سوشل میڈیا کا استعمال خوفناک رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ فیس بک‘ ٹویٹر‘انسٹا گرام وغیرہ کے صارفین اپنے دن کا بڑا حصہ موبائل فون پر گزار دیتے ہیں۔ دو ارب اٹھائیس کروڑ صارفین کے ساتھ سوشل میڈیا کمپنیوں میں فیس بک کا پہلا نمبر ہے۔یوٹیوب دو ارب کے ساتھ دوسرے اور واٹس ایپ ڈیڑھ ارب صارفین کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ ملکوں کو دیکھیں تو بھارت تیس کروڑ صارفین کے ساتھ پہلے ‘امریکہ 21کروڑ کے ساتھ دوسرے اور برازیل 13کروڑ کیساتھ تیسرے نمبر پر ہے ۔ فیس بک کی برتری کی وجہ اس کے نمایاں فیچرز اور آسان استعمال ہے ‘ اس میں بلاگز‘ ویڈیوز اور تصاویرکی ایک ہی جگہ شیئرنگ ہوتی ہے اور لوگ سب سے زیادہ وقت بھی فیس بک پر ہی گزارتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں 65کروڑ کاروباری صفحات ہیں جن کیلئے 60لاکھ کے قریب تشہیری کمپنیاں اربوں ڈالر کے اشتہار جاری کرتی ہیں۔دنیا کے بیشتر ممالک میں فیس بک جزوی طور پر بند ہوتی رہی ہے جن میں جرمنی‘ پاکستان‘ بھارت‘ اسرائیل ‘ایران‘ شام اور چند دیگر ممالک شامل ہیں۔ چین ایسا ملک ہے جہاں فیس بک ‘یوٹیوب ‘ ٹویٹر حتیٰ کہ گوگل مکمل ممنوع ہے۔ چین میں حکومت کا میڈیا پر سخت کنٹرول ہے اور وہاں سرکار پر بلاوجہ اور غیر ضروری تنقید کی اجازت نہیں ہے۔چین نے فیس بک کے مقابلے میں ٹین سینٹ بنایا ہوا ہے جو چینیوں میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے اور یہ ریونیو کے حوالے سے فیس بک کو بھی جلد پیچھے چھوڑ جائے گا۔ دوسری جانب گوگل اور فیس بک آپ کی انٹرنیٹ ‘ گوگل اور فیس بک پر کی جانے والی ہر حرکت کو نوٹ اور محفوظ کر رہا ہے‘ آپ کون سی ویڈیو زیادہ دیکھتے ہیں‘ گوگل پر کیا لکھ کر سرچ کرتے ہیں‘ کون سی گاڑی‘ موبائل‘ فلم‘ چاکلیٹ‘ تفریحی مقام‘ فلمی ستارے یا شخصیت کو پسند کرتے ہیں یہ سب ڈیٹا فیس بک آپ سے ملحقہ ایک اکائونٹ میں محفوظ کر رہا ہے اور یہی وہ ڈیٹا ہے جو آن لائن کمپنیاں اپنے کاروباری مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہیں اور کروڑوں ووٹروں کی انہی معلومات کو گزشتہ امریکی انتخابات میں استعمال کیا گیا۔ بھارت میں چونکہ بنگلور اور دیگر ریاستیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مرکز بن چکی ہیں اس لئے فیس بک‘ گوگل اور دیگر کمپنیوں نے بھارت میں نہ صرف اپنے دفاتر بنا لئے ہیں بلکہ ان مقامی دفاتر کے اعلیٰ ترین عہدے بھی بھارتی باشندوں کو دئیے جا رہے ہیں۔ چونکہ پاکستان میں گوگل‘ فیس بک یا یوٹیوب کا کوئی دفتر موجود نہیں اور نہ ہی قابل ذکر تعداد میں کوئی پاکستانی ان ٹیکنالوجی کمپنیوں میں فائز ہیں اس لئے لامحالہ سوشل میڈیا کی ان ٹاپ کمپنیوں کی باگ ڈور تیزی سے بھارتیوں کے ہاتھ میں جا رہی ہے۔ یقینا یہ بھارتی ماہرین جب بھی خطے کے حوالے سے ان سوشل میڈیا سائٹس کی کوئی پالیسی بنائیں گے یا کسی اکائونٹ کو بلاک کرنے یا کھولنے کے حوالے سے کوئی پیچیدہ کیس ان کے پاس آئے گا تو ان کی ہمدردیاں اولاً بھارت کے ساتھ ہوں گی۔ چنانچہ اب مزید وقت ضائع کئے بغیر بہت ضروری ہو گیا ہے کہ سوشل میڈیا کی یہ کمپنیاں منفی سرگرمیوں‘کردار کشی اور بوگس معلومات کی بجائے مستند موادپر مبنی نیٹ ورک کے طور پر سامنے آئیں اور انہیں بھارت کے اثر سے بھی باہر لایا جا سکے۔ اس کا ایک حل یہ ہے کہ جس طرح دیگر ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان میں پاکستانی قوانین کے تحت کاروبار کر رہی ہیں‘ پاکستانی حکومت فیس بک مالکان اور انتظامیہ کے ساتھ بیٹھے اور انہیں بتائے کہ پاکستان ان کے لئے بہت بڑی اور تیزی سے ابھرتی ہوئی مارکیٹ ہے۔ یہاں فی الوقت پانچ کروڑ فیس بک صارفین ہیں لیکن یہ تعداد صرف تین سال بعد فائیو جی ٹیکنالوجی آنے کے بعد دو گنا ہو جائے گی‘ اس سے فیس بک کو یہاں سے وسیع ریونیو مل سکے گا اور یہ پاکستانی قوانین‘ مذہبی اقدار اور قواعد و ضوابط کا خیال رکھے گا۔
گزشتہ دنوں معروف گلوکار علی ظفر یہ کہتے پائے گئے کہ ان کے خلاف انسٹا گرام ‘ ٹویٹر اور دیگر سائٹس پر بہت سے اصلی اور جعلی ناموں والے اکائونٹس سے کردار کشی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے سائبر کرائم سے اس بارے تفتیش کرنے کی درخواست بھی کی۔ یہ مسئلہ انتہائی سنگین اس لئے ہے کہ جب ایسی کسی بھی شخصیت کے خلاف سوشل میڈیا پر گند اچھالا جاتا ہے تو اس سے اس کی ساکھ پر بہت حرف آتا ہے۔ اس کے دوست رشتہ دار اور عزیز سب کے سامنے سے ایسی پوسٹس گزرتی رہتی ہیں اور وہ ان پر متاثرہ شخص سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں یا پھر اس سے سوال جواب کرتے ہیں تو اسے ذہنی و نفسیاتی کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔ جیسے جیسے سوشل میڈیا کا استعمال بڑھا ہے سائبر قوانین کے اطلاق کی ضرورت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا مادر پدرآزادی کا نام نہیں اور نہ ہی اسے اس مقصد کیلئے بنایا گیا۔ پاکستان میں سوشل میڈیا کے بہت سے ایسے واقعات ہوئے جن کے نہ صرف مقدمات درج کئے گئے بلکہ سزائیں بھی تجویز کی گئیں۔ اس کے باوجود یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے کوئی خط نہیں کھینچا جائے گا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ تاہم سوشل میڈیا کو مکمل کنٹرول کرنا ممکن نہیں۔ مثلاً بھارت اپنے تیس چالیس کروڑ صارفین کو بیک وقت کیسے کنٹرول کر سکتا ہے۔ ان میں سے اگر پچاس لاکھ صارفین بھی ایک دن میں کوئی غلط پوسٹ شیئر کر دیتے ہیں تو کیا ان سب کو بیک وقت سزا دی جا سکے گی۔ کیا بھارت کے پاس اتنی جیلیں ہیں جن میں پچاس لاکھ لوگوں کو ڈالا جا سکے؟ صرف پانچ برس بعد جب بھارت میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد ستر لاکھ ہو جائے گی تب کیا ہو گا۔ اتنی بڑی تعداد کے لئے سائبر عدالتیں بنانا اور مقدمات نمٹانا ممکن نہیں۔اگر صورت حال قابو سے باہر ہو گئی تو بھارت کو بھی وہی کچھ کرنا پڑے گا جو اس نے اور دیگر ممالک نے پہلے کیا یعنی سوشل میڈیا سائٹس کو کچھ ہفتوں یا مہینوں کے لئے مکمل بند کرنا پڑا۔ تاہم اس سے سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ اس ملک کو بھی مالی طور پر نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس معاملے کا بہتر حل یہ ہے کہ صارفین خود محتاط رویہ اختیار کریں‘ سوشل میڈیا کو شتر مہار آزادی کا ذریعہ نہ سمجھیں بلکہ اسے ایک آسانی اور سہولت کے طور پر لیں۔ اس کا علمی اور تعلیمی استعمال کریں نہ کہ تخریبی اور تحقیری۔ کسی کی بھی دل آزاری کرتے وقت یہ سوچ لیں کہ کل کو آپ یا آپ کے اہلخانہ کے ساتھ بھی یہ سب ہو سکتا ہے۔
جس طرح فیس بک بھارت میں ''فیس بک انڈیا آن لائن سروسز ‘‘ کے نام سے رجسٹرڈ ہے اور اس کے بھارت میں تین دفاتر موجود ہیں‘ فیس بک کو پاکستان میں بھی باقاعدہ رجسٹر کروا کر اس کے دفاتر قائم کئے جائیں اور ایسے مبینہ اکائونٹس کو بند کرنے کا لائحہ عمل اپنایا جائے جو مذہبی‘ سیاسی اور اخلاقی انتشار کا باعث بن رہے ہیں‘ اسی طرح نئے اکائونٹ بنانے کیلئے ضابطہ طے کیا جائے‘ انہیں لازمی موبائل فون اور شناختی کارڈ نمبر سے منسلک کیا جائے اور پہلے سے موجود اکائونٹس کی ویری فیکیشن کی جائے‘ اسی طرح ایک ایسی سنسر اتھارٹی قائم کی جائے جہاں ممنوعہ مواد اور غیر اخلاقی پوسٹس کے بارے میں آن لائن شکایت بھیجی جا سکے‘ ایسے اکائونٹس اور پوسٹس کو عارضی بلاک کرنے کے لئے پاکستانی اتھارٹی کو مکمل اختیار دیا جائے اور تفتیش میں جعلی اور بوگس ثابت ہونے پر فیس بک ہیڈ آفس کی جانب سے ایسے اکائونٹس کو ہمیشہ کیلئے ڈیلیٹ کر دیا جائے۔ضروری ہے کہ فیس بک کو درخواستیں بھیجنے کی بجائے پاکستانی اکائونٹس بلاک کرنے کا اختیار پاکستانی فیس بک اتھارٹی کے پاس ہو‘ تاکہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے‘ بوگس معلومات کے تبادلے اور تحریف شدہ مواد کو اصل ثابت کرکے پھیلانے کا سلسلہ بروقت روکا جاسکے۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے پہلے حکومتیں ہی پریشان ہوتی تھیں لیکن اب یہاں پر کسی کی بھی پگڑی محفوظ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ حکومت بھی سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ بیٹھے اور انہیں ملک میں اپنے دفاتر قائم کرنے کی دعوت دے اور آپس میں روابط بڑھانے کے سلسلے طے کئے جائیں۔ پاکستان میں سافٹ ویئر پارکس کی بھی شدید کمی ہے۔ ارفع سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک کی طرز پر ہر صوبے میں کم از کم پانچ بڑے سافٹ ویئر پارکس قائم کئے جائیں جہاں عالمی کمپنیوں کو ایک کلاس کی سکیورٹی اور جدید سہولیات مہیا کی جائیں۔ ان تمام اقدامات سے نہ صرف پاکستان ٹیکنالوجی کے میدان کو استعمال کر کے معیشت میں بہتری لا سکے گا بلکہ سوشل میڈیا کے بطور ہتھیار استعمال میں بھی کمی آ سکے گی۔