وزیر اعظم عمران خان کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے آفٹر شاکس بھارت میں ابھی تک محسوس کئے جا رہے ہیں۔ جس وقت یہ تقریر شروع ہوئی میں گورنر ہائوس لاہور میں داخل ہو رہا تھا۔ گورنر چودھری سرور نے صحافی دوستوں کو ڈنر پر مدعو کر رکھا تھا۔ ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو چند دوست پہلے سے موجود تھے۔ سامنے ٹی وی سکرین پر خان صاحب کا خطاب جاری تھا۔ تمام شرکا تقریر سننے میں محو تھے۔ چند ہی منٹ بعد گورنر سرور بھی تشریف لے آئے۔ تقریر ختم ہوئی تو وزیر اعظم عمران خان کے کزن حفیظ اللہ نیازی نے گورنر صاحب سے سوال کیا: لگتا ہے آپ نے ہمیں خاص طور پر تقریر سنوانے کے لیے بلایا تھا اور ڈنر کی ٹائمنگ بھی اسی انداز میں رکھی تھی۔ گورنر سرور مسکرائے اور بولے: نہیں‘ ایسی بات نہیں‘ میں تو دوستوں کی کمپنی چاہتا تھا‘ میں نے آپ لوگوں کو ڈنر پر ہی مدعو کیا تھا‘ لیکن آپ (حفیظ اللہ نیازی) کو ضرور خان صاحب کی تقریر سنوانے کے لیے مدعو کیا تھا۔ گورنر صاحب کا یہ جملہ سن کر ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔
اس میںکوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم کا یہ خطاب مدتوں اسی طرح یاد رکھا جائے گا‘ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کی وہ تقریر جس میں انہوں نے کشمیر پر دلیرانہ مؤقف اپنایا تھا۔ اس بات کا احساس دوران تقریر ہی ہو گیا تھا کیونکہ بعض تقاریر اور خطاب ایسے ہوتے ہیں جن میں مقرر فی البدیہہ اتنی روانی اور تسلسل کے ساتھ بولتا چلا جاتا ہے کہ سننے اور دیکھنے والے مسحور ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ایسی غیر معمولی تقاریر اور جاندار خطاب روز روز نہیں ہوتے بلکہ یہ خاص مقام‘ خاص وقت اور خاص موضوع کے متقاضی ہوتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر چونکہ اس وقت اس خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے حساس ترین موضوع ہے‘ کشمیر میں چھپن سے زائد روز سے کرفیو نافذ ہے اور وزیر اعظم خاص طور پر جنرل اسمبلی میں اس خطاب کی تیاری کرکے گئے تھے اس لیے یہ تمام عناصر اس زوردار اور پُراثر خطاب کا باعث بنے۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ تقریروں سے کیا ہوتا ہے تو ان سے پوچھا جائے کہ پھر جنرل اسمبلی میں حکمران لینے کیا جاتے ہیں؟ مودی نے بھی تو وہاں خطاب ہی کیا تھا۔ دیگر ممالک بھی اپنا اپنا موقف بیان کرتے ہیں۔ ہاں اگر کچھ لوگوں کو یہ اعتراض ہے کہ خان صاحب کو جارحانہ خطاب کی بجائے ٹھنڈی ٹھار روایتی لکھی ہوئی تقریر کرکے دس پندرہ منٹ میں وہاں سے نکل آنا چاہیے تھا تو جناب اس کام کے لیے پھر عمران خان وہاں جانے کو بھی تیار نہ ہوتے۔ وہ اگر وہاں گئے تو صرف اس مقصد کے لیے کہ دنیا کے سامنے کشمیر اور کشمیریوں کا مسئلہ درست اور مدلل انداز میں اجاگر کر سکیں۔ ٹھنڈی ٹھار تقریریں کرنی ہوں تو وہ پچھلے کئی برسوں سے ہو رہی ہیں۔ کچھ لوگ شاید یہ چاہتے تھے کہ عمران خان کو اگر اتنی ہی جارحانہ تقریر کرنا تھی تو وہ جیب میں ایٹم بم ڈال کر ساتھ لے جاتے اور کشمیر آزاد کروا کر ہی واپس آتے۔ کشمیر کا مسئلہ جس قدر سنگین ہو چکا ہے خان صاحب نے تو پھر ہاتھ ہولا رکھا ہے۔ وہ اس سے بھی زیادہ جذباتی تقریر کرتے تو کم تھی۔ انہوں نے ہالی وڈ کی ایک فلم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب ایک خاندان پر ظلم بے حد بڑھ گیا تو اس کے سربراہ کو مجبوراً بندوق اٹھانا پڑی تھی۔ خود اپنے بارے میں انہوں نے کہا کہ اگر وہ کشمیر کے رہائشی ہوتے اور پچاس روز سے انہیں ان کے گھر میں قید کیا گیا ہوتا‘ ان کے خاندان کے لوگ بیماری‘ بھوک اور فوج کے تشدد سے مر رہے ہوتے تو وہ بھی لامحالہ بندوق اٹھانے پر ہی مجبور ہوتے۔ ایک مجبور انسان کو دیوار سے لگا دیا جائے تو وہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جان بچانے کے لیے بندوق نہ اٹھائے گا تو کیا مخالفین کو گلدستہ پیش کرے گا؟ کشمیر میں اگر آزادی کی تحاریک جنم لے رہی ہیں تو اس کا ذمہ دار خود بھارت ہے۔ اگر کشمیری اس کے ساتھ ہوتے تو وہ کبھی بھی 'کشمیر بنے گا پاکستان‘ کے نعرے نہ لگاتے۔ پاکستان اور کشمیر کا رشتہ آج کا نہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں یہ رشتہ آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔ بھارت بزور بندوق کبھی کشمیریوں کو اپنا غلام یا اپنا شہری نہیں بنا سکتا۔ یہ کشمیریوں کا حق ہے وہ جس کے ساتھ الحاق کرنا چاہیں اس کا اعلان کریں۔
عمران خان کے متاثر کن خطاب کی دوسری وجہ فی البدیہہ تقریر تھی۔ اس سے قبل جتنی بھی تقاریر ہوئیں وہ لکھی ہوئی پڑھی جاتیں۔ لکھی ہوئی تقریر سامع کے دل و دماغ پر اثرات مرتب نہیں کر سکتی۔ زبانی تقریر پہلا اور اہم ترین تاثر یہ دیتی ہے کہ مقرر جو بھی بول رہا ہے وہ اس کے دل اور دماغ کی آواز ہے اور اگر اس کے خطاب میں تسلسل اور روانی ہے اور وہ تقریر کے دوران اٹک بھی نہیں رہا تو اس سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ مقرر اس موضوع میں گہری دلچسپی اور عبور رکھتا ہے وگرنہ رسمی اور غیر دلچسپ موضوعات پر بغیر دیکھے اس طرح کی دل موہ لینے والی تقاریر کرنا ممکن نہیں ہوتا‘ اور کوئی بھی ایسے فورم پر اتنا بڑا خطرہ مول لینے کی ہمت نہیں کرتا‘ جس پر پوری دنیا کی نظریں لگی ہوں اور جس کا ایک ایک لفظ تاریخ کا حصہ بن جائے۔ کسی بھی کام یا مشن کی تکمیل کے لیے جو عوامل درکار ہوتے ہیں ان میں پہلا اس مسئلے کے بارے میں زبانی یا تحریری اظہار ہے۔ آپ نے دشمن سے جنگ چھیڑنی ہے تب بھی آپ پہلے اسے زبانی وارننگ دیتے ہیں‘ بات چیت کرتے ہیں‘ مذاکرات سے راستہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ سارے راستے مسدود ہو جائیں تو پھر عسکری راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ خان صاحب کو جنگ اور ایٹمی ہتھیاروں کا اس انداز سے ذکر نہیں کرنا چاہیے کہ اس طرح ہم پر پابندیاں لگنے کا اندیشہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہی سوال بھارت سے کیوں نہیں کیا جاتا جب وہ اس طرح کی دھمکیاں کھلے عام دیتا ہے اور پاکستان کو نیست و نابود کرنے کی باتیں کرتا ہے۔ وزیراعظم نے دراصل تمام ممکنہ صورت حال کھول کر بیان کر دی کیونکہ دونوں ملک بہرحال جوہری طاقت کے حامل ہیں اور بھارت تو اس وقت آر ایس ایس جیسی انتہا پسند دہشت گردی جماعت کے مستقل ممبر نریندر مودی کے ہاتھ میں ہے‘ جس نے گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا تھا۔ ایٹم بم کے غلط استعمال کا اصل خطرہ تو بھارتی وزیر اعظم سے ہے‘ جس کا داغدار اور خون آلود ماضی کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ پابندی لگنی ہے تو پھر بھارت پر لگنی چاہیے جو آئے روز لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ کر کے ہمارے شہریوں اور فوجی جوانوں کو نشانہ بناتا ہے۔ پابندی لگنی ہے تو اس ملک پر لگنی چاہیے جس نے نو لاکھ فوجی کشمیر میں بھیج رکھے ہیں‘ جو پیلٹ گنوں سے چھوٹے چھوٹے بچوں کی آنکھیں ضائع کر رہے ہیں اور مسلسل جنگ کا ماحول بنائے ہوئے ہیں۔ خان صاحب تو دنیا کو اس غیر ذمہ دار ملک کے رویے سے آگاہ کر رہے ہیں کیونکہ واقعی اگر جنگ ہو گئی تو پھر اس کا انجام انتہائی بھیانک ہو گا۔ ضروری نہیں کہ پاکستان عددی لحاظ سے کم ہونے کے باعث شکست کھا جائے‘ یہ بھی ممکن ہے کہ جس طرح ہمارے دلیر پائلٹ ایم ایم عالم نے ایک منٹ میں پانچ بھارتی طیارے گرا دیئے تھے ہمارا ہر پائلٹ شروع میں ہی سات سات بھارتی طیاروں کو شکار کرنے لگے تو بھارت تو یقینا بوکھلا جائے گا اور بوکھلاہٹ اور پسپائی میں بہرحال انسان اپنا سب سے مضبوط اور مہلک ترین ہتھیار استعمال کرنے کی ہی کوشش کرتا ہے اور اگر ایسا ہو گیا تو سوچیں پھر کیا ہو گا؛ چنانچہ وزیراعظم نے ہر زاویے سے دنیا کو خبردار کر دیا ہے کہ اگر اس مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو خطے میں جو تباہی ہو گی اس سے دنیا بھی محفوظ نہیں رہے گی۔ بھارت کی جو سوا ارب کی مارکیٹ ہے وہ بھی تباہ ہو کر دنیا کے لیے بے کار ہو جائے گی۔ اس لیے مسئلہ کشمیر کا حل صرف ان دونوں ممالک کے حق کی بات نہیں بلکہ یہ امریکہ‘ برطانیہ سمیت دنیا بھر کے مفاد کی بات ہے جو انہیں جتنی جلدی سمجھ آ جائے اتنا ہی بہتر ہے۔