انسان کو ہر بیماری سے عافیت کی دعا کرنی چاہیے ‘لیکن دماغی خرابی ایک ایسی چیز ہے‘ جس سے بہت زیادہ پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے۔کوئی انسان کسی ایسے انسان کے ساتھ تو گزارا کر سکتا ہے جو بازو‘ آنکھوں یا ٹانگوں سے محروم ہو یاجو بول یا سن نہ سکتا ہو‘ لیکن ایک ایسے انسان کے ساتھ رہنا انتہائی مشکل ہے جو اپنے دماغ کو صرف اور صرف منفی کاموں کیلئے استعمال کرتا ہو‘جو ہمیشہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کا ہی سوچتا ہو اور جس کا دماغ خود اس کے قابو میں نہ ہو۔ دماغ دنیا کی قیمتی ترین متاع ہے۔ آپ ہٹلر سے واقف ہوں گے۔ ہٹلر نے لاکھوں افراد کو قتل کرنے کا حکم اپنے دماغ سے ہی جاری کیا تھا اور یہ دماغ ہی ہے‘ جسے استعمال کرتے ہوئے الیگزینڈر فلیمنگ نے پینسلین ایجاد کی‘ جس کی وجہ سے آج بیمار ہونے والے کروڑوں اربوں انسانوں کی زندگیاںبچ جاتی ہیں؛چنانچہ آپ کو انسان میں دماغ سے زیادہ اہم چیز کوئی اور نہ ملے گی‘ تاہم مصنوعی انسانی دماغ کی تیاری سے متعلق دو خبروں نے ایک مرتبہ پھر دنیا کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
پہلی خبر کے مطابق مائیکروسافٹ کمپنی نے مصنوعی انسانی دماغ کی تیاری کے منصوبے کے لئے ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر دی ہے۔ یہ مصنوعی دماغ سپیس ایکس اور ٹیسلا کمپنیاں مل کر تیار کریں گی۔ اوپن آرٹی فیشل انٹیلی جینس پروگرام کے چیف ایگزیکٹو کے گریگ بروکمین کے مطابق یہ انسانی تاریخ کی آج تک کی اہم ترین تکنیکی ایجاد ہو گی جو انسانی زندگی کو بالکل نئی جہت فراہم کرے گی۔مائیکروسافٹ کے ساتھ مل کر سپر کمپیوٹنگ فاؤنڈیشن قائم کی جائے گی جس کے تحت مصنوعی انسانی یادداشت پر مبنی ڈیجیٹل دماغ تخلیق کئے جا سکیں گے۔اس ایجاد کے کیا عملی اثرات مرتب ہوں ‘کسی کو اس بارے میں معلوم نہیں ‘لیکن یہ ایجاد غربت اور بیماری کے خاتمے میں اہم کردارادا کرے گی۔ اوپن آرٹی فیشل انٹیلی جینس پروگرام 2015ء میں شروع ہوا تھا اور اس کے تحت مختلف سٹارٹ اپس مصنوعی ذہانت کے حوالے سے قابل قدر کامیابیاں حاصل کر چکے ہیں۔کمپنی کے مطابق یہ منصوبہ نیک نیتی کے ساتھ انسانیت کی بہتری کے لئے شروع کیا گیا ہے اور اس ٹیکنالوجی کی بدولت تمام انسانوں کو زندگی کے ہر قسم کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی مکمل معاشی آزادی حاصل ہو گی اور ایسی نئی جہات دریافت ہو سکیں گی جن کے بارے میں آج تک کبھی سوچا ہی نہیں گیا۔
دوسری خبر بھی انسانی دماغ کے متعلق ہے ‘جس کے مطابق امریکی ریاست مینی سوٹا کے ہسپتال میں ایک مریض کے دماغ میں سرجری کے ذریعے یادداشت بڑھانے کی خاطر مائیکرو چپ لگانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔مائیکرو چپ لگانے سے قبل مریض سے بارہ الفاظ دہرانے کے لئے کہا گیا ‘لیکن وہ صرف تین یاد رکھ سکا۔ میموری چپ لگانے کے بعد اس کی یادداشت کا دوبارہ ٹیسٹ لیا گیا تو اس نے فوراً بارہ کے بارہ الفاظ دہرا دئیے۔ یہ آلہ پینسلو ینیا یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل کہانا کی ایجاد ہے۔ مائیکل کہانا کے مطابق ہم مریض کے دماغ میں مختلف سینسرز لگا دیتے ہیں جو دماغ سے نکلنے والے الیکٹریکل سگنلز کو مانیٹر کرتے ہیں۔ ان سگنلز کی مدد سے یہ آلہ یادداشت سے متعلقہ مواد تلاش کر کے واپس دماغ کو بھیجتا ہے۔یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے موسمیات کے ماہرین فضا میں مختلف سینسرز لگا دیتے ہیں‘ جو فضا میں نمی اور ہوا سے متعلق ڈیٹا حاصل کر لیتے ہیں۔کیس سٹڈیز کے مطابق اس چپ کی مدد سے ٹیسٹ کے دوران مریضوں کی یادداشت 15سے37 فیصد تک بہتر ہوئی۔گزشتہ پانچ برس کے دوران امریکی ایڈوانسڈ ریسرچ پراجیکٹس ایجنسی یادداشت کی بحالی پر مبنی ٹیکنالوجی اور تحقیق پر 77ملین ڈالر خرچ کر چکی ہے۔امریکہ میں یہ ٹیکنالوجی بنیادی طور پر دماغی چوٹوں کے باعث زخمی ہزاروں فوجیوں کے لئے وضع کی گئی ہے‘ تاہم امریکہ میں ایک سٹارٹ اپ انکیوبیٹر اس ٹیکنالوجی کو مارکیٹ میں کمرشل بنیادوں پر متعارف کروانے کے لئے کام کر رہا ہے۔
انسان کو اشرف المخلوقات اس کے دماغ کی وجہ سے بھی کہا گیا ہے۔ دنیا میں ہزاروں لاکھوں جانور اور چرند پرند موجود ہیں اور یہ سب بھی دماغ رکھتے ہیں‘ لیکن ان سب میں سے صرف انسان ہے جو اپنے دماغ کو پوری طرح استعمال کر سکتا ہے۔ انسان کے سامنے شیر آ جائے تو شیر کے پاس سوائے انسان کو کھانے کے اور کوئی کام نہیں ہوتا۔ اسی طرح گدھے اور گھوڑے بھی یا تو کھا پی سکتے ہیں ‘ چلتے دوڑتے‘ وزن اٹھاتے ہیں یا پھر نیند کے مزے لیتے ہیں‘اس کے علاوہ کوئی چوتھا کام انہیں نہیں آتا۔ پرندوں کے پاس بھی سوائے اڑنے اور کھانے پینے کے کوئی کام نہیں ہوتا۔ یہ کسی بھی طرح کوئی چیز تخلیق نہیں کر سکتے نہ ہی دنیا میں بہتری لانے کے لئے کسی کام کا آغاز کر سکتے ہیں۔قدرت نے انسان کو دماغ کی صورت میں بہت بڑی ذمہ داری عنایت کی ہے اور ساتھ میں اسے اچھے بُرے کی تمیز بھی سکھا دی ہے۔ کسی بھی اچھے یا برے کام سے قبل انسان کے دماغ میں اس بارے خیالات جنم لیتے ہیں۔ وہ ان خیالات کی بنیاد پر کوئی ردعمل دیتا ہے۔ اس نے آنکھ جھپکنی ہے‘ پائوں ہلانا ہے‘ کسی کو سزا دینی ہے یا کسی کے کام آنا ہے یہ سب اس کے دماغ میں آنے والے خیالات اور دماغ کے ذریعے جسم کو منتقل ہونے والے پیغامات کی صورت میں ہوتا ہے۔جہاں تک یادداشت بڑھانے کی بات ہے تو وہاں تک ٹھیک ہے۔ ایک انسان کے اندر اگر چیزوں کو یاد رکھنے کی صلاحیت بڑھ جائے تو اسے اس سے بڑی نعمت کیا ہو گی؟ وقت کے ساتھ یادداشت میں کمی ایک عام مسئلہ ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں یہ بیماری سنگین نوعیت اختیار کر چکی ہے جہاں آئے روز مہنگائی‘ بے روزگاری اور دیگر عوامی مسائل نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔وہ کوئی بھی کام کرتے ہیں‘ لیکن ان کا دماغ نارمل حالت میں نہیں رہتا کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ جو کام کر رہے ہیں اس میں ان کا معاشی گزارا نہیں ہو رہا؛ چنانچہ ان کا دماغ مسلسل سوچوں اور دبائو میں گھرا رہتا ہے اور یوں ان کی یادداشت پر برا اثر پڑتا ہے۔
مگرمصنوعی یادداشت پر مبنی مصنوعی دماغ کیا گل کھلائیں گے یہ ان کو بنانے والوں کو بھی معلوم نہیں۔ دماغ انسانی جسم کا ہیڈ کوارٹر ہوتا ہے جو پورے جسم کو پل پل مختلف احکامات جاری کر رہا ہوتا ہے۔ اگر‘ مصنوعی انسانی دماغ روبوٹس میں لگائے گئے اور ان روبوٹس نے اپنی من مانی کرتے ہوئے اپنے موجدوں کے خلاف ہی اقدامات شروع کر دئیے تو امن و امان کے نئے مسائل کھڑے ہو جائیں گے۔ اگر ایسے مصنوعی دماغوں کو افواج سے منسلک کر دیا گیا تو یہ دنیا کا امن بھی دائو پر لگا سکتے ہیں۔مصنوعی ذہانت اس وقت دنیا کا اہم ترین موضوع ہے۔ اس پر کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں ‘جبکہ عملی زندگی میں اس سے بہت زیادہ کام لیا جا رہا ہے۔ خودکار یعنی بغیر ڈرائیور کے گاڑیاں اس کی ایک مثال ہیں۔ تاہم اب ایسے روبوٹس بھی تیار ہو چکے ہیں‘ جن سے آپ سوال کرتے جائیں یہ آپ کو جواب دیتے رہیں گے۔ آپ تھک جائیں گے‘ آپ کے سوال ختم ہو جائیں گے‘ لیکن یہ روبوٹ تھکیں گے نہ ہی ان کے جواب ختم ہوں گے۔ تاہم ایسی ٹیکنالوجیز کو بنانے اور ان پر تجربے کرنے سے قبل موجدین کو سوچنا ہو گا کہ وہ کہیں انسانی فطرت میں تو دخل اندازی نہیں کر رہے۔ ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسے تجربات ضرور ہونے چاہئیں جن سے انسانیت کا فائدہ ہو‘ لیکن اگر اس دنیا کا امن و امان مصنوعی دماغ پر مبنی روبوٹس کے ہاتھ میں پکڑانا ہے تو اس بارے ایک ہزار مرتبہ سوچنا ہو گا۔ عالمی ٹیکنالوجی کمپنی ٹیسلا کے چیف ایگزیکٹو ایلن مسک کا خیال ہے کہ مصنوعی انسانی دماغ کی تیاری میں بہت سے خطرات بھی منسلک ہیں‘ جو ایٹمی ہتھیاروں سے زیادہ مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ا یلن مسک اس پراجیکٹ سے ذاتی طور پر علیحدہ ہو چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کل کو اگر اس ٹیکنالوجی کو منفی عزائم کیلئے استعمال کیا گیا‘ تووہ اس کی کوئی توجیہ پیش نہیں کر سکیں گے اور تاریخ انہیں ہٹلر سے بھی برے الفاظ میں یاد رکھے گی۔انسانی دماغ کے ساتھ کھیلنا کوئی مذاق کی بات نہیں‘ کیونکہ اس ٹیکنالوجی کے بعد سب سے بڑا اور پیچیدہ سوال یہ پیدا ہو جائے گا کہ ڈیجیٹل دماغ رکھنے والے افراد کے ہاتھوں سے ہونے والی تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ شخص خود یا پھر وہ سائنسدان جنہوں نے مصنوعی دماغ ایجاد کیا ؟