات اور حکومت کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں اور فوراً سے پہلے دل چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ خدا نے ہمیں جو نعمتیں دی ہیں ہمیں ان کا ادراک اس وقت ہوتا ہے جب وہ ہمارے پاس نہیں رہتیں۔ اگر ہم پانی کا گلاس خود اٹھا لیتے ہیں‘ رفع حاجت خود کر لیتے ہیں اور دیکھنے‘ سننے‘ سونگھنے‘ چکھنے اور چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو ہم ان کروڑوں اربوں لوگوں سے بہتر ہیں جو یہ سب نہیں کر سکتے چنانچہ صحت کی صورت میں جو نعمتیں آپ کے پاس موجود ہیں ‘ ان کا بھرپور شکر ادا کیجئے‘ ان سے لطف اٹھائیے‘ ان کی قدر کیجئے اور زیادہ سے زیادہ کی تمنا دل سے نکال دیجئے‘ دل کا سکون واپس آ جائے گا۔