پاکستان ان چند بدنصیب ملکوں میں سے ہے جہاں لاکھوں جسمانی معذور افراد انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے لئے جسمانی معذوری اتنا بڑا المیہ نہیں‘ جتنا حکومت‘ معاشرے اور عزیزوں کا بے حس رویہ ہوتا ہے جو ان کے روزمرہ مسائل میں بے پناہ اضافے کا باعث بھی بنتا ہے۔ اگر کسی گھر میں کوئی شخص چلنے پھرنے سے معذور ہو جائے تو اسے گھر کا ایک بیکار جزو سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ وہ چوبیس گھنٹے‘ ہفتے کے ساتوں دن حتیٰ کہ برسوں تک کسی ناکارہ فرنیچر کی طرح ایک ہی کمرے میں پڑا رہتا ہے اور یہ بھی سوچنے کی زحمت نہیں کی جاتی کہ ایک انسان کے ساتھ ایسا سلوک اسلام تو کیا کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا۔ ترقی پذیر ممالک میں عمارتیں اور ٹرانسپورٹ کے ذرائع بناتے وقت معذور افراد کا بالکل بھی خیال نہیں رکھا جاتا اور ایسے ریمپ تک نہیں بنائے جاتے جہاں سے ویل چیئر کے ذریعے گزر کر آسانی کے ساتھ معذور افراد عمارتوں یا پبلک ٹرانسپورٹ میں داخل ہو سکیں۔ معذور افراد ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے ویل چیئر کے محتاج ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں ابھی تک روایتی قسم کی ویل چیئرز عام ہیں جن کو دھکا لگانے کے لئے ایک اضافی شخص کی ضرورت رہتی ہے؛ تاہم یہ ویل چیئرز بھی وہاں بے کار ہو جاتی ہیں جہاں پر ان کے جانے کے لئے ریمپ یا سلائیڈ موجود نہیں ہوتی۔ دوسری جانب ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیں تو وہاں پر کوئی عمارت ایسی بن ہی نہیں سکتی اور نہ ہی اس کا نقشہ اس وقت تک منظور ہوتا ہے جب تک اس میں ویل چیئر کے داخلے اور اخراج کا مناسب انتظام موجود نہ ہو۔ ترقی یافتہ ممالک ویل چیئر کے تصور سے کہیں زیادہ آگے نکل چکے ہیں۔ وہاں روایتی ویل چیئرز کی بجائے آٹو میٹک ویل چیئرز عام ہو چکی ہیں۔ انہیں چلانے کے لئے کسی شخص کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ انہیں چند بٹنوں کے ذریعے کسی چھوٹی سی گاڑی کی طرز پر چلایا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ ایسی گاڑیاں بھی بن چکی ہیں جن میں یہ ویل چیئرز داخل ہو جاتی ہیں اور معذور شخص وہ گاڑی چلا کر اپنی منزل پر اکیلا پہنچ سکتا ہے۔ ایسی ویل چیئرز بھی ہیں جنہیں آواز سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور ایسی بھی جنہیں آنکھوں کی پتلیوں کی حرکت سے چلایا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسی ویل چیئرز پر ٹیکس میں مکمل چھوٹ دینی چاہیے بلکہ حکومت سبسڈی دے کر انہیں مارکیٹ میں لائے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد استفادہ کر سکیں۔ دوسرے ممالک میں ایک پیدل چلنے والے شخص کی عزت ایک لیموزین گاڑی والے سے زیادہ ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ سڑک پر کوئی بطخ کا بچہ بھی آ جائے تو گاڑیاں فوری رک جاتی ہیں اور جب تک وہ سڑک پار نہیں کر جاتا‘ خاموشی سے کھڑی رہتی ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں پیدل شخص کو کیڑا مکوڑا سمجھا جاتا ہے اور وہ زیبرا کراسنگ بھی اس قدر ڈر کر پار کرتا ہے کہ کوئی گاڑی اسے روند کر ہی نہ نکل جائے۔
یہ کوئی داستان نہیں بلکہ لاہور کا ایک حقیقی واقعہ ہے۔ ایک شخص اپنے گھر کے بالائی کمرے میں بیس بائیس برس سے مقیم تھا‘ لیکن اس نے دو عشروں تک آسمان پر سورج نہیں دیکھا تھا۔ اس کی یہ وجہ نہیں تھی کہ اسے ہتھکڑیوں سے قید کیا گیا تھا بلکہ وہ ایک معذور شخص تھا اور اس کے گھر والے اس قدر بے حس تھے کہ اس کے لئے ویل چیئر کا انتظام بھی نہ کر سکے تھے۔ کسی کو اس کی فکر تھی نہ احساس کہ اس شخص کے دل پر کیا گزر رہی ہے اور وہ کس حال میں جی رہا ہے۔ بس روٹی کے کچھ ٹکڑے اس کے سامنے پھینک دئیے جاتے اور وہ ان پر جیتا رہا۔ یہ شخص شاید باقی زندگی بھی ایسے ہی جیتا رہتا لیکن قدرت کا کرنا دیکھیے کہ آج وہ شخص نہ صرف اس اندھیری دنیا سے نکل آیا ہے بلکہ ایک عام صحتمند اور فعال انسان جیسی زندگی بسر کر رہا ہے۔ اس شخص کے کسی عزیز کو خبر ہوئی کہ معذور افراد کو معاشرے کا کارآمد حصہ بنانے کے لئے مائل سٹون نامی ایک فلاحی ادارہ نیک نیتی سے کام رہا ہے۔ یہ نہ صرف معذور افراد کو ویل چیئر مہیا کرتا ہے بلکہ انہیں ہنرمند بھی بناتا ہے‘ ان کے چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو سامنے لاتا ہے‘ انہیں زندگی کے رنگوں سے آشنا کرتا ہے اور ایک عام انسان کی طرح جینے کا گُر سکھاتا ہے۔ یہ انہیں روزگار دلاتا ہے اور انہیں اس قابل بھی بناتا ہے کہ وہ کسی پر بوجھ بننے کی بجائے اپنا بوجھ خود اٹھا سکیں‘ ایک کمرے میں مقید ہونے کی بجائے دنیا میں جہاں چاہیں جا سکیں اور اپنی مرضی کی زندگی گزار سکیں۔ نہ جانے ہم کب سمجھیں گے کہ معذور افراد کا بھی معاشرے پر اتنا ہی حق ہے جتنا عام لوگوں کا۔ یہی شعور اجاگر کرنے کے لئے یہ ادارہ مختلف آگاہی پروگرام منعقد کرواتا ہے۔ ایسے ہی ایک آگاہی پروگرام کی خبر جب بیس برس سے ایک ہی کمرے میں پڑے اس شخص کے عزیز کو ملی تو اس نے اس بزرگ کو اس قید خانے سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بڑھتی ہوئی غربت‘ مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے بھی لوگ اپنے گھر میں موجود ایسے معذور افراد کی خاطر خواہ امداد نہیں کر پاتے‘ لہٰذا ایسے رفاہی اداروں‘ جو مکمل طور پر ان خصوصی افراد کے لئے اپنی توانائیاں اور وسائل وقف کئے ہوئے ہیں‘ کی وجہ سے ایسے ہزاروں معذور افراد کی زندگیاں بدل رہی ہیں اور وہ محتاجی کی بجائے آزادی کی زندگی بسر کرنے کے قابل ہو رہے ہیں۔
شفیق الرحمن بھی ایک ایسا ہی باہمت نوجوان ہے جس نے معذوری کو اپنے ٹیلنٹ اور جذبے سے شکست دی۔ اس کے خصوصی لیکچرز اور ویڈیوز ان افراد کے لئے نئی امید کا باعث بنتے ہیں جو معذوری کی وجہ سے دل شکستہ ہیں۔ میں نے فیس بک پر شفیق الرحمن کی چند متاثر کن ویڈیوز دیکھیں‘ جن میں وہ اپنی آواز ایوان اقتدار تک پہنچا رہا ہے اور آپ حیران ہوں گے کہ اس شخص نے معذوری کا جو مفہوم بیان کیا‘ اس کے بعد واقعتاً معذوری کی تعریف بدل گئی ہے۔ شفیق کا کہنا ہے کہ معذور افراد وہ نہیں جو ٹانگوں کی خرابی کی وجہ سے چل پھر نہیں سکتے بلکہ معذور وہ ہوتے ہیں جنہیں متحرک رہنے کے لئے وسائل مہیا نہیں ہوتے۔ شفیق کو مائل سٹون نے تربیت دی اور آج وہ پوری دنیا میں سفر کرتا ہے اور معذور افراد کے حقوق کی خاطر آواز بھی اٹھا رہا ہے۔ معذور افراد کو اگر ویل چیئرز فراہم کر بھی دی جائیں تو انہیں اس کا تب تک کوئی فائدہ نہیں جب تک شہری سطح پر عمارتوں‘ ہسپتالوں‘ شاپنگ مالز‘ سڑکوں اور گھروں میں داخلے کے لئے خصوصی ریمپ نہیں بنائے جاتے۔ وہ ایسی ویل چیئرز کا کیا کریں گے جس پر وہ بیٹھ تو سکتے ہیں لیکن ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے انہیں ویل چیئرز سمیت اٹھانا پڑتا ہے۔ جدید ممالک میں تو بسوں‘ ٹرینوں اور ہوائی جہازوں میں معذور افراد کے لئے سفر کے تمام لوازمات مہیا ہوتے ہیں‘ حتیٰ کہ ان کے باتھ روم تک الگ ہوتے ہیں‘ لیکن پاکستان جیسے ممالک میں ان امور کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ شفیق نے وزیر اعظم عمران خان کے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کے لئے اہم تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی ان گھروں کی ڈیزائننگ کا عمل شروع ہے‘ اس لئے اس موقع پر حکومت کو چاہیے کہ ان تمام گھروں میں ویل چیئر کے داخلے اور اخراج کا خاص خیال رکھے اور مرکزی دروازے سے صحن اور صحن سے لائونج وغیرہ میں داخلے کے لئے خصوصی ریمپ بنائے جائیں تاکہ ان گھروں میں اگر کوئی معذور افراد ہو تو اسے نقل و حرکت میں مشکل پیش نہ آئے۔ علاوہ ازیں تمام گھروں کا ڈیزائن ایک جیسا ہو تاکہ ہر جگہ یکسانیت نظر آئے۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ ہر گھر میں معذور شخص نہیں ہوتا‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جیسے جیسے انسان کی عمر ڈھلتی ہے‘ وہ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے‘ بیماریاں اسے گھیر لیتی ہیں اور تقریباً ہر گھر میں ایسا معمر شخص ہوتا ہے جسے آخری عمر میں ایک خاص عرصے کے لئے ویل چیئر کی ضرورت پڑتی ہے؛ چنانچہ نیا پاکستان ہائوسنگ فائونڈیشن اس مرحلے پر اگر یہ قدم اٹھا لے تو اس سے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔