کیا آپ کسی ایسی خاتون کو جانتے ہیں جس کی ماہانہ تنخواہ پچاس کروڑ روپے ہو‘ جس کے پاس انیس ہوائی جہازوں کا بیڑہ ہو‘ جس کا امریکہ‘ فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک کے صدور اور وزیر اعظم ریڈ کارپٹ استقبال کرتے ہوں‘ جو ٹائم میگزین کے مطابق دنیا کی بیس اہم ترین خواتین میں سے ایک اور بلومبرگ کے مطابق دنیا کی پچاس مؤثر ترین خواتین میں سے ایک ہو اور جو دنیا میں ٹیکنالوجی کی حامل خواتین میں ایک ارب ڈالر اثاثوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہو۔ اس خاتون کا نام جینی رومیٹی ہے جس نے دنیا کا پہلا کمپیوٹر بنانے والی کمپنی آئی بی ایم میں آج سے چالیس برس قبل بطور سسٹم انجینئر آغاز کیا تھا اور آج سالانہ چھ ارب روپے کما رہی ہے۔ اس کے اثاثوں کی مالیت ڈیڑھ کھرب روپے ہے۔ جینی رومیٹی ان مرد و خواتین کے لئے ایک مثال ہے جو سمجھتے ہیں خواتین کا کام صرف گھرداری ہے اور وہ معاشرے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکتیں۔
جینی رومیٹی جولائی 1957ء میں شکاگو میں پیدا ہوئی۔ وہ چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔ پندرہ برس کی تھی کہ اس کی والدہ کو طلاق ہو گئی۔ بچوں کو پالنے کیلئے جینی کی والدہ نے چھوٹی موٹی نوکریاں شروع کر دیں۔ 1975ء میں جنرل موٹرز کی جانب سے سکالرشپ ملنے پر جینی نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ 1979ء میں اس نے کمپیوٹر سائنس اور الیکٹریکل انجینئرنگ میں گریجوایشن مکمل کر لی۔ گریجوایشن کے بعد اس نے جنرل موٹرز میں دو سال کام کیا۔ 1981ء میں وہ آئی بی ایم میں بطور سسٹم انجینئر بھرتی ہو گئی جو کمپنی میں ابتدائی نوکری شمار کی جاتی تھی۔ اگلے دس برس وہ آئی بی ایم کے مختلف شعبوں سے ہوتی ہوئی 1991ء میں آئی بی ایم کے کنسلٹنگ گروپ میں شامل ہو گئی۔ 2002ء میں آئی بی ایم کمپنی نے ساڑھے تین ارب ڈالر کی لاگت سے ایک اور کمپنی ٹیکنالوجی پرائس واٹر ہائوس کو خرید لیا جو اس وقت تک کی سب سے بڑی تاریخی خرید تھی۔ اس خریداری کا مرکزی کردار جینی رومیٹی تھی جس کے بعد آئی بی ایم کی سروسز کی فراہمی کی رفتار دو گنا ہو گئی۔ 2011ء میں آئی بی ایم نے اعلان کیا کہ کمپنی کی اگلی چیف ایگزیکٹو ایک خاتون ہو گی جس کا نام جینی رومیٹی ہے جس پر عالمی میڈیا نے ایک خاتون کے پہلی مرتبہ اتنے بڑے عہدے کے حصول کے ایشو کو غیرمعمولی کوریج دی۔ جینی رومیٹی گزشتہ آٹھ برس سے مسلسل آئی بی ایم کی صدر ہے۔ ان آٹھ برسوں کے دوران کئی مواقع ایسے آئے جب آئی بی ایم کا خسارہ بڑھتا گیا لیکن آئی بی ایم نے چیف ایگزیکٹو کو عہدے سے نہیں ہٹایا۔ آئی بی ایم اپنے ملازمین پر اعتماد کرتا اور انہیں آگے بڑھنے کا پورا موقع دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دو برس مسلسل نقصان میں جانے کے بعد جینی رومیٹی نے اپنی حکمت عملی اور کام کو بہتر کیا اور یوں آئی بی ایم کا خسارہ کم ہونے لگا اور کمپنی دوبارہ اوپر اٹھنا شروع ہو گئی۔ آئی بی ایم شاید واحد ادارہ ہے جو اپنے ملازمین کو سماجی کاموں کی تحریک میں نہ صرف شریک ہونے کی دعوت دیتا ہے بلکہ ان کی بھرپور معاونت بھی کرتا ہے۔ یہ اپنے ملازمین سے پوچھتا ہے کہ ٹھیک ہے آپ نے آٹھ گھنٹے کام کیا اور مہینے بعد اس کی تنخواہ لے لی لیکن آپ نے معاشرے کے لئے کیا کیا؟ چنانچہ آئی بی ایم ملازمین میں سماجی بہتری کے لئے اپنا اپنا حصہ ڈالنے کا کلچر فروغ پانے لگا۔ اگر آئی بی ایم کا کوئی ملازم کسی غریب بچے کی فیس ادا کرتا ہے یا کمیونٹی کا کوئی اور کام کرتا ہے اور اس کی رسید جا کر کمپنی کو جمع کراتا ہے تو آئی بی ایم اسے اپنے پاس سے یہ پیسے ادا کر دیتی ہے۔
چند روز قبل آئی بی ایم نے انڈونیشیا میں بیسٹ آف آئی بی ایم 2019ء سیمینار کا اہتمام کیا۔ اس ایونٹ میں دنیا بھر سے پانچ سو بہترین ورکرز کا انتخاب کیا گیا جنہوں نے آئی بی ایم کے لئے سال 2018ء میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ریٹنگ کسی شخص نے جاری نہیں کی بلکہ آئی بی ایم میں کام کو ریکارڈ کرنے کا ایک الگ انداز ہے۔ کمپنی میں کاغذ کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ سارا کام کمپیوٹر اور موبائل کے ذریعے ہوتا ہے۔ ایک سٹاف ممبر پروگرامنگ کا چھوٹا سا کوڈ لکھتا ہے‘ چھٹی کی درخواست دیتا ہے یا کوئی اور کام کرتا ہے یہ سارا کچھ وہ آئی بی ایم کے آن لائن سسٹم پر داخل ہو کر کرتا ہے اور یوں اس کی ساری ایکٹیویٹی ریکارڈ کا حصہ بن جاتی ہے اور اس ایکٹیویٹی کو دیکھتے ہوئے کمپیوٹر اس کی کارکردگی کے پوائنٹ جاری کر دیتا ہے۔ پاکستان کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اس سال اس کو بھی پہلی مرتبہ ان ممالک میں شامل کیا گیا جو اس مقابلے میں حصہ لے سکتے ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان نے پہلے سال ہی یہ اعزاز اپنے نام کر لیا۔ آئی بی ایم نے بہترین کارکردگی کے حوالے سے سال 2018ء کی خود کار رینکنگ میں بیسٹ آف آئی بی ایم کیلئے پاکستان سے اسما ظہیر کو منتخب کیا جو نہ صرف تمام پاکستانی خواتین بلکہ پورے ملک کیلئے قابل فخر اعزاز ہے۔ اسما ظہیر نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کی اور اس وقت آئی بی ایم پاکستان میں سینئر کنسلٹنٹ کے عہدے پر کام کر رہی ہیں۔
میں نے جب سے جینی رومیٹی اور اسما ظہیر کی کامیابی کی داستان پڑھی ہے یہی سوچ رہا ہوں ہم کیسے لوگ ہیں جو اپنی بچیوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کو تعلیم دلوانے کے لئے اس طرح زور نہیں لگاتے جتنا بیٹوں کے لئے لگاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں‘ شاید لڑکیوں نے پڑھ لکھ کر کچھ نہیں کرنا‘ لہٰذا انہیں روایتی اور واجبی سی تعلیم دلا دی جائے۔ یہ تصور اب غلط ثابت ہو رہا ہے اور اسے ٹیکنالوجی نے غلط ثابت کیا ہے۔ پہلے زمانے اور تھے کہ جب نوکری کے لئے مرد و خواتین کو دور دراز کے سفر کرنا پڑتے تھے آج تو ہر کام آن لائن ہو رہا ہے۔ اگر آپ اچھے سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور آن لائن پروگرامنگ کرکے امریکہ یا برطانیہ میں بیٹھے کسی بندے یا کسی کمپنی کا مسئلہ حل کر دیتے ہیں تو آپ کو بیٹھے بٹھائے کئی سو یا کئی ہزار ڈالر مل جائیں گے۔ اب اس سے قطع نظر کہ آپ عورت ہیں یا مرد‘ اگلا شخص یا کمپنی صرف یہ دیکھے گی کہ آپ کو معیاری کام آتا ہے یا نہیں۔ آج پوری دنیا صحیح معنوں میں گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ فری لانسنگ نے اس کام کو اور بھی آسان بنا دیا ہے۔ نیٹ ورکنگ کے ذریعے دنیا بھر میں مختلف جگہوں پر بیٹھے افراد اب ایک ساتھ کام کر سکتے ہیں۔ اب میٹنگز کیلئے ایک جگہ اکٹھے ہونا ضروری نہیں۔ سارا کام ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ہو جاتا ہے۔ اسی طرح نیٹ ورک گیمنگ بھی عام ہو چکی ہے جس میں ایک بچہ لاہور میں تو دوسرا مانچسٹر میں بیٹھا ہوتا ہے اور وہ ایک ہی سکرین پر براہ راست گیم کھیل رہے ہوتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ان کمالات نے نہ صرف دنیا کا کام آسان کر دیا ہے بلکہ انہیں خوشحالی سے بھی نوازا ہے۔ آپ ایک گائوں‘ ایک قصبے یا ایک شہر میں دکان بناتے ہیں تو آپ کے پاس چند سو‘ چند ہزار یا چند لاکھ کسٹمر چل کر آ سکتے ہیں لیکن اسی دکان میں موجود چیزوں کو آپ ایک ویب سائٹ پر لگا کر بیچنا شروع کر دیں تو آپ کے صارفین کا دائرہ کار دنیا کے دو سو ممالک اور سات ارب لوگوں تک پھیل جائے گا۔ آپ واٹس ایپ کی طاقت کا اندازہ لگائیں یہ ابھی مفت سہولت فراہم کر رہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ ہماری ضرورت بھی بن چکا ہے۔ اس کے دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب صارفین ہیں۔ یہ اپنی ایپ پر اشتہار نہیں لے رہا لیکن ذرا سوچیں اگر یہ ایک صارف سے ماہانہ صرف دس روپے بھی لینا شروع کر دے تو یہ پندرہ ارب روپے ماہانہ کمانا شروع کر دے گا؛ چنانچہ جو لوگ ٹیکنالوجی کی طاقت کو سمجھتے ہیں وہ اپنے بچوں کو ٹیکنالوجی کی اعلیٰ تعلیم دلا رہے ہیں چاہے وہ بچے ہوں یا بچیاں۔ جو بھی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا وہ جینی رومیٹی اور اسما ظہیر کی طرح نہ صرف خود کو خوشحال بنا سکتا ہے بلکہ اپنے ملک اور معیشت کو ترقی یافتہ بنانے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔