ٹیکنالوجی کے بڑھتے استعمال میں جہاں انسانوں کیلئے بے بہا فائدے موجود ہیں وہاں یہ انسانوں کیلئے ہی بہت سے خطرات بھی ساتھ لے کر آئی ہے۔ آپ بغیر ڈرائیور گاڑیوں کو ہی دیکھ لیں۔ دنیا میں اس وقت آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو اپنانے پر بہت زور ہے۔ گوگل خود سیلف ڈرائیونگ کار کے منصوبے پر گزشتہ دس برس سے کام کر رہا ہے اور اس کی یہ گاڑیاں ٹیسٹ ڈرائیو کے طور پر پانچ لاکھ کلومیٹر سفر کر چکی ہیں۔ اس دوران چند ایک چھوٹے موٹے حادثات ہوئے لیکن کوئی بڑا مالی یا جانی نقصان نہیں ہوا۔ بہت سے ممالک جیسے دبئی‘ چین اور سنگاپور ایک سال بعد یہ گاڑیاں لانچ کرنے والے ہیں۔ یہ گاڑیاں دراصل مختلف سینسرز اور سگنلز کے ذریعے چلتی ہیں اور جی پی ایس اور انٹرنیٹ کی مدد سے دیگر گاڑیوں سے فاصلہ رکھتی ہیں اور اپنی منزل پر پہنچتی ہیں۔ آپ نے کسی جگہ جانا ہے تو آپ ایک موبائل ایپ کھولتے ہیں اور جس طرح اُبر یا کریم سے ٹیکسی منگواتے ہیں اسی طرح آپ نے خودکار گاڑی کی ایپ کے ذریعے ٹیکسی منگوانی ہے۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ جب آپ اس ٹیکسی میں بیٹھیں گے تو ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی ڈرائیور موجود نہیں ہو گا بلکہ ڈیش بورڈ پر لگی سکرین کے پیچھے سے آواز آئے گی: خوش آمدید‘ آپ کہاں جانا پسند کریں گے۔ آپ بول کر بتائیں گے مثلاً ڈائون ٹائون تو آپ کے سامنے یا دائیں طرف شیشے پر گوگل کا ایک نقشہ ظاہر ہو جائے گا‘ آپ کے دائیں یا بائیں طرف موجود دروازے کا شیشہ موبائل کی ٹچ سکرین بن جائے گا اور آپ اس میں ڈائون ٹائون کے اس خاص مقام پر کلک کر دیں گے جہاں آپ جانا چاہتے ہیں۔ جیسے ہی آپ کلک کریں گے کمپیوٹر آپ سے تصدیق کرے گا اور آپ کا سفر شروع ہو جائے گا۔ گاڑی کے گیئر خود بخود لگیں گے‘ سپیڈ‘ بریکیں اور سٹیئرنگ بھی خودکار طریقے سے کام کرے گا۔
انٹرنیٹ پر ٹیسٹ ڈرائیو کی ایسی ویڈیوز دیکھیں تو کوئی تیس برس پرانی انگریزی فلم سیریز نائٹ رائیڈر یاد آ جاتی ہے جو پی ٹی وی پر لگتی تو اسی طرح سڑکیں ویران ہو جاتیں جس طرح پی ٹی وی کے وارث‘ الف نون اور تنہائیاں جیسے چند لاجواب ڈراموں کے دوران ہوتیں۔ بچے اور نوجوان انتہائی دلچسپی اور حیرانی سے دیکھتے کہ فلم کا ہیرو مائیکل نائٹ جب اپنی کلائی پر موجود گھڑی میں بول کر گاڑی کو بلاتا ہے تو گاڑی اس کے پاس نہ صرف پہنچ جاتی ہے بلکہ اس کا دروازہ بھی کھل جاتا ہے۔ جیسے ہی وہ اندر بیٹھتا ہے گاڑی میں نصب کمپیوٹر اس سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ ہم جب یہ فلمیں دیکھتے تھے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ صرف بیس تیس برس بعد یہ کہانی حقیقت کی شکل اختیار کر لے گی۔ آپ صرف ایک برس اور انتظار کر لیں‘ آپ کو نائٹ رائیڈر کی فلم حقیقت بنتی دکھائی دے گی۔ آپ اپنی جدید اینڈرائڈ گھڑی میں گاڑی کو بلائیں گے اور وہ آپ کی تابعداری کرتے آئے گی۔ کئی گاڑیاں ایسی مارکیٹ میں جلد آ رہی ہیں‘ جن کے دروازے بھی خودکار کھلتے اور بند ہوتے ہیں۔ ایسی گاڑیاں شروع میں بہت زیادہ مہنگی ہوں گی اور ہر کوئی انہیں افورڈ نہیں کر سکے گا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ منصوبہ ناکام ہو جائے گا۔ شروع میں کمپیوٹر بھی آیا تھا تو کتنے لوگ خریدتے تھے۔ ذرا یاد کریں بیس پچیس برس قبل آپ انٹرنیٹ کا ایک گھنٹہ کتنے میں خریدتے تھے اور اس کی سپیڈ کتنی ہوتی تھی۔ ویڈیو چلنا تو دور کی بات ایک تصویر بھی مر مر کے ڈائون لوڈ ہوتی تھی۔ پانچ سو روپے میں ایک گھنٹہ ملتا جسے کئی دن بلکہ ہفتہ ہفتہ تھوڑا تھوڑا کرکے استعمال کیا جاتا۔ دو چار منٹ چلا کر کوئی ویب سائٹ یا کوئی خبر دیکھی جاتی‘ ساتھ ہی منقطع کر دیا جاتا۔ پھر یہ کہ ہر مرتبہ کنیکٹ کرنے کے لئے ایک فون کال کا خرچ الگ سے پڑتا۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی میں تحقیق ہوئی‘ مزید کمپنیاں میدان میں آئیں‘ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر عام استعمال اور ہر گھر کی ضرورت بن گیا۔ بھاری بھرکم مانیٹر کی جگہ باریک ایل سی ڈی نے لے لی۔ آج آپ کو شاذ و نادر ہی کہیں پرانے ٹی وی جیسے مانیٹر دکھائی دیں گے بلکہ اب تو ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کا رواج ہی ختم ہو رہا ہے۔ جتنے میں ایک نان برانڈڈ ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر بنتا ہے اس سے کم میں لیپ ٹاپ مل جاتا ہے‘ جس میں بیٹری بیک اپ بھی ہوتا ہے اور اٹھانا لے جانا بھی آسان۔ آج اگر ایک خودکار چلنے والی گاڑی ایک کروڑ روپے میں لانچ ہوتی ہے تو آج سے دس برس بعد یہی گاڑی دس لاکھ میں مل رہی ہو گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر بسوں‘ ٹرکوں اور ٹیکسیوں کے لاکھوں کروڑوں ڈرائیور کیا کریں گے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس رفتار سے نئی ٹیکنالوجی پیدا ہوتی ہے اس کی خبریں مارکیٹ میں اس سے زیادہ تیزی سے پھیل جاتی ہیں۔ لوگ خبردار ہو جاتے ہیں وہ ایک دوسرے کو خود بتانے لگتے ہیں کہ فلاں جاب یا فلاں کاروبار کا مستقبل مدھم پڑ رہا ہے‘ لہٰذا وہ اپنی سمت تبدیل کر لیتے ہیں۔ ویسے بھی خودکار گاڑیاں ایک دم سے نہیں آ جائیں گی۔ دبئی نے دبئی فیوچر فائونڈیشن قائم کی ہے‘ جس کے تحت اس نے اپنی آئندہ کی ٹرانسپورٹ پالیسی میں لکھا ہے کہ دو ہزار تیس تک دبئی اپنی ٹرانسپورٹ کا پچیس فیصد خودکار ٹرانسپورٹ ٹیکنالوجی میں تبدیل کر لے گا‘ اور روزانہ پچاس لاکھ خودکار سفر شروع ہو جائیں گے‘ جس سے دبئی کو سالانہ 22 ارب درہم کی بچت ہو گی اور دبئی ٹیکنالوجی کے اس نئے انداز کو متعارف کروانے والا پہلا ملک بن جائے گا۔ اس فائونڈیشن نے ٹیکنالوجی پر مبنی درجنوں منصوبے شروع کئے ہیں جن میں مستقبل کے دفاتر‘ روبوٹس کا عام زندگی میں استعمال‘ ڈرونز سے شہریوں کی امداد‘ تھری ڈی پرنٹنگ‘ مستقبل کا میوزیم اور دیگر منصوبے شامل ہیں۔ دبئی ٹین ایکس منصوبے کا مقصد دبئی کو دنیا کے تمام شہروں سے دس گنا جدید اور ترقی یافتہ بنانا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ مقابلے کی اس دوڑ میں سنگاپور‘ ملائیشیا سمیت درجنوں ممالک شامل ہو چکے ہیں اور وہ جو بھی منصوبہ سامنے لا رہے ہیں‘ اسے ٹیکنالوجی سے نتھی کر رہے ہیں؛ چنانچہ صرف دس برس بعد آپ دیکھیں گے کہ جو لائف سٹائل ہم دیکھ رہے ہیں‘ اس میں پچاس فیصد تبدیلی آ چکی ہو گی۔ عام زمینی کاروں کی جگہ خودکار گاڑیاں لے لیں گی‘ میڈیکل سائنس اتنی ترقی کر لے گی کہ موبائل فون کے ذریعے خون کے تمام ٹیسٹ گھر بیٹھے کئے جا سکیں گے۔ یہ تک دیکھا جا سکے گا کہ جسم کی ہڈیوں میں کیلشیم اور دیگر اجزا کی مقدار کتنی ہے۔ خون کتنا ہے اور کتنی رفتار سے دوڑ رہا ہے حتیٰ کہ شریانوں میں تنگی کے لئے آپریشن کروانے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ یہ کام بھی کمپیوٹر اور شعائوں کی مدد سے کر دیا جائے گا۔ مصنوعی دل تو بن اور لگ بھی رہے ہیں لیکن دس بیس برسوں میں یہ ہر کسی کی دسترس میں آ جائیں گے اور لوگوں میں دل کی بیماریوں کے باعث اموات کی شرح کم ہو جائے گی۔ ایسی میموری چپ دستیاب ہوں گی جو دماغ میں لگانے سے یادداشت بڑھ جائے گی اور دماغ براہ راست سوچنے سمجھنے کی وسیع صلاحیت کا حامل بن جائے گا۔ سب سے زیادہ ترقی موبائل فون میں ہو گی‘ لیپ ٹاپ بھی نایاب ہو جائیں گے۔ کی بورڈ کی جگہ لیزر سے حروف کے عکس کسی بھی میز پر ظاہر کرکے ٹائپنگ کی جا سکے گی اسی طرح ایل سی ڈی سکرینیں اور ٹی وی بھی ختم ہو جائیں گے اور موبائل کے اندر پروجیکٹر شامل ہو جائے گا‘ اور کسی بھی جگہ دیوار یا ہوا میں سکرین کا عکس ظاہر ہو جائے گا۔ ترقی یافتہ ممالک میں روایتی تعلیم کا تصور ختم ہو جائے گا اور سائنس کی نئی قسمیں سامنے آ جائیں گی۔ خودکار گاڑیوں کے آنے کے کچھ عرصے بعد بغیر ڈرائیور ہوائی گاڑیاں بھی شروع ہو جائیں گی۔ پاسپورٹ‘ شناختی کارڈ اور کریڈٹ کارڈ وغیرہ ختم ہو جائیں گے اور انسان کی شناخت اس کے انگوٹھوں کے نشانات یا آنکھوں کی بجائے مشینوں کے ذریعے اس کے ڈی این اے سے ہو گی۔ ویزہ لگنے کے کئی طویل مراحل بھی ختم ہو جائیں گے۔ ادھر آپ ارادہ کریں گے ‘ اُدھر آپ کی معلومات سفارت خانوں سے ہو کر ایئرپورٹ پر پہنچ جائیں گی اور آپ جہاں چاہے سفر کر سکیں گے۔ متذکرہ بالا کئی ایجادات مکمل ہو چکی ہیں‘ کئی تکمیل کے قریب ہیں اور کئی ابتدائی مراحل میں ہیں۔ کچھ مزید ایسی دلچسپ ایجادات بھی ہیں جو مستقبل کا نقشہ یکسر تبدیل کر دیں گی‘ ان کا ذکر آئندہ۔