ایشیا ساٹھ فیصد کی برتری کے ساتھ دنیا میں ڈیجیٹل اکانومی کو اپنانے میں سرفہرست ہے۔ ڈیجیٹل اکانومی کا مطلب ہے کمپیوٹر‘ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں کو روزگار حاصل کرنے کے مواقع مہیا کرنا۔ ایشیا کے بعد یورپ اٹھارہ فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ پندرہ فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر شمالی امریکہ اور پانچ فیصد کے ساتھ افریقہ چوتھے نمبر پر ہے۔ دوسرے لفظوں میں دنیا میں آن لائن کام کرکے آمدنی کمانے والے سب سے زیادہ افراد ایشیا کے ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈیجیٹل اکانومی کو اپنانے والے سرِ فہرست ممالک کے لحاظ سے پہلے نمبر پر بھارت‘ دوسرے پر بنگلہ دیش‘ تیسرے پر امریکہ‘ چوتھے نمبر پر پاکستان‘ پانچویں پر فلپائن ہے۔ ڈیجیٹل اکانومی میں پانچ چھ چیزیں شامل ہیں۔ سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ‘ کری ایٹو اینڈ ملٹی میڈیا‘ سیلز اور مارکیٹنگ سپورٹ‘ ٹرانسلیشن اور تحریر سازی‘ ڈیٹا انٹری اور دیگر پروفیشنل سروسز۔ اگر ہم ایشیا کی بات کریں تو ڈیجیٹل اکانومی میں سب سے زیادہ آمدن بھارت کما رہا ہے۔ دوسرے نمبر پر بنگلہ دیش ہے‘ جو حیران کن بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ آکسفورڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی تازہ رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش پانچ لاکھ فری لانسرز کے ساتھ دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے اور اس مد میں سالانہ ایک سو ملین ڈالر کما رہا ہے۔ اس کے پیچھے بنگلہ دیش حکومت کا ویژن کارفرما ہے۔ بنگلہ دیش ہر شہر میں ہائی ٹیک پارک بنا رہا ہے‘ جہاں ٹیکنالوجی پر مبنی تیز اور جدید ترین سہولیات میسر ہوں گی۔ 2009ء میں بنگلہ دیش میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد کی تعداد صرف تیرہ لاکھ تھی جو 2017ء میں بڑھ کر آٹھ کروڑ ہو گئی تھی۔ بنگلہ دیش ملک بھر میں ایک سو اکنامک زون بنا رہا ہے‘ جہاں سرمایہ کاروں کو پُرکشش ترغیبات دی جائیں گی۔ بنگلہ دیش میں انٹرنیٹ کی سپیڈ کو بڑھایا جا رہا ہے اور لاگت کو عوام کے لئے روزبروز کم سے کم کیا جا رہا ہے تاکہ زیادہ لوگ انٹرنیٹ سے جڑیں اور آمدنی حاصل کر سکیں۔ بنگلہ دیش میں پینسٹھ فیصد افراد کی عمر پینتیس سال سے کم ہے۔ وہاں کی حکومت ان پینسٹھ فیصد افراد پر خصوصی فوکس کر رہی ہے تاکہ انہیں برسرِ روزگار کرکے ملک کی معیشت کا حصہ دار بنایا جائے۔ 2010ء میں بنگلہ دیش نے یونین ڈیجیٹل سنٹرز بنائے تھے‘ جنہیں 2013ء میں ضلعی سطح تک پھیلا دیا گیا اور انفارمیشن پر مبنی خدمات کو حکومت کی پچیس ہزار ویب سائٹس کے ذریعے عام لوگوں کی رسائی کے لئے ممکن بنا دیا گیا۔ بنگلہ دیش کا ویژن 2021ء بڑا مقبول ہو رہا ہے‘ جس میں بیس لاکھ نوجوانوں کو فری لانسنگ سے جوڑنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ ان سارے اقدامات سے بنگلہ دیش تیزی سے فری لانسنگ میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ بنگلہ دیش میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ٹیکنالوجی کی سمجھ بچوں اور نوجوانوں کو ہی زیادہ آتی ہے۔ دوسری وجہ وہاں کی حکومت ہے‘ جو سنجیدگی کے ساتھ آئی ٹی کے فروغ کے لئے اقدامات کر رہی ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش کو بجلی کی کمی اور لوڈ شیڈنگ کا بری طرح سے سامنا ہے۔ جبکہ فری لانسرز اور سافٹ ویئر انجینئرز کے لئے بجلی کی مسلسل ترسیل بہت ضروری ہے کیونکہ بجلی بار بار جانے کا مطلب ان کے کام میں خلل ہے۔ وہ خود تو یہ خلل برداشت کر لیں گے لیکن جس کلائنٹ نے انہیں کام دیا ہوتا ہے وہ بار بار کی تاخیر برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر ہم پاکستان کو دیکھیں تو بنگلہ دیش کی طرح یہاں بھی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی پینتیس برس سے کم نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں بھی لوڈ شیڈنگ کے مسائل موجود ہیں؛ تاہم جس تسلسل کے ساتھ بنگلہ دیش ڈیجیٹل اکانومی کو اپنا رہا ہے پاکستان اس سے بہت زیادہ پیچھے ہے۔ بنگلہ دیش میں کل ساڑھے چھ لاکھ فری لانسرز میں سے پانچ لاکھ رجسٹرڈ ہیں جبکہ پاکستان میں فری لانسرز کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں سے رجسٹرڈ کتنے ہیں کسی کو معلوم نہیں۔ بھارت کی بات کریں تو یہ پندرہ لاکھ فری لانسرز کے ساتھ سرفہرست ہے۔ بھارت میں بنگلور ایک عرصہ سے آئی ٹی کا ہب بنا ہوا ہے‘ اور یہ نیٹ ورک دیگر شہروں تک بھی پھیل چکا ہے۔ بھارت کی کئی کمپنیاں آئی ٹی کے میدان میں دنیا کی پہلی ایک سو پوزیشنز میں ہیں‘ جبکہ پاکستان کی ایک بھی کمپنی جگہ نہیں بنا سکی۔ بھارت کی ایک کمپنی الیکٹرک گاڑیاں تیار کر رہی ہے جو 2021ء میں مارکیٹ میں آ جائیں گی جبکہ پاکستان ایک عام گاڑی بھی تیار نہیں کر پایا۔ جنہیں ہم لوکل گاڑیاں کہتے ہیں‘ ان کے ستر فیصد پرزے باہر سے امپورٹ ہوتے ہیں اور انہیں یہاں کے کارخانوں میں محض جوڑ دیا جاتا ہے۔ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس کے مقامی دفاتر بھارت میں موجود ہیں‘ لیکن پاکستان میں ان کا کوئی دفتر موجود نہیں۔ ان سب مسائل کے باوجود پاکستان فری لانسنگ اور ڈیجیٹل اکانومی میں چوتھے نمبر پر کھڑا ہے جو باعث حیرت ہے اور قابل فخر بھی؛ تاہم اس میں نوجوانوں کی اپنی سکلز کا زیادہ ہاتھ ہے۔ وہ انٹرنیٹ اور یوٹیوب سے سیکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں اگرچہ پیسہ بہت ہے لیکن اس میں ایک مسئلہ بھی ہے کہ ٹیکنالوجی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ اگر آپ پانچ برس قبل کی ویب سائٹس کی پروگرامنگ کی ہی بات کر لیں تو اب بہت سی چیزیں تبدیل ہو چکی ہیں۔ وقت کے ساتھ خود کو اپ ڈیٹ کرنا بہت ضروری ہے۔ اب وہ زمانے چلے گئے جب بندہ بی اے ایم اے کرکے ساری عمر گزارہ کر لیتا تھا۔ کہیں بھی نوکری کے لئے جاتا تو محض بی اے‘ ایم اے کی بنیاد پر نوکری مل جاتی تھی۔ اب ایسا نہیں ہے۔ خالی ایم اے‘ بی اے سے تو کام چل نہیں سکتا۔ اس کے ساتھ آئی ٹی کی اہلیت ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ امن و امان ہو یا زراعت‘ تعلیم ہو یا کھیل ہر شعبے میں آئی ٹی کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ آپ سیف سٹی پروجیکٹ کو ہی دیکھ لیں۔ پرانے زمانوں میں پولیس گھوڑوں پر سوار ہو کر گلیوں بازاروں میں چور اچکوں پر نظر رکھتی تھی جبکہ اب یہ کام شہر میں جگہ جگہ لگے کیمروں سے ہوتا ہے۔ ہزاروں کیمروں سے شہر میں ہونے والی مشکوک حرکات پر نہ صرف نظر رکھی جا سکتی ہے بلکہ انہیں ٹریس بھی کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے میں بھی ٹیکنالوجی نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہر شخص کی بائیومیٹرک شناخت کو لازمی قرار دینے سے بہت سے مسائل خودبخود حل ہو گئے ہیں۔ چین تو اس معاملے میں چار قدم آگے جا چکا ہے۔ وہاں سڑکوں‘ چوراہوں اور بازاروں میں لگے کیمرے نہ صرف مشکوک حرکات کی نگرانی کرتے ہیں بلکہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کے ذریعے خودکار طریقے سے کسی بھی شخص کو چند سیکنڈز میں ڈھونڈ نکالنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ آپ کسی بھی تھانے میں چلے جائیں اور جا کر کسی شخص کی تصویر دے دیں جس نے آپ کے ساتھ کوئی جرم کیا ہے تو یہ خودکار نظام اس شخص کو چند منٹ میں تلاش کر کے قریبی تھانے کے ذریعے گرفتار کرا سکتا ہے۔
ڈیجیٹل اکانومی کی اس دوڑ میں پاکستان چند اہم اقدامات کے ذریعے آگے نکل سکتا ہے۔ ملک میں انٹرنیٹ کو سستا‘ تیز تر اور وسیع پیمانے پر دستیاب بنانا ضروری ہے۔ ڈیٹا سائنس کے شعبے میں کام کرنے سے پتہ چلے گا کہ نوجوانوں کو کن شعبوں کی طرف راغب کرانا زیادہ ضروری ہے‘ اور کون سے شعبے ایسے ہیں جنہیں ختم کر دینا چاہیے تاکہ بے مقصد توانائیاں خرچ کرنے سے انہیں بچایا جا سکے۔ عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم آہنگ ہونے کے لئے ایک ٹاسک فورس کا قیام از حد ضروری ہے‘ جو ملکی معیشت اور دنیا کے درمیان ایک پل کا کام دے سکے۔ نوجوانوں کو انٹرپرینورشپ کی طرف راغب کرنے کے لئے ضلعی سطح پر پروگرام شروع کئے جانے چاہئیں کیونکہ یہ واحد ایسا شعبہ ہے‘ جس میں انتہائی کم اخراجات سے بڑے منصوبے شروع کئے جا سکتے ہیں۔ آج ہی یہ خبر پڑھی کہ نسٹ کے طلبا نے برطانیہ میں ہونے والے ڈرون ٹیکنالوجی کے عالمی مقابلہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ ایسی خبروں سے پتہ چلتا ہے اس ملک میں کتنا ٹیلنٹ موجود ہے؛ تاہم اس ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی اور اسے صحیح سمت دکھانا بھی اتنا ہی ضروری ہے تاکہ اس ٹیلنٹ سے وسیع پیمانے پر فائدہ اٹھا کر اسے ملکی ترقی میں حصہ دار بنایا جا سکے۔