اس وقت پاکستانی نوجوانوں کو کیریئر کونسلنگ کی زبردست ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی کی وجہ سے روزگار کا کلچر تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ کئی ایسے شعبے جن کی مانگ دس برس قبل تھی آج صرف اس وجہ سے پس پردہ چلے گئے ہیں کہ ان میں آمدن بہت کم رہ گئی ہے۔ پاکستان کے بارے میں جب بھی بات کی جاتی ہے تو اس کی زراعت کا حوالہ دیا جاتا ہے‘ کہا جاتا ہے یہاں سیاحت میں بہت پوٹینشل ہے‘ یہ پاک سرزمین بے شمار معدنیات اور دیگر قدرتی ذخائر کی حامل ہے‘ اس کے محل وقوع کو بھی ملکی معیشت کیلئے اہم شمار کیا جاتا ہے لیکن ایک اہم فورس‘ جو اس ملک کی آبادی کا باسٹھ فیصد سے زائد ہے اسے وہ اہمیت نہیں دی جا رہی جو اسے ملنی چاہیے۔ یہ باسٹھ فیصد طبقہ پاکستان کے نوجوانوں کا ہے۔ یہ کل آبادی میں تیرہ کروڑ کی تعداد میں ہیں۔ ملک میں جتنی بھی پالیسیاں‘ فیصلہ سازی اور بجٹ بنتے ہیں وہ ان تیرہ کروڑ نوجوانوں کو سامنے رکھ کر بنائے جائیں تو یہ ملک ایک عشرے کے اندر اندر سنگا پور اور دیگر جدید ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔ جس طرح ایک خاندان میں پرورش پانے والے بچوں اور نوجوانوں سے امیدیں لگائی جاتی ہیں‘ انہیں والدین اچھی سے اچھی خوراک‘ تعلیم اور ماحول دیتے ہیں تاکہ وہ پڑھ لکھ کر اپنی اور گھر کی معیشت کو بہتر بنا سکیں‘ بالکل اسی طرح یہ ریاست بھی ماں جیسی ہے اور اس کے بارہ تیرہ کروڑ نوجوان اس کے بچے ہیں۔ اگر یہ ریاست ان نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم‘ صحت اور کام کے اچھے مواقع فراہم کرے گی تو بدلے میں یہ نوجوان بھی اس ریاست کو اس کا حق لوٹائیں گے‘ یہ نہ صرف اپنے حالات بہتر کر سکیں گے بلکہ ملکی معیشت کو بھی قرضوں کے بھنور سے نکال سکیں گے۔
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان سب سے زیادہ نوجوان آبادی والا ملک ہے۔ صرف پنجاب میں سالانہ سوا چھ لاکھ طلبا میٹرک کا امتحان دیتے ہیں۔ ان میں اوسطاً ستر فیصد کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ چار لاکھ بیس ہزار طلبا انٹرمیڈیٹ میں داخلہ لیتے ہیں۔ ان میں سے ستر فیصد یا تین لاکھ سے زائد طلبا انٹرمیڈیٹ پاس کر لیتے ہیں اور بی اے‘ بی ایس سی میں داخلہ لے لیتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً ساٹھ فیصد کامیاب ہوتے ہیں اور یہ پونے دو لاکھ ماسٹرز کے لئے تگ و دو شروع کر دیتے ہیں۔ ان پونے دو لاکھ میں سے سوا لاکھ کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ صرف پنجاب سے کامیاب ہونے والوں کی تعداد ہے۔ اگر ہم تمام صوبوں کے طلبا کو دیکھیں تو سالانہ پورے ملک سے تقریباً تین سے چار لاکھ طلبا ماسٹرز کی ڈگری لے کر نکلتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان تین سے چار لاکھ لوگوں کی کھپت کہاں ہو رہی ہے۔ کیا سرکاری اور نجی اداروں میں سالانہ اتنی نوکریاں نکل رہی ہیں کہ یہ تمام طلبا برسر روزگار ہو سکیں۔ جس طرح ملکی معیشت اور کاروبار سکڑ رہے ہیں‘ اس تعداد کا دس فیصد بھی بمشکل ہی روزگار حاصل کر پاتا ہے۔ باقی نوے فیصد کیا کرتے ہیں‘ اس کا اندازہ بڑھتی ہوئی بیروزگاری کی وجہ سے معاشی مسائل‘ جرائم اور بے راہروی سے لگایا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بیرونِ ملک قسمت آزمائی کرنے کی کوشش کرتی ہے؛ تاہم دوسرے ممالک میں بھی کساد بازاری عروج پر ہے۔ بالخصوص مشرق وسطیٰ میں حال ہی میں لاکھوں افراد کو نوکریوں سے فارغ کیا گیا ہے۔ یہ لوگ بھی واپس آ کر بیروزگاروں کی فوج میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ بعض نوجوان بیرون ملک یونیورسٹیوں میں مزید تعلیم کے بہانے داخلہ لیتے ہیں اور وہاں جا کر نوکری شروع کر دیتے ہیں لیکن ویزا ختم ہونے پر انہیں واپس بھیج دیا جاتا ہے یا پھر وہ پناہ کے لئے درخواست دے دیتے ہیں؛ چنانچہ بحیثیت مجموعی صورتحال بہت نازک اور دگرگوں ہے اور اس صورتحال کو اگر سنبھالا نہ گیا تو یہ مزید بگڑتی چلی جائے گی۔
اس صورتحال کا ایک حل نوجوانوں کو نوکری کے بجائے چھوٹے کاروبار یا اینٹرپرینورشپ کی طرف راغب کرنا ہے۔ آج سے بیس سال قبل کاروبار کے تقاضے مختلف تھے۔ مارکیٹنگ کرنے اور چیز کو متعارف کروانے کے لئے بہت زیادہ تردد کرنا پڑتا تھا۔ میڈیا بھی محدود تھا اس لئے ہر کوئی اسے افورڈ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ آج سوشل اور ویب میڈیا نے یہ کام آسان‘ تیز رفتار اور مؤثر بنا دیا ہے۔ آج آپ اگر کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں تو سوشل میڈیا کے ذریعے لاکھوں لوگوں تک بہت کم لاگت اور کم وقت میں اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ کاروبار کا ذہن میں آتے ہی سب سے پہلے کسی پلازے یا مارکیٹ میں دکان لینے کے بارے سوچنے لگتے ہیں۔ دکان کی سکیورٹی‘ کرایہ‘ کمرشل بل‘ سجاوٹ وغیرہ کے اخراجات کا جب وہ حساب لگاتے ہیں تو شروع میں ہی ان کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ آج ان سب چیزوں کی ضرورت نہیں رہی۔ آج ای کامرس یا آن لائن شاپنگ کا دور ہے۔ لوگ دکانوں پر جا کر خریدنے کی بجائے موبائل فون یا ویب سائٹ سے جا کر آرڈر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی دو تین وجوہ ہیں‘ جن میں موسم کی شدت اور وقت اور پٹرول کا ضیاع بھی شامل ہیں۔ خاص طور پر ایسی چیزوں کے لئے لوگ کم جانا چاہتے ہیں‘ جن کے بارے میں انہیں یقین ہے کہ وہ آن لائن آرڈر دے کر منگوا لیں گے تو ان میں کوئی ردوبدل نہیں کیا جائے گا مثلاً ڈبہ بند اشیا‘ کپڑے‘ جوتے اور الیکٹرانکس کی اشیا وغیرہ۔ آج کل لوگ بہت محتاط ہو گئے ہیں۔ وہ ہر چیز کا حساب رکھتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ اگر فلاں جگہ آٹھ سو روپے کا جوتا خریدنے جائیں گے اور چار سو روپے آنے جانے کا کرایہ لگے گا تو وہ جوتا بارہ سو روپے کا پڑے گا؛ چنانچہ وہ آن لائن آرڈر کرکے یہ چار سو روپے بچانے کو ترجیح دیں گے۔ اسی طرح بعض چیزیں ایسی ہیں جن کے لئے خاص جگہوں پر ہی جانا پڑتا ہے‘ مثلاً کسی خاص برانڈ کے سری پائے‘ مچھلی یا سوہن حلوہ؛ چنانچہ لوگ طویل سفر کی بجائے گھر بیٹھے یہ چیزیں منگوا لیتے ہیں۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو بہت زیادہ ڈھونڈنے سے ملتی ہیں مثلاً موبائل فون کے ساتھ استعمال ہونے والی اشیا‘ یعنی موبائل کیمرہ ٹرائی پوڈ یا وائی فائی سکیورٹی کیمرے وغیرہ۔ ایسی چیزیں لوگ چین سے براہ راست چین کی سب سے بڑی آن لائن کمپنی علی بابا یا علی ایکسپریس سے بڑی تعداد میں منگوا تے ہیں اور آن لائن مارکیٹنگ کرکے بیچ دیتے ہیں۔ اس کے لئے انہیں کوئی دکان لینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ انہیں گھر میں بھی رکھ سکتے ہیں اور جیسے ہی کوئی آن لائن آرڈر آتا ہے‘ وہ اسے کوریئر یا موٹر سائیکل سوار کے ذریعے بھجوا دیتے ہیں۔ پیسے آن لائن پیشگی بھی منگوائے جاتے ہیں جبکہ بعض لوگ ڈلیوری پر ادائیگی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آن لائن خریداری کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ اچھی طرح اس چیز کی خصوصیات کو جان لیتے ہیں‘ یوٹیوب میں جا کر اس کی ویڈیوز اور استعمال دیکھ لیتے ہیں اور بلاگز میں ان لوگوں کی آراء بھی پڑھ لیتے جنہوں نے یہ چیز استعمال کی ہوتی ہے۔ اس طرح چیز خریدنے سے پہلے ہی آپ کی سو فیصد تسلی ہو چکی ہوتی ہے اور آپ اطمینان کے ساتھ چیز گھر منگوا لیتے ہیں۔ کراچی میں تو کئی نوجوانوں نے ایسی موبائل ایپس بنائی ہوئی ہیں جن کے ذریعے وہ چھوٹی چھوٹی کالونیوں اور علاقوں میں روزانہ سودا سلف پہنچاتے ہیں۔ بہت سے نوجوان نوکریوں کے ساتھ ساتھ یہ کام کر رہے ہیں کیونکہ اب نوکریوں میں سالانہ اضافہ بھی نہیں ہوتا اور مہنگائی کی وجہ سے تنخواہیں بھی کم پڑتی جا رہی ہیں؛ چنانچہ ہر سال جو دو تین لاکھ نوجوان ڈگریاں لے کر مارکیٹ میں آ رہے ہیں‘ ان کے پاس ایک حل یہ ہے کہ وہ اپنا کام شروع کریں‘ اور اس کے لئے ٹیکنالوجی کا سہارا لیں۔ حکومت ان کے لئے چھوٹے بلا سود قرضے دے سکتی ہے۔ پچاس ہزار تا دو لاکھ روپے میں کوئی بھی آن لائن کاروبار چھوٹے پیمانے پر بہ آسانی شروع کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ بل گیٹس نے کہا تھا کہ اس دور میں جو غریب پیدا ہوا اس کا قصور نہیں بلکہ اصل بد قسمت وہ ہے جو دنیا سے غریب چلا جائے۔ ٹیکنالوجی کے اتنے مواقع ہونے کے بعد بھی کاروبار نہ کرنا اور قسمت کو کوسنا بد نصیبی کی علامت ہے۔ حکومت‘ نوجوانوں اور نوکری پیشہ افراد کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔