آئندہ دس سے بیس برس میں ٹیکنالوجی جن شعبوں کو ہڑپ کرنے والی ہے ان میں سے ایک میڈیکل کا شعبہ ہے۔ گوگل کے سی ای او سندر پچائی نے ایک حیرت انگیز ویڈیو ریلیز کی ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ کیسے گوگل کی ایک نئی ٹیکنالوجی بیماریوں کی شرح کم کرنے اور بیماری کا قبل از وقت پتہ چلانے میں معاون ثابت ہو گی۔ انسانی آنکھ جن چیزوں کو نہیں دیکھ سکتی یہ ٹیکنالوجی گہرائی میں جا کر ایسی ایسی معلومات سامنے لے آئے گی کہ جس سے مرض کی تشخیص اور علاج بہت آسان ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں بہت سا کام کیا جا چکا ہے اور گوگل بھارت کے ہسپتالوں اور میڈیکل کمپنیوں کے ساتھ مل کر اس ٹیکنالوجی پر عمل درآمدشروع کرانے والا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے تحت موبائل فون پر ایک انگوٹھا رکھنے سے سافٹ ویئر نہ صرف آپ کی بیماری کی تشخیص کرے گا بلکہ آپ کا علاج بھی تجویز کر دے گا۔اس ٹیکنالوجی کی مدد سے سی ٹی سکین ‘ خون کے ٹیسٹ اور دیگر پیچیدہ اور مہنگے ٹیسٹ بھی موبائل فون سے کئے جا سکیں گے جس کے بعد سی ٹی سکین اور بلڈ ٹیسٹ کرنے والی مہنگی مشینوں اور بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے اربوں روپے کمانے والی لیبز کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا۔ ویسے بھی بلڈ ٹیسٹ کرنے والی ایک لیب ہر ٹیسٹ میں نوے فیصد خالص منافع کما رہی ہے۔ سی بی سی خون کا ایک عام ٹیسٹ ہے جو چار سو روپے سے سات سو روپے تک میںکیا جاتا ہے حالانکہ اس پر لیب کا کل خرچ چھ روپے سے زیادہ نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کئی لیبز نے ایمپائرز کھڑی کر لی ہیں ۔ان کا ڈاکٹروں کے ساتھ گٹھ جوڑ بھی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر بلاوجہ ہزاروں کے ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں جو مریض کو چاروناچار کرانے پڑتے ہیں۔ ان ٹیسٹو ں کی وجہ سے ڈاکٹروں کو ہوشربا کمیشن ملتا ہے‘ بیرونی دورے‘ ہوائی سفر کی ٹکٹیں اور ہوٹل کے اخراجات‘ یہاں تک کہ ان کے گھروں میں ایئرکنڈیشنرز کی تنصیب اور ان کے بجلی کے بل تک ادا کئے جاتے ہیں۔ یہی حال میڈیسن کے شعبے کا ہے۔ پاکستان ان چند ملکوں میں سے ہے جہاں ڈاکٹر نسخہ لکھتے وقت ادویات ان کے جینیرک ناموں کی بجائے برانڈز نیم کے ساتھ لکھتے ہیں جس سے وہی دوا جو سو روپے کی بھی دستیاب ہوتی ہے مریض کو چار سو روپے میں لینی پڑتی ہے۔ مریض اور ان کے لواحقین بھی تردد نہیں کرتے کہ ذرا غور کر لیں‘ ڈاکٹر نے لکھا کیا ہے اور کیمسٹ سے اس جینیرک کی کوئی اور دوائی طلب کر لیں۔ یہ بنیادی طور پر کرپشن کی ہی ایک قسم ہے جسے فوری ختم ہونا چاہیے اور ڈاکٹرو ں کو یہ ہدایت کی جانی چاہیے کہ وہ نسخہ لکھتے وقت من پسند کمپنیوں کی بجائے ادویات کا جینیرک نام لکھا کریں۔
آئندہ ایک عشرے میں جن شعبوں کی مانگ بڑھنے والی ہے ان میں اداکاری‘تحقیق‘مزاح اور آرٹس سے متعلقہ شعبے شامل ہیں۔ آپ خود دیکھیں دس بارہ سال قبل جب ٹی وی چینل آئے اور ان میں بھاری تنخواہوں پر اینکر آئے اس سے قبل تک ڈاکٹروں اور انجینئرز کے شعبے اور تنخواہیں عروج پر تھے لیکن یکایک اینکرز کو لاکھوں تنخواہیں ملنا شروع ہوئیں اور ڈاکٹر سڑکوں پر بیس پچیس ہزار اضافے کے مطالبے کرتے ماریں کھاتے نظر آئے تو ڈاکٹر اورانجینئر بھی یہ سوچنے لگے کہ ہم ڈیڑھ ڈیڑھ سو گھنٹے مسلسل دن رات ہسپتالوں اور سڑکوں پر ڈیوٹیاں دیتے ہیں۔ اس کے بعد ایک مہینے کی تنخواہ پچاس ساٹھ ہزار ملتے ہیں جبکہ ٹی وی پر بیٹھا ایک اینکر لاکھوں کما لیتا ہے۔ تو پھر اس شعبے میں آنے کا فائدہ؟ انسانیت کی بھی خدمت کوئی تب تک ہی کرے گا جب اس کا اور اس کی فیملی کا پیٹ بھرے گا، بھوکے پیٹ کوئی اکا دُکا غیرمعمولی انسان تو کسی کی خدمت کر سکتا ہے لیکن اکثریت ایسا نہیں کر سکتی۔پھر لاکھوں روپے تعلیم پر لگاکر آنے کے بعد بھی بیروزگاری اور مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے تو اس سے زیادہ خفت اور کیا ہو گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار چالیس تک ڈاکٹر‘ انجینئر جیسے پروفیشنز کی مانگ نہ ہونے کے برابر ہو گی اور آرٹس کے مضامین اور اداکاری کے ذریعے دوسروں کو محظوظ کرنے والے افراد کی مانگ بھی زیادہ ہو گی اور ان کی آمدن بھی ۔ آپ آج ہی سوشل میڈیا کھول کر دیکھ لیں آپ کو اس دور کا آغاز نظر آجائے گا۔ بہت سے ایسی ویڈیوز جن میں پرینکس کئے جا رہے ہیں‘ لوگوں کو ہنسایا جا رہا ہے‘ پبلک مقام پر کسی انٹرویو میں کسی نے کوئی مزاحیہ یا جذباتی بات کہہ دی ہے وہ ویڈیو ملین کی تعداد میں دنوں میں وائرل ہو جاتی ہے اور ایسی ویڈیوز کے ذریعے ہزاروں روپے آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ بیروزگاری جتنی مرضی بڑھ جائے لیکن لوگ ایک چیز استعمال کرنا نہیں چھوڑیں گے بلکہ اس میں اضافہ ہی ہو گا اور وہ ہے موبائل انٹرنیٹ کا استعمال۔ شروع میں موبائل سے فون کالز زیادہ کی جاتی تھیں اور موبائل ڈیٹا صرف ای میل یا گوگل پر تھوڑی بہت سرچ کے لئے ہی استعمال ہوتا تھا۔ لیکن یوٹیوب‘ فیس بک‘ ٹک ٹاک جیسی چیزوں کے بعد موبائل ڈیٹا کا استعمال انتہائی تیزی سے بڑھا ہے۔ آپ خود ہی اپنے اردگرد دیکھیں آپ کو ہر بندہ کوئی نہ کوئی ویڈیو دیکھتا اور اسے شیئر کرتا دکھائی دے گا۔ یہ ویڈیو اس قدر دلچسپ ہوتی ہیں کہ آپ بھی دیکھے بغیر نہیں رہ سکتے ۔پانچ منٹ کی ایک ویڈیو ویکھنے میں اوسطاً دس میگا بائٹ ڈیٹا ڈائون لوڈ ہوتا ہے جبکہ آج کل ہر شخص روزانہ ایسی درجنوں ویڈیوز دیکھتا ہے اور ہزاروں ایم بی ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ بچے بھی کارٹون لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور وائی فائی یا موبائل ڈیٹا ہی استعمال کرتے ہیں چنانچہ اب موبائل کمپنیوں کی پرائس وار موبائل کالز پر نہیں بلکہ موبائل ڈیٹا پر ہو گی۔ جو جتنا اچھا موبائل ڈیٹا کا پلان دے گا لوگ اس کا کنکشن استعمال کریں گے۔ ویسے بھی وٹس ایپ وغیرہ سے کالز بھی ہو جاتی ہیں اور اس کے لئے بھی ڈیٹا ہی استعمال ہوتا ہے۔
آپ حیران ہوں گے آج کل پاکستان میں پراپرٹی کا کاروبار ٹھپ پڑا ہے لیکن پراپرٹی سے متعلقہ چند سیانے ڈیلرز نے سوشل میڈیا پر بروقت اپنے چینلز بنا لئے ہیں اور وہ پراپرٹی سے متعلق ویڈیوز اور معلومات دے کر اتنی معقول کمائی کر رہے ہیں جتنی کہ وہ پراپرٹی کا کاروبار چلنے والے دنوں میں بھی نہیں کر رہے تھے۔یہ عام فہم بات ہے کہ ایک انسان کسی چیز کو کتاب سے پڑھ کر سمجھنا چاہے تو اس کی دلچسپی بیس سے تیس فیصد ہوتی ہے لیکن وہی چیز اسے ویڈیو کی شکل میں ملے تو وہ اسے اسی فیصد سے زیادہ دلچسپی کے ساتھ سمجھ لے گا۔ انسان کی یہ فطرت ہے کہ جب تک وہ کسی چیز کو دیکھ نہ لے اس کی تسلی نہیں ہوتی۔ وہی معلومات جو ہم کبھی کتابوں میں پڑھتے تھے آج جب ویڈیوز کے ذریعے ہمارے سامنے آ رہی ہیں تو ہمارے ذہن کے دریچے تیزی سے کھل رہے ہیں۔ دنیا کے ایسے ایسے مقامات ہم ان ویڈیوز کے ذریعے اپنی آنکھوں سے گھر بیٹھے دیکھ سکتے ہیں جہاں جانا ہمارے لئے ناممکن ہوتا۔ چنانچہ معلومات‘ انٹرٹینمنٹ اور مزاح کا دور ایک نئی انگڑائی لے رہا ہے اور ہر کوئی کم وقت میں زیادہ سے زیادہ معلومات اور انٹرٹینمنٹ دیکھنے کا خواہشمند ہے۔ٹیلی میڈیسن بھی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ لوگ ڈاکٹر کے پاس جائے بغیر موبائل پر ویڈیو چیٹ کے ذریعے ڈاکٹروں سے ادویات لینے کو ترجیح دے رہے ہیں خاص طور پر ایسے دور دراز علاقوں اور دیہات سے جہاں ڈاکٹروں کا جانا ممکن نہیں۔آئندہ چند برسوں میں آپ معمولی بخار‘ نزلہ وغیرہ جیسی بیماریوں کے علاج کے لئے ڈاکٹروں کے پاس جانے کی بجائے موبائل پر ہی رابطہ کر لیا کریں گے۔ موبائل کے ذریعے ہی بلڈ پریشر‘ بخار ‘ شوگر وغیرہ ڈاکٹر کو بتا دیں گے اور وہ آپ کو ادویات لکھ دے گا۔ اب ایسا دور آنے والا ہے جب ہر شعبہ پانچ دس سال بعد ایک نئی صورت اختیار کرے گا چاہے وہ میڈیا ہو‘مارکیٹنگ ہو‘طب ہو یا انجینئرنگ۔ ہر چیز ٹیکنالوجی سے جڑ چکی ہے اور ٹیکنالوجی ہی ان شعبوں اور ان سے منسلک افراد کے معاشی مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ چنانچہ اس سے پہلے کہ ٹیکنالوجی آپ کو بھی ہڑپ کر جائے خود کو وقت کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیجئے اور اپنے بچوں کو بھی اس کے لئے تیار کریں اور یہ صرف پاکستان کی بات نہیں پوری دنیا میں اب ہردن‘ہرمہینہ اور ہر سال معاشی طور پر پہلے سے زیادہ مشکل اور خوفناک ہی آنے والاہے۔