کرۂ ارض پر بڑھتے درجہ حرارت اور نت نئی ٹیکنالوجی نے لائف سٹائل برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ ماضی میں ہمارے ملک میں سرد اور گرم موسم میں ایک تفریق بہرحال ہوتی تھی۔ درمیان میں بہار اور خزاں کا واضح فرق موجود تھا۔ چار پانچ ماہ گرمیوں کا موسم رہتا تھا۔ اس میں اگست کا مہینہ بارشوں کے لئے مخصوص تھا۔ اس کے بعد خزاں کا آغاز ہو جاتا تھا اور ساتھ ہی موسم میں واضح تبدیلی بھی دیکھنے کو ملتی۔ اکتوبر میں ہی پنکھے بند ہونے لگتے اور رات کے وقت خنکی کا احساس ہونے لگتا تھا۔ چادریں اور کمبل نکل آتے اور اکتوبر کے آخر میں باقاعدہ سردی محسوس ہوتی۔ سردی کا موسم فروری کے آخر اور مارچ کے وسط تک جاری رہتا تھا۔ بہار کے جھونکے مارچ میں اپنا رنگ دکھاتے۔ اس کے ساتھ ہی موسم بھی پلٹنے لگتا۔ پھول مسکرانے لگتے اور بہار کا یہ موسم مارچ اور اپریل تک جاری رہتا۔ اس دوران گرمی کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ مئی میں جا کر گرمی کے آثار نظر آتے۔ یوں یہ چاروں موسم ایک سال میں اپنا اپنا رنگ دکھاتے اور ہم ان سے بھرپور محظوظ ہوتے۔
اب مگر سب کچھ بدل گیا ہے۔ سردیاں برائے نام رہ گئی ہیں اور تقریباً سارا سال ہی گرمی ڈیرہ ڈالے رکھتی ہے۔ سرد موسم نومبر کے آخر میں شروع ہوتا ہے اور جنوری گزار کر فروری کے آغاز میں ہی ختم ہو جاتا ہے۔ ایک اور چیز یہ ہوئی کہ بارشوں کا شیڈول بالکل تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ پہلے بارشوں کا زیادہ سلسلہ جولائی اگست میں ہوتا تھا اب یہ بھی دیگر مہینوں تک پھیل گیا ہے۔ اس سال بھی مئی میں انتہائی زیادہ طوفانی بارشیں ہوئی تھیں۔ اس کا فصلوں اور ماحول کو بھی نقصان پہنچتا تھا۔ اب سردیوں میں بھی بارش کی جھڑی لگ جائے تو کئی روز ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ سردی کا دورانیہ اگرچہ کم ہو گیا ہے لیکن اس میں شدت اور ہوا میں خنکی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ صرف دو ماہ کی سردی ہی کڑاکے نکال دیتی ہے۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ دسمبر جنوری میں کسی کسی دن موسم اتنا گرم ہو جاتا ہے کہ گھروں میں پنکھے اور گاڑیوں میں اے سی چلانے پڑتے ہیں۔ ایک پانچواں موسم جو پچھلے تین چار برس سے وارد ہوا ہے وہ سموگ ہے۔ پہلے پہل ہم صرف دھند سے واقف تھے اور سردیوں میں اس کا مزا بھی اٹھاتے تھے‘ لیکن یہ صحت کے لئے مضر نہیں ہوتی تھی بلکہ یار لوگ اسے انجوائے کرتے۔ اب سموگ نامی بلا وارد ہوتی ہے تو شہروں کے شہر کھانسی‘ سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں سے لم لیٹ ہو جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے‘ دو تین سال قبل جب پہلی مرتبہ اکتوبر یا نومبر میں لاہور میں سموگ آئی تو یہ سہ پہر اور شام کے ملاپ کا وقت تھا۔ دھوپ یکایک ختم ہو گئی اور اس کی جگہ خاکی رنگ کی دھند نے لے لی۔ لوگ سمجھے کہ شاید موسم خوشگوار ہو گیا ہے اور انہوں نے موسم کو انجوائے کرنے کے لئے اپنی فیملیز کے ساتھ پارکوں کا رخ کر لیا؛ تاہم محکمہ موسمیات اور ڈاکٹروں نے ٹی وی پر بتایا کہ جناب یہ وہ دھند نہیں جس کا مزا لیا جاتا ہے‘ بلکہ یہ سموک یعنی دھواں اور فوگ یعنی دھند کا کوئی ملغوبہ ہے جو صحت اور ماحول کیلئے انتہائی نقصان دہ اثرات رکھتا ہے۔ انہوں نے لوگوں کو باہر نکلتے وقت ماسک پہننے کا بھی مشورہ دیا۔ سموگ کے موسم میں خاص طور پر نوزائیدہ بچے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ہسپتالوں میں رش بڑھ جاتا ہے اور آنکھوں سے پانی بہنے لگتا ہے‘ کھانسی اور سانس کی تکالیف میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ سموگ ہمارے ہاں اب آئی ہے لیکن چین جیسے ترقی یافتہ ملک تو طویل عرصے سے اس کی لپیٹ میں ہیں۔ اس کی وجہ وہاں کی صنعتی آلودگی ہے۔ چین معیشت میں تو دنیا پر حکومت کر رہا ہے‘ لیکن فضائی آلودگی کے سامنے یہ بھی ڈھیر ہے۔ وہاں جو بھی شخص گھر سے باہر نکلے گا اس نے منہ پر ماسک لازماً پہنا ہو گا۔ حتیٰ کہ ایسے ماسک بھی زیرِ استعمال ہیں جن میں ایک دو انچ سائز کا پنکھا اور آلودگی کا فلٹر لگا ہوتا ہے۔ فلٹر سے ہوا صاف ہو کر منہ میں جاتی ہے اور پنکھا ایگزاسٹ کا کام کر کے آلودگی کے ذرات کو باہر دھکیل دیتا ہے۔ یہ پنکھا چھوٹے سکے جتنی بیٹری سے چلتا ہے اور یو ایس بی سے بھی چارج ہو جاتا ہے۔ چین میں یہ ماسک بہت سستے ملتے ہیں کیونکہ ان کی پیداوار بڑے پیمانے پر کی گئی ہے۔
موسم کی اس انگڑائی کی وجہ سے ہماری نئی نسل بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ پارک سارا سال ویران پڑے رہتے ہیں۔ یہ اس دن ہی آباد ہوتے ہیں جس دن بارش ہو جائے یا موسم خوشگوار ہو۔ مجھے یاد ہے گرمی ہمارے بچپن میں بھی بہت پڑتی تھی لیکن اس وقت ہم دھوپ میں کئی کئی گھنٹے کھیلتے تھے اور خاص طور پر جمعہ اور پھر جب اتوار کو ہفتہ وار تعطیل ہوئی تو کھیلوں کے میدانوں‘ سڑکوں اور پارکوں میں کھلاڑیوں کا ہجوم امڈ آتا تھا۔ اپنے گھروں کے باہر گلی میں تو روز شام کو کرکٹ ہوتی تھی۔ اسی طرح فلڈ لائٹ کرکٹ کا بھی رواج عام تھا۔ تب بجلی بھی نہیں جاتی تھی اس لئے بلا تعطل کھیلوں کا معمول جاری تھا۔ اب رات کے وقت بھی بے انتہا گرمی ہوتی ہے‘ اوپر سے بجلی جانے کا احتمال ہونے سے کوئی بھی کھیل کھیلنا مفقود ہو چکا ہے۔ بچے اور بڑے سبھی گھروں کی چہار دیواریوں تک قید ہو چکے ہیں۔ رہی سہی کسر ٹیکنالوجی اور موبائل فون نے نکال دی ہے۔ سوشل میڈیا‘ گیمز اور چیٹنگ پر ہر شخص اوسطاً روزانہ پانچ سے چھ گھنٹے صرف کر رہا ہے۔ بچے تو دس بارہ گھنٹے سے بھی زیادہ موبائل سے چپکے رہتے ہیں‘ جس سے ان کی آنکھیں اور اعصاب شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ بچے بھی آخر ایسا کیوں نہ کریں کہ بڑے خود ہر وقت موبائل پر انگلیاں مارتے رہتے ہیں۔ ابھی موبائل فون میں انٹرنیٹ فور جی ٹیکنالوجی کی سپیڈ سے چل رہا ہے۔ آگے فائیو جی آنے والی ہے۔ اس میں ویڈیوز اور گیمز اور بھی زیادہ تیز رفتاری سے ڈائون لوڈ کی اور کھیلی جا سکیں گی۔ موبائل کا استعمال پہلے سے بھی بڑھ جائے گا اور شاذ و نادر ہی کوئی شخص ایسا ملے گا جو اس بیماری سے محفوظ رہے گا۔ سوائے ان خوش نصیبوں کے جنہیں اینڈرائیڈ موبائل چلانا نہیں آتا‘ اور انہوں نے وہی پرانے بٹنوں والے موبائل رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگ چاہے معمر بھی ہوں لیکن آج کے نوجوانوں سے زیادہ صحت مند ہیں کیونکہ انہوں نے جوانی اس بیماری کے بغیر گزاری ہے‘ اور آخری وقت میں بھی اس عذاب میں پڑ کر اپنا بڑھاپا خراب نہیں کرنا چاہتے۔ ایسے لوگوں نے خالص زندگی گزاری ہے‘ کتابوں سے عشق کیا ہے اور فطرت سے ہمیشہ قریب رہے ہیں‘ جس کے خوشگوار اثرات ان کی طبیعت پر صاف دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے محترم شاعر ظفر اقبال بھی ایسے ہی خوش نصیبوں میں سے ہیں جو ادب‘ شاعری اور فطرت سے جڑے ہوئے ہیں اور زیادہ تر وقت فارم ہائوس پر گزارتے ہیں جہاں قدرتی نظارے‘ پھول‘ پودے‘ درخت‘ جانور اور پرندے انہیں بھرپور کمپنی فراہم کرتے ہیں۔ خدا انہیں ایسے ہی آباد اور سلامت رکھے۔ ان کے فطرت سے متعلق کالم تو بہت ہی شاندار ہوتے ہیں اور شدت سے انتظار رہتا ہے۔
جہاں تک شہروں میں عمومی زندگی کی بات ہے‘ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی تیر مارتا ہے تو کسی بڑے شاپنگ مال میں چلا جاتا ہے۔ اب انار کلی جیسے کھلے بازاروں میں شاپنگ کا رواج کم ہو چکا ہے۔ لوگ ایئرکنڈیشنڈ مالوں میں جاتے ہیں اور وہاں بھی زیادہ تر فوڈ پوائنٹس کا رخ کرتے ہیں کیونکہ لاہوری ایک کام تو مستقل مزاجی سے کر رہے ہیں اور وہ ہے رات گئے تک کھابے اڑانا۔ صبح دیر سے اٹھنے اور ادھورا ناشتہ کر کے کام پر دوڑنا لاہوریوں کا معمول ہے۔ اسی لئے تو اب شہر میں دو ہی مقام زیادہ آباد نظر آتے ہیں‘ ایک ریسٹورنٹس اور دوسرے ہسپتال اور کلینک۔ عام ڈاکٹر اور عام دوائی سے کسی کو آرام نہیں آتا۔ سپیشلسٹ ڈاکٹر کے پاس رش اتنا ہے کہ بندہ پیٹ درد سے آج ہائے ہائے کر رہا ہوتا ہے لیکن وقت اسے چار مہینے بعد کا ملتا ہے۔ شاید مریض بھی چار مہینے بعد کا ٹائم اس لئے لے لیتا ہے کہ چلو کوئی بات نہیں اس دوران تھوڑی اور بد پرہیزی کرنے کا وقت مل جائے گا‘ ایک ہی مرتبہ چار مہینے بعد جا کر ڈاکٹر کو دکھا لیں گے۔