ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طلبا پندرہ سولہ برس تک تعلیمی نصاب میں ایسی چیزیں پڑھتے ہیں جن میں سے صرف تیس فیصد عملی زندگی میں ان کے کام آتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سولہ برس کی تعلیم میں سے بارہ برس ہم یونہی سکول کالج جا کر ضائع کر دیتے ہیں اور اس میں سے اکثر چیزیں ہمارے کام نہیں آتیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ دوران تعلیم ہمیں اکثر چیزیں پڑھتے ہوئے خیال آتا تھا کہ کیا عملی زندگی میں ان کا کوئی فائدہ ہو گا یا پھر یہ سب ہم صرف امتحان میں نمبر لینے کے لئے پڑھ رہے ہیں۔ ہر والدین کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ زیادہ سے زیادہ نمبر لے تاکہ اسے بہترین کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ ملے اور اس کے بعد وہ اچھی سی نوکری حاصل کر سکے۔ یہ سوچ آج سے دس برس پندرہ سال قبل تک تو ٹھیک تھی لیکن اب صورتحال نئی سمت کی طرف جا رہی ہے۔ ہم سب گزشتہ دس برس کے دوران ڈاکٹروں‘ انجینئروں کا حال اچھی طرح دیکھ رہے ہیں۔ کبھی ہم نے زندگی میں سوچا تھا کہ ڈاکٹر سڑک پر آ کر اپنی تنخواہ بڑھانے یا سہولیات کا مطالبہ کرے گا یا پھر کوئی انجینئر اٹھے گا اور ساتھیوں کے ساتھ مال روڈ پر کئی روز دھرنا دے گا تاکہ اس کا الائونس پچیس ہزار روپے سے بڑھایا جا سکے۔ بھیڑ چال کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر بچہ ڈاکٹر اور انجینئر بننے کے خواب دیکھنے لگا یہ سوچے بغیر کہ اس کے اندر کون سی صلاحیت موجود ہے یا اس کی اپنی پسند کیا ہے۔ گزشتہ ماہ انجینئرنگ کالجوں میں داخلے کے لئے ایک دن میں چھیالیس ہزار طلبا نے ٹیسٹ دیا جن میں سے شاید تین چار ہزار کو ہی سیٹیں ملیں گی۔ یہی حال میڈیکل کے شعبے کا ہے۔ ستر اسی ہزار میں سے دو اڑھائی ہزار ڈاکٹر بنیں گے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بچ جانے والے کیا کریں گے۔ پہلے ایف ایس سی کے بعد مطلوبہ کالج میں داخلے نہ ملنے پر طلبا ایم بی اے کی طرف نکل جاتے تھے یا بی کام کرتے تھے بلکہ یہاں تک کہا جانے لگا تھا کہ جو کوئی کام نہیں کر سکتا وہ بی کام کر لیتا ہے۔ اب طلبا کے پاس مگر بہترین راستہ ہے۔ وہ کمپیوٹر سائنس میں بہترین مستقبل بنا سکتے ہیں؛ تاہم یہ فیصلہ انہیں میٹرک کے بعد کر لینا چاہیے کہ انہوں نے کس فیلڈ میں جانا ہے۔ بجائے اس کے کہ ادھر اُدھر سے ناکام ہو کر اس فیلڈ کی طرف آئیں انہیں بروقت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ ایک بات ذہین نشین کر لیں کہ اب کوئی بھی شعبہ اختیار کر لیں چاہے وہ انجینئرنگ ہو یا میڈیکل وہ بھی کمپیوٹر سائنس سے منسلک ہو چکا ہے۔ دل کے آپریشن سے لے کر دماغ کی سرجری تک اور ڈیموں کی تعمیر سے لے کر گرڈ سٹیشن کی انسٹالیشن تک تمام شعبے آئی ٹی سے منسلک ہو چکے ہیں۔ اس لئے کمپیوٹر سائنس کے بغیر ہر فیلڈ اُدھوری ہے۔ جس طرح سرکاری افسران کو ایم بی اے کی اضافی تعلیم کے باعث ترجیح دی جاتی تھی اب میڈیکل اور کمپیوٹر سائنس کے ملاپ کے بغیر میڈیکل کا شعبہ بھی اُدھورا ہے۔ اس لئے اب انہی ڈاکٹرز کا مستقبل روشن ہے جو آئی ٹی سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔
ہمارا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے بچوں کی یہ برین واشنگ کر رکھی ہے کہ ہم تعلیم اور نوکری پیسے کمانے کے لئے حاصل کرتے ہیں۔ آج کل کسی بچے سے کہنا کہ محنت سے پڑھائی کرو اور اچھی نوکری ڈھونڈو کافی نہیں بلکہ خطرناک ہے۔ آج کے بچے کو ملی جلی پڑھائی کی ضرورت ہے۔ ان میں یہ صلاحیت اُجاگر کرنی ہے کہ وہ اچھے اور برے کی پہچان کر سکے۔ مشکلات سے نکلنا سیکھے۔ سکول کی عمر سے بچوں کو چھوٹے چھوٹے پراجیکٹ دئیے جائیں۔ اس عمر میں وہ ان چیزوں سے گزر جائیں گے تو آگے چل کر بڑے منصوبے بڑے اعتماد کے ساتھ مکمل کرنے کے قابل ہو سکیں گے لیکن اگر کسی بچے نے کبھی مشکل دیکھی ہی نہ ہو گی اور وہ کتابوں کا کیڑا بن کر نمبر لیتا رہے گا تو عملی زندگی کے ابتدائی امتحان میں ہی فیل ہو جائے گا کیونکہ نصابی کتب ہمیں نمبر تو دلا سکتی ہیں لیکن ہمارے ماحول اور وقت کی ضروریات کے مطابق ہمیں تیار نہیں کر رہیں۔ میں نہیں جانتا کہ ہمارا نصاب تعلیم کب تبدیل ہو گا لیکن اب وقت آ گیا کہ اس پر سنجیدگی سے سوچا جائے۔ اس وقت درجنوں قسم کے ماسٹرز ایسے چل رہے ہیں جن سے روایتی نوکریوں کا حصول بھی ممکن نہیں رہا۔ ہر کوئی ایسے مضامین میں ماسٹرز کرنا چاہتا ہے جس میں وہ آسانی سے پاس ہو جائے اور اس کے سی وی پر ایم اے اِن فلاں سبجیکٹ لکھا جائے۔ بد قسمتی سے ہمارے ستر اسی فیصد بچوں کی سوچ یہیں آ کر ختم ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے سی وی پر ایک عدد ایم اے لکھا دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے بعد وہ برسوں تک اس ایم اے کو لے کر نوکری کرنا چاہتے ہیں اور اس کے اختتام پر بستر مرگ تک پنشن لینا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اطلاع کے لئے یہ عرض کر دوں کہ اب جدید ممالک میں بھی سرکاری نوکریاں غیر اہم اور کم پُر کشش بنتی جا رہی ہیں کیونکہ سرکاری نوکریوں میں تنخواہ لگی بندھی ہوتی ہے جبکہ عالمی کساد بازاری کے باعث اشیا قوت خرید سے باہر نکل چکی ہیں۔ دوسری جانب لوگوں کے سامنے جب نجی شعبے کی مثالیں آتی ہیں کہ کس طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے باعث لوگ دنوں میں ارب پتی بنتے جا رہے ہیں اور انہیں نہ تو مہنگائی کی فکر ہے نہ نوکری جانے کی کیونکہ آئی ٹی میں آپ کا لین دین ڈالر میں ہوتا ہے اور ڈالر میں اضافے کے باعث آپ کی آمدن مقامی کرنسی میں بڑھتی ہے گھٹتی نہیں؛ چنانچہ جہاں تعلیمی نصاب کو عالمی معاشی تبدیلیوں اور انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے وہیں بچوں میں یہ بات اجاگر کرنی چاہیے کہ وہ مسائل کو حل کرنے کے منصوبوں پر زیادہ سے زیادہ کام کریں۔ مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس نے بھی ایک انٹرویو میں اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ دس برسوں میں ایسی ٹیکنالوجیز پر کام ہونا چاہیے جن سے مختلف امراض کے شکار افراد کو مدد مل سکے۔ بل گیٹس نے کہا کہ مستقبل کے ہونہار سائنسدانوں کو غیر مادی سوالات پر غور کرنا چاہیے مثلاً لوگوں کو زیادہ سے زیادہ خوش کیسے رکھا جا سکتا ہے‘ معنی خیز زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے اور لوگوں کے آپس کے روابط کو کیسے مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔
عالمی میگزین فوربز نے گزشتہ دنوں دنیا کے دس ممالک کی فہرست شائع کی جو فری لانسنگ کے شعبے میں تیزی سے اپنا مقام بنا رہے ہیں۔ فوربز کے مطابق پاکستان دنیا کے دو سو ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں نوجوان اینٹرپرینورشپ‘ سٹارٹ اپس اور آئوٹ سورسنگ میں اپنا مقام بنا رہے ہیں اور خطیر زرمبادلہ حاصل کر رہے ہیں۔ اسی طرح پنجاب کے ای روزگار پروگرام اور وفاق کے ڈیجی سکلز پروگرام کی وجہ سے اب تک لاکھوں طلبا انٹرنیٹ پر کام کر کے کروڑوں روپے کما چکے ہیں‘ بڑے شہروں میں کو ورکنگ سپیس کا تصور بھی تیزی سے فروغ پا رہا ہے جہاں نوجوانوں کو ایک کمپیوٹر ٹیبل ماہانہ کرائے پر دستیاب ہوتی ہے جہاں بیٹھ کر وہ انٹرنیٹ‘ بجلی اور ایئرکنڈیشنر جیسی سہولیات کے ساتھ اپنا کام سہولت کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں چھوٹے چھوٹے انکوبیٹر بن رہے ہیں جہاں طلبا دوران تعلیم ہی مختلف آئیڈیاز کو کاروبار میں ڈھال رہے ہیں۔ یہ مارکیٹ میں جانے سے قبل ہی مارکیٹ کو جان رہے ہیں۔ یہ ٹرینڈ اور فوربز کی یہ خبر ہمیں ہمارے بچوں کے مستقبل کا واضح عکس دکھا رہی ہے کہ اس وقت دنیا میں تعلیم‘ نوکری اور کاروبار کا انداز یکسر تبدیل ہو رہا ہے۔ اب آئیڈیاز پر کام ہو رہا ہے اور یہ آئیڈیاز ایک نوجوان کو نہ صرف معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا کر رہے ہیں بلکہ یہ ملک کو بھی سرفہرست ممالک میں لا رہے ہیں۔ اس کے لئے حکومت کو تعلیمی نصاب اور تعلیم اور معاش کے موجودہ عالمی تقاضوں کے ہم آہنگ کرنا ہو گا تاکہ ہماری یونیورسٹیوں سے ہر سال لاکھوں بیروزگار نکلنے کا سلسلہ بند ہو اور یہ دوران تعلیم ہی آئی ٹی پر مبنی نئی ایجادات کرنے کے قابل ہوں‘ یہ جو پڑھائی کریں وہ عملی زندگی میں ان کے کام آئے اور وہ ارفع کریم رندھاوا کی طرح دنیا کو یہ بتا سکیں کہ پاکستان ٹیلنٹ میں کسی ملک سے پیچھے نہیں اور ہم بھی دنیا کی عظیم قوم بن سکتے ہیں۔