سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں ایک ٹی وی چینل کی خبروں کے سکرین شاٹس میں بریکنگ نیوز دکھائی گئی تھی۔ جو بریکنگ نیوز لکھی نظر آ رہی تھی اس کے بارے میں مجھے اس لئے شک ہوا کہ اٹھارہ بیس سال کے صحافتی کیریئر میں اتنا اندازہ ہو چکا ہے کہ فلاں سیاستدان جتنا مرضی کرپٹ یا نااہل ہو‘ وہ مخالف کے بارے میں اس طرح کا بیان نہیں دے سکتا۔ میں نے اس ٹی وی چینل کا امیج محفوظ کیا اور اسے سافٹ ویئر میں بڑا کرکے دیکھا تو میرا شک یقین میں بدل گیا۔ یہ سارا کام فوٹو شاپ سافٹ ویئر کی مدد سے کیا گیا تھا جس میں کسی ٹی وی چینل کے سکرین امیج کو لے کر اس کے اندر مواد کو تبدیل کر دیا گیا تھا۔ عبارت کا فونٹ بھی مختلف تھا کیونکہ یہ ٹی وی چینلز کی بجائے پرنٹ میڈیا میں استعمال ہوتا ہے۔ ایسی پوسٹس کسی ایک چینل نہیں بلکہ مختلف چینلز کے حوالے سے سامنے آتی ہیں‘ جنہیں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سارے کام کے پیچھے وہ شیطانی دماغ ہیں جو عام صارفین کو اس طرح کی پوسٹ کے ذریعے بھٹکانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ نیچے لوگو چینل کا ہے‘ باقی ساری ڈیزائننگ اور گرافکس بھی چینل کے ہیں تو لکھی ہوئی بریکنگ نیوز بھی اسی کی ہو گی۔ کوئی اس کی تصدیق کرنے کی زحمت نہیں کرتا کہ واقعی یہ کسی چینل کا اصل سکرین شاٹ ہے یا پھر اسے مذموم مقاصد کے لئے بنا کر پھیلایا جا رہا ہے۔ ایسے لوگ دراصل سوشل میڈیا دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں جو کسی کی پگڑی اچھالنے‘ کسی کو بدنام کرنے یا اس کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لئے ایسی پوسٹ کرتے ہیں۔ عوام بھی بغیر سوچے سمجھے ایسی پوسٹس کو آگے شیئر کر دیتے ہیں اور یوں آلہ کار بن کر ان کے دست راست ثابت ہوتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ سیاستدانوں کا بھی ہے۔ بعض سیاستدان اکثر اوقات اخلاق سے گری ہوئی بات لائیو ٹی وی چینلز پر بھی کر جاتے ہیں اور یہ ریکارڈ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ایسی چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے لوگ ایسی پوسٹس پر یقین کر لیتے ہیں اور سوشل میڈیا شیطانوں کو بھی اپنے مقاصد پورے کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں سائبر کرائم ایکٹ کے حوالے سے خبریں آتی رہی ہیں۔ ان قوانین کے تحت بغیر اجازت کسی کی تصویر کھینچنا‘ انٹرنیٹ یا موبائل کی مدد سے کسی کو ایسا پیغام بھیجنا جسے ناپسندیدہ‘ غیراخلاقی یا بے ہودہ سمجھا جائے‘ جرم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سزا تین ماہ سے کئی سال تک کی قید اور بھاری جرمانہ مقرر کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مہلک ہتھیاروں‘ خود کش حملوں اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے خفیہ مواد کے بارے میں انٹرنیٹ سے معلومات نقل کرنے یا چرانے کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے اور اسے سائبر ٹیررازم کے زمرے میں رکھا گیا ہے‘ جس کی سزا غالباً دس سال قید اور ایک کروڑ روپے جرمانے یا دونوں کی صورت میں مقرر کی گئی ہے۔ پاکستان میں اس وقت تقریباً پانچ کروڑ سے زائد افراد باقاعدگی سے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور تیرہ کروڑ افراد کے پاس موبائل فون موجود ہیں۔ ہر روز لاکھوںکی تعداد میں فحش تصاویر‘ ویڈیوز اور لطیفے ای میل اور میسجنگ کے ذریعے ایک دوسرے کو بھیجے جاتے ہیں‘ بیشتر میں سیاستدانوں اور حکمرانوں کی پگڑی اچھالی جاتی ہے اور ان کے مزاحیہ خاکے بنائے جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ سیاسی شخصیات اور ان کی فیملیز کی مبینہ تصاویر ای میلوں کے ذریعے میڈیا اور عام لوگوں کو دھڑا دھڑ فارورڈ کی جاتی ہیں‘ جس سے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہوتا ہے۔ ایسی تصاویر چاہے اصلی ہوں‘ چاہے انہیں کمپیوٹر میں تیار کیا جائے‘ ان کو آگے بھیجنے والے اور تیار کرنے والے کئی سالوں کیلئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا سکتے ہیں۔ یہ غلط فہمی بھی اب دور کر لیں کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ اس کی ایک بڑی ابتدائی مثال ڈینئل پرل کیس تھی جس کے قاتل تک رسائی ای میل ٹریس کرکے حاصل ہوئی تھی۔ بعض لوگوں کے نزدیک فیس بک پر غلط چیزیں شیئر کرنا اس لئے جرم نہیں ہے کہ انہوں نے خود یہ پوسٹس تخلیق نہیں کیں۔ سائبر قوانین سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی غلط پوسٹ کو آگے شیئر کرنے والا بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنا کہ اسے تخلیق کرنے والا۔ اللہ نے انسان کو عقل‘ شعور اور فیصلہ سازی کی نعمت سے نوازا ہے۔ فرض کریں کہ آپ کے اہل خانہ کے بارے میں اگر کوئی ایسی چیز آپ کے پاس آ جائے تو کیا اسے بھی آگے شیئر کر دیں گے۔ ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم دوسروں کی پگڑیاں اچھالتے وقت قہقہے لگاتے ہیں اور جب بات اپنے پر آئے تو آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔ ایسا حکمرانوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ جو بھی حکومت میں ہوتا ہے وہ چاہتا ہے کہ سوشل میڈیا پر اس کے خلاف تو کچھ نہ چلے لیکن دیگر کے خلاف چلتا رہے۔ اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی اس لئے ہونی چاہیے کہ لوگوں کا رجحان موبائل فون کی جانب اس قدر بڑھ چکا ہے کہ وہ اب سوتے جاتے اٹھتے بیٹھتے موبائل فون پر انگلیاں مارتے رہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں موبائل فون ان کا دوست‘ ان کا رشتہ دار اور ان کا واحد سہارا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موبائل فون کے بے جا استعمال کی وجہ سے عوام میں جسمانی اور نفسیاتی بیماریاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔
پچھلے دنوں ایک ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ ان کے پاس ایسے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو بے خوابی اور بے چینی کا شکار ہیں۔ ایسے لوگوں سے پوچھا گیا کہ وہ ایک دن میں کتنا وقت موبائل فون کو دیکھتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ اوسطاً پانچ سے چھ گھنٹے روزانہ ان کی نظریں فون کی سکرین پر جمی رہتی ہیں۔ بعض لوگ لیٹ کر بھی موبائل فون کی جان نہیں چھوڑتے جس کی وجہ سے ان کی گردن اور کمر کے مہروں میں تکلیف پیدا ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ بچے موبائل فون پر ایسی گیمز کھیلتے ہیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ کلیش آف کلینز ایسی ہی ایک گیم ہے جو کئی کئی سال تک ختم نہیں ہوتی۔ ماضی میں ہم بھی گیمیں کھیلتے تھے لیکن یہ دس بارہ مراحل پر جا کر ختم ہو جاتی تھیں۔ نئی گیمیں ایسی ہیں جن میں نیٹ ورکنگ کے ذریعے دو یا دو سے زیادہ دوست آپس میں دنیا کے مختلف مقامات پر ہوتے ہوئے بھی لائیو کھیل سکتے ہیں۔ ایسی گیمز بچوں میں بہت زیادہ مقبول ہو رہی ہیں جن میں فائرنگ اور لوگوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ ایسی گیمز نیوزی لینڈ میں مساجد میں ہونے والی دہشت گردی سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہیں۔ والدین بچوں کی ان مصروفیات سے اکثر لا علم ہوتے ہیں اور انہیں تب پتا چلتا ہے جب ان کے بچوں میں تشدد پسندانہ رجحانات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ بچوں کی نظریں موبائل فون کے زیادہ استعمال سے بہت جلد خراب ہو رہی ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ چھ چھ سال کے بچوں کو موٹے موٹے عدسوں والی عینکیں لگ چکی ہیں۔ بچے موبائل فون پر کچھ لگائے بغیر کھانا بھی نہیں کھاتے اور اس طرح کھانے سے ان کے معدوں پر برا اثر پڑتا ہے کیونکہ ان کا دھیان کھانے میں نہیں ہوتا۔ چھوٹے بچوں اور نوجوانوں کے کچے ذہن ایسی متشددانہ اور جھوٹی پوسٹس کا جلد نشانہ بن جاتے ہیں‘ اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ سائبر دہشت گردی کا دور ہے۔ مستقبل میں ایسی پیچیدگیوں میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ صرف بچے ہی نہیں بلکہ بڑے بھی اس مرض کا شکار ہیں۔ لوگ موبائل فون کو شغل سمجھتے ہیں لیکن یہی فون ان کے لئے اس وقت وبال جان بن جاتا ہے جب انہیں علم ہوتا ہے کہ ان کے اپنے بچے دشمن کے ہاتھوں میں کھلونا بن چکے ہیں۔ سائبر دہشت گردی کا مسئلہ کسی ایک حکومت‘ کسی ایک سیاسی جماعت یا چند شخصیات کا نہیں بلکہ یہ اب گلوبل سائبر ٹیررازم کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ بھارت ہمارے لئے اس حوالے سے ایک خوفناک ملک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس خطے میں فیس بک‘ واٹس ایپ اور گوگل کے دفاتر بھارت میں ہی واقع ہیں اور ان کے اعلیٰ ترین عہدوں پر بھارتی ہی فائز ہیں۔ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں‘ ہمیں کس سے خطرہ ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے‘ یہ سب انشاء اللہ آئندہ کالم میں۔