انسان زندگی میں جتنی بھی ترقی کر جائے‘ جتنی بھی کامیابیاں سمیٹ لے اور جتنا بھی بڑا انسان بن جائے اسے کسی نہ کسی عقل مند ساتھی‘ کسی نہ کسی ناصح اور کسی نہ کسی اتالیق یا مینٹور کی ضرورت رہتی ہے۔ وہ مینٹور اس کا باپ‘ بھائی یا دوست بھی ہو سکتا ہے‘ وہ کوئی روحانی‘ سیاسی یا مذہبی شخصیت بھی ہو سکتی ہے اور وہ کوئی کتاب‘ کوئی فلم یا زندگی کا کوئی واقعہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ‘ یہ کتابیں اور یہ واقعات انسان کی زندگی کو درست سمت پر ڈال سکتے ہیں اور اسے تباہی اور بربادی کا راستہ بھی دکھلا سکتے ہیں۔ کسی عقلمند انسان‘ کسی اچھے ہمسائے یا کسی اچھے دوست کا ملنا بھی خوش بختی کی علامت ہے؛ تاہم یہ خوش بختی بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں مشورہ کرنا یا کسی کی رائے لینا شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ ہر بندہ خود کو عقل کُل اور تمام جملہ علوم کا ماہر سمجھتا ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ بیس بیس برس ایک ہی غلطی کر کے مسلسل نقصان اٹھاتا ہے‘ نہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرتا ہے‘ نہ ہی اسے سدھارنے کیلئے کسی عقلمند ساتھی‘ دوست یا بزرگ کا مشورہ لینا گوارا کرتا ہے‘ حالانکہ ہمارے دین میں مشورے کو بہت بڑی امانت اور افضل نیکی قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہ امانت اور یہ نیکی ہم نے صرف کتابوں اور باتوں تک محدود کر دی ہے۔ مشورہ کرنا ہماری طبیعت پر گراں گزرتا ہے اور اپنی غلطی کو درست کرنے کے لئے ہم مشاورت پر آمادہ نہیں ہوتے۔ گزشتہ دنوں لاہور نیوز کے پروگرام 'جاگو لاہور‘ میں قاسم علی شاہ اسی موضوع پر خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ درحقیقت معاشرے کے اس بگاڑ اور عوام کے نفسیاتی‘ اخلاقی اور سماجی مسائل کی درستی کی خاطر اگر کوئی شخص دلجمعی اور منظم انداز سے کام کر رہا ہے تو وہ قاسم علی شاہ ہے۔ قاسم علی شاہ بنیادی طور پر ایک استاد ہیں اور لاکھوں لوگوں کو کامیابی کا راز تلاش کرنے کے گُر سکھا چکے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اگر وہ اچھے استاد نہ ہوتے تو کبھی اس قدر کامیاب سپیکر اور پروفیشنل ٹرینر نہ بن سکتے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے انجینئرنگ کی ڈگری لینے کے باوجود یہ سوچتے رہے کہ خدا نے انہیں کسی اور مقصد کیلئے پیدا کیا ہے۔ وہ اپنی کھوج میں لگے رہے اور ان کے اندر کا انسان انہیں مسلسل آواز دیتا رہا۔ بچپن سے ہی انہیں کتب بینی کا شوق تھا۔ اوائل عمری میں تدریس کی طرف آ گئے۔ پینتالیس منٹ کے ایک لیکچر میں پینتیس منٹ وہ مضمون سے متعلق پڑھاتے اور آخری دس منٹ کے لئے طلبا کو مختلف نصیحتیں کرتے۔ وہ طلبا کو والدین کا ادب کرنے اور صاف ستھرا رہنے کی تلقین کرتے۔ وہ بتاتے کہ کھوٹا سکہ والدین کی دعائوں سے سونا بن جاتا ہے‘ نالائق لائق ہو جاتا ہے اور ایک گمنام انسان بھی شہرت اور عروج کی منزلیں پا لیتا ہے۔ وہ طلبا کو بتاتے کہ انسان کو کس طرح اپنے دن کا آغاز کرنا چاہیے۔ کس طرح رشتہ داروں‘ عزیزوں اور اجنبیوں کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور کیسے اپنی ذات کو نکھارنے اور اُجالنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ وہ انہیں مختلف حکایات‘ مثالوں اور واقعات کے ذریعے قائل کرنے کی کوشش کرتے۔ اس سارے عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی شہرت ایک استاد سے زیادہ ایک مینٹور‘ ایک ناصح اور ایک مبلغ کے طور پر اُجاگر ہونے لگی۔ طلبا کے والدین تک ان کے پاس آنے لگے اور ان سے نہ صرف اپنے بچوں کے مسائل بلکہ اپنے کاروبار‘ ملازمت اور دیگر معاملات پر بھی مشورے لینے لگے۔ قاسم علی شاہ نے جب دیکھا کہ ان کی کسی بات‘ کسی مشورے کے باعث کسی پریشان شخص کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی ہے‘ کسی کا دیرینہ مسئلہ حل ہو گیا ہے یا کوئی سیدھے راستے پر چل پڑا ہے تو انہیں بے انتہا خوشی محسوس ہوئی اور انہوں نے نوکری چھوڑ کر خلق خدا کی خدمت کا فیصلہ کر لیا۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ آج آپ کسی انجینئر یا کسی ڈاکٹر کو کہیں کہ وہ اپنی نوکری چھوڑے اور لوگوں کو ان کی زندگی سدھارنے کے حوالے سے لیکچر دینا شروع کر دے تو وہ آپ کی بات تک نہیں سنے گا۔ ہر کوئی معاش کے مسائل میں اتنا گھرا ہوا ہے کہ ایک مہینے کی تنخواہ آگے پیچھے ہو جائے تو اس کا سارا سسٹم تباہ ہو جاتا ہے‘ چہ جائیکہ وہ سارا کچھ چھوڑ چھاڑ کر ایک نیا اور غیر روایتی پروفیشن اپنا لے۔ قاسم علی شاہ مگر مختلف طبیعت کے حامل تھے۔ انہیں ایسا کام کرنے کا جنون تھا جس سے انہیں عشق ہو‘ جس کے وہ ماہر ہوں اور جس کو وہ دل سے پسند کرتے ہوں۔ یہ وہ نکتہ ہے جسے اس معاشرے میں یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ آپ کا بیٹا یا بیٹی آرٹ ورک میں بہت ماہر ہے اور ممکن ہے بڑے ہو کر وہ بہترین انٹیریئر ڈیزائنر بن سکتا ہو‘ اس میں ایسی صلاحیتیں ہوں کہ وہ کسی بھی جگہ کو خوبصورتی سے سجانا جانتا ہو لیکن آپ اسے زبردستی ڈاکٹر بنانا چاہیں گے تو وہ ناکام ڈاکٹر تو بن جائے گا لیکن کامیاب انٹیریئر ڈیزائنر نہیں بن سکے گا۔ وہ ناکام ڈاکٹر کے طور پر مہینے کے ستر اسی ہزار روپے تو لے آئے گا لیکن کامیاب انٹیریئر ڈیزائنر کے طور پر ایک پراجیکٹ کا ایک لاکھ کمانے سے محروم ہو جائے گا۔ چنانچہ جب بھی آپ کسی پر اپنی مرضی ٹھونستے ہیں تو آپ اس کی صلاحیتوں کا گلا گھونٹ رہے ہوتے ہیں‘ اس کے بعد ایسا انسان ایک بے حس روبوٹ تو بن سکتا ہے لیکن کبھی بھی تابعدار بیٹا‘ ذمہ دار باپ اور کارآمد شہری نہیں بن پاتا۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہر بندہ ہر کام کر سکتا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہوتا۔ قاسم علی شاہ کی کئی کتابیں‘ مضامین اور لیکچرز ایسے ہیں جن میں اسی موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کتاب ''اپنی تلاش‘‘ میں انہوں نے تفصیل سے ان نکات پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی چلی جاتی ہے وہ خود کو پہلے سے زیادہ سمجھتا چلا جاتا ہے۔ عقلمند وہ لوگ ہیں جو اپنی تلاش کو وقت کے دھارے پر نہیں چھوڑتے بلکہ اپنی خوبیوں اور خامیوںکا بروقت پتہ لگا لیتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی زندگی کی سمت بہت جلد درست کر لیتے ہیں۔ وگرنہ پچاس یا ساٹھ ستر برس کی عمر میں انسان کو اپنی خامی یا خوبی کا پتہ لگ بھی جائے تو کیا فائدہ؟ ساری عمر تو گزر چکی ہوتی ہے۔ نہ ویسی طاقت ہوتی ہے نہ وسائل اور نہ ہی خواہش۔ جس طرح ہر انسان کسی نہ کسی شخصیت سے متاثر ہوتا ہے‘ قاسم علی شاہ بھی واصف علی واصف ؒ کے گرویدہ ہیں۔ قاسم علی شاہ فائونڈیشن کی پُرشکوہ عمارت میں انہوں نے واصف علی واصفؒ‘ اشفاق احمد سمیت دنیا کی منفرد شخصیات کے زریں اقوال کو دیواروں پر آویزاں کر رکھا ہے۔
کچھ ایسے کام ہیں جو شاہ صاحب کے مطابق انسان کو چالیس برس سے قبل کر لینے چاہئیں۔ مثلاً یہ کہ چالیس برس سے قبل انسان کو اپنا سوشل بینک بنا لینا چاہیے‘ اس سوشل بینک میں زندگی کے ہر شعبے سے متعلق لوگ شامل ہونے چاہئیں اور جن لوگوں کا سوشل بینک خالی یا کمزور ہوتا ہے وہ مالی طور پر مستحکم ہونے کے باوجود غریب ہوتے ہیں۔ وہ کسی سے ملتے جلتے نہیں‘ بس اپنی ذات میں گم رہتے ہیں۔ ایسے لوگ محلے کی ایک دکان سے برسوں سے سودا خرید رہے ہوتے ہیں لیکن دکان والے کو ان کا نام اور انہیں دکان والے کا نام تک معلوم نہیں ہوتا۔ حضرت علی ؓ نے بھی تو فرمایا تھا: دنیا کا سب سے غریب انسان وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں۔ اسی طرح چالیس برس کی عمر سے پہلے آپ کو اپنی خامیاں اور خوبیاں معلوم ہونی چاہئیں۔ انسان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کہاں خاموش رہنا ہے اور کہاں بولنا ہے۔ جس شخص نے چالیس برس تک یہ نہیں سیکھا کہ کس موقع پر بولنا یا خاموش رہنا ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا‘ اور آخری چیز یہ کہ آپ کی گفتگو‘ آپ کے کام کے انداز‘ اٹھنے بیٹھنے‘ چلنے پھرنے‘ کھانے پینے غرضیکہ ہر پہلو اور ہر انداز میں خود اعتمادی جھلکنی چاہیے۔ اگر چالیس برس کے بعد بھی آپ ہر کام گھبراہٹ اور بے یقینی کے ساتھ کرتے ہیں‘ آپ کا سوشل بینک خالی ہے اور آپ اپنی خوبیوں اور خامیوں سے ناواقف ہیں تو پھر قاسم علی شاہ کے بقول آپ کی باقی زندگی بھی یونہی بے کار اور لا یعنی انداز میں گلے شکوے کرتے گزر جائے گی۔