جس بے ہنگم اور شور شرابے والی زندگی سے تنگ آ کر لوگ کبھی دیہات کا رخ کیا کرتے تھے‘ بدقسمتی سے اس زندگی نے دیہات کا سکون اور دھیما پن بھی چھین لیا ہے۔ حتیٰ کہ دیہات جس خوراک‘ خالص دودھ مکھن‘ اچار‘ ساگ اور مکئی کی روٹی کی وجہ سے معروف تھے ان کی جگہ اب وہاں بھی برگروں‘ شوارموں اور پیزوں نے لے لی ہے۔ کئی دیہات میں تو فوڈ ہوم ڈلیوری بھی شروع ہو چکی ہے‘ جو رات گئے تک چلتی رہتی ہے۔ یہ سب اس نئی نسل کا کمال ہے جسے زمینیں اپنے آبائواجداد سے ورثے میں ملیں لیکن وہ یہ زمینیں سالانہ ٹھیکوں پر دے دیتے ہیں اور آہستہ آہستہ فروخت کرکے چونچلے پورے کرتے ہیں۔ نئی نئی گاڑیاں خریدی جاتی ہیں‘ پکّے گھر بنائے جاتے ہیں‘ سیروتفریح اور دوستوں پر بے دریغ پیسہ اڑایا جاتا ہے۔ ہر دوسرے گائوں کا یہی حال ہے۔ مجھے یاد ہے بچپن میں کبھی گائوں جاتے تو کوشش یہی ہوتی کہ پینٹ پہن کر نہ جایا جائے کیونکہ پینٹ والے بندے یا بچے کو دیہات میں اسی طرح گھور گھور کر دیکھا جاتا تھا‘ جس طرح شہروں میں باہر سے آنے والی کسی گوری میم کو۔ آج یہ مسئلہ بھی تمام ہو چکا۔ دیہات میں جائیں تو آپ کو ہر کوئی پینٹ ٹی شرٹ حتیٰ کہ بالوں کے جدید بلکہ اوٹ پٹانگ قسم کے سٹائل کے ساتھ آتا جاتا ملے گا۔ کھلے صحن‘ جو ہر گھر کی پہچان ہوتے تھے‘ ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ ایئرکنڈیشنر بھی عام ہو چکے بلکہ یہ دیہات میں شہروں سے زیادہ ہیں کیونکہ سب کو معلوم ہے‘ دیہات اور شہروں کے نواحی علاقوں کے بہت کم لوگ بجلی کا پورا بل دیتے ہیں۔ زیادہ تر جگاڑ ہی چل رہا ہے۔ چوبیس چوبیس گھنٹے ایئرکنڈیشنر کے مزے اور بل صرف ہزار‘ دو ہزار۔ بس لائن مین کی مٹھی گرم رکھیں اور جتنا چاہیں میٹر چلائیں۔ اب میٹر چلے گا تو پھر اے سی کے ساتھ ٹی وی بھی چلے گا اور بتیاں بھی جلیں گی‘ جس سے وہی دیہاتی جو کبھی سر شام ہی سونے کی تیاریاں کرنے لگتے تھے‘ بڑے اہتمام سے صحنوں میں ایک پنکھا کھڑا کرکے قطار میں چارپائیاں لگاتے تھے کہ ایک ہی پنکھے سے سب تک ہوا پہنچے‘ اب وہ بھی شہریوں کی طرح صبح کے چار چار بجے تک ٹی وی اور موبائل فونوں سے بغل گیر ہو کر پڑے رہتے ہیں؛ چنانچہ دیہات کی صبحیں بھی اب پہلے جیسی نہیں رہیں۔ کبھی وقت تھا کہ فجر کی اذان کے وقت بوڑھے‘ نوجوان اور بچے اٹھ جایا کرتے تھے کیونکہ یہ رات کو آٹھ‘ ساڑھے آٹھ بجے سونے کی وجہ سے نیند پوری کر چکے ہوتے تھے۔ فجر کی نماز مسجد میں پڑھی جاتی‘ بلند آواز میں قرآن پاک کی تلاوت ہوتی‘ اس کے بعد لسی پراٹھے یا رات کے سالن کے ساتھ پراٹھے کا ناشتہ ہوتا‘ تازہ پانی سے غسل کیا جاتا اور بچے سکولوں کو‘ بڑے کھیتی باڑی کو نکل جاتے۔ بچے تو اب بھی سکول جاتے ہیں لیکن بڑوں والا معاملہ بدل چکا ہے۔ سال میں نو دس ماہ گرمی کی شدت تو رہتی ہے لیکن ہر وقت ایئرکنڈیشنر میں رہنے سے جسم گرمی نہیں سہہ سکتے؛ چنانچہ وہ نئی نسل‘ جسے ورثے میں زمین مل جاتی ہے‘ دوپہر یا شام کو ایک آدھ چھوٹا موٹا چکر کھیتوں کا لگا لیتی ہے‘ وہ بھی کئی کئی دن بعد۔ جیسے جیسے شام ہوتی ہے نوجوانوں کی آنکھیں کھلنے لگتی ہیں اور پھر شہروں کی طرح سنوکر‘ منی سینما گھر اور ریسٹورنٹ آباد ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
ویسے دیہات کی زندگی سے تو اسلام آباد کی زندگی اب بھی بہت اچھی ہے۔ ہمارے ایک دوست نے فیس بک پر سوال داغا کہ اسلام آباد میں رات کو کہاں سے مزیدار کھانے کھائے جا سکتے ہیں‘ جس پر زیادہ تر کا یہی کہنا تھا کہ اسلام آباد میں تو رات کے آٹھ بجے کے بعد ہُو کا عالم ہوتا ہے‘ سڑکیں ویران ہو جاتی ہیں اور آدھے سے زیادہ اسلام آباد نو بجے کا خبرنامہ سننے سے قبل ہی سو جاتا ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ اسلام آباد میں زیادہ چہل پہل صبح اور دن کے اوقات میں ہوتی ہے۔ سرکاری دفاتر میں زیادہ تر لوگ راولپنڈی سے کام کے لئے آتے ہیں اور شام ڈھلنے سے قبل واپس لوٹ جاتے ہیں۔ چند بڑے ہوٹل ضرور چوبیس گھنٹے آباد رہتے ہیں‘ لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے‘ ویسے بھی وہ عام شہری کی پہنچ میں نہیں ہیں؛ چنانچہ آج بھی کوئی شخص دیہات کی زندگی کا ایک پہلو دیکھنا چاہے تو اسلام آباد میں دیکھ سکتا ہے‘ جہاں جدید ممالک یا ماضی کے دیہات کی طرح زندگی سورج ڈھلتے ہی سمٹنے لگتی ہے۔ لاہور اور کراچی کا حال البتہ مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور اور کراچی سے اسلام آباد جانے والوں کا وہاں دل نہیں لگتا کیونکہ جس وقت ان کا دن چڑھتا ہے اس وقت اسلام آباد سونے کی تیاری کر رہا ہوتا ہے۔ ہمارے ایک دوست کو اسلام آباد میں اچھی خاصی نوکری ملی‘ لیکن وہ وہاں کی انتہا سے زیادہ اداسی اور خاموش زندگی کے ساتھ سمجھوتہ نہ کر سکے حالانکہ وہ چاہتے تو خود کو ماحول کے ساتھ ایڈجسٹ کر سکتے تھے۔ رات کو کھابے کھائے اور رات گئے تک جاگے بغیر بھی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ مغربی ممالک میں تو شاپنگ سٹورز تک شام کو بند کر دئیے جاتے ہیں۔ جس نے شاپنگ کرنی ہو وہ دن کو کرتا ہے یا ویک اینڈ پر۔ اس سے بجلی کی بچت ہوتی ہے اور لوگوں کی صحت بھی اچھی رہتی ہے۔ ہمارے ہاں کسی نے نمک یا چینی بھی لینی ہو تو وہ رات کو دس بجے سٹور کا رخ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سی دکانیں اور جنرل سٹور صبح گیارہ بارہ بجے کے بعد ہی کھلتے ہیں۔ پوری دنیا میں رات کے وقت بجلی کے یونٹ مہنگے ہوتے ہیں کیونکہ اس وقت بجلی کا استعمال زیادہ ہوتا ہے‘ لوگ اپنے گھروں میں ہوتے ہیں‘ اے سی وغیرہ بھی چلتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اس بات کا ادراک ہی نہیں کیا جاتا۔ بہت سے لوگ تو اپنا بجلی کا بل بھی ٹھیک طرح سے نہیں پڑھ سکتے اور نہ ہی دن اور رات کے یونٹس کا فرق جانتے ہیں۔ گزشتہ برس گیس کے زیادہ بل آئے تو یہ دیکھے بغیر کہ استعمال کتنا ہو رہا ہے ہر جانب ہاہاکار مچ گئی۔ وہ پاکستانی جو جدید ممالک میں جاتے رہتے ہیں‘ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسی شاہانہ زندگی تو وہاں بھی بسر نہیں ہو رہی‘ جس طرح کی ہم یہاں چاہتے ہیں۔ گیس پر گیزر‘ گیس پر ہیٹر اور گیس پر ہی چولہا اور یہ سب کچھ بارہ چودہ گھنٹے مسلسل چلتا رہے‘ یہ چونچلے ہمارے ہو سکتے ہیں یا پھر عرب شہزادوں کے‘ تیسرا کوئی ملک اب اس طرح کی لائف افورڈ نہیں کر سکتا۔ ہم گیس کے غیرضروری استعمال اور مہنگی گیس کی بات کر رہے ہیں۔ آپ کبھی امریکہ یا کینیڈا جائیں‘ وہاں کے ٹریفک چالان کے جرمانے سن کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ مقررہ جگہ کے علاوہ گاڑی پارک کرنے پر اتنا جرمانہ‘ ٹرک یا بس والی جگہ پر اتنا جرمانہ‘ بس کی لائن میں گاڑی چلانے پر اتنا جرمانہ‘ اشارہ دئیے بغیر مڑنے پر اتنا جرمانہ‘ گاڑی کی انشورنس نہ کروانے کا اتنا جرمانہ‘ گاڑی گندی رکھنے پر اتنا جرمانہ‘ کسی کے گھر کے سامنے یا کسی اور کی جگہ پر گاڑی یا موٹرسائیکل کھڑی کرنے پر اتنا جرمانہ۔ یہ سب جرمانے تو ابھی ہمارے ہاں وصول ہی نہیں کئے جا رہے۔ آ جا کر ایک ہیلمٹ پر پابندی سی ٹی او لاہور نے شروع کروائی جس کا دو سو روپے جرمانہ بھی ہمیں یوں چبھتا ہے جیسے ہمارا سر بچانے کے لئے ہیلمٹ کی پابندی کروانے والے ہمارے دشمن ہوں۔ ہمی لوگ جب قانونی یا غیرقانونی طریقے سے امریکہ وغیرہ جاتے ہیں تو وہاں ایئرپورٹ سے نکلتے ہی یوں محتاط ہو جاتے ہیں جیسے کبھی پاکستانی تھے ہی نہیں۔ ہم جو اپنے ملک میں وقت‘ سرمایہ اور توانائیاں فضول کاموں میں برباد کرتے ہیں‘ جگہ جگہ کوڑا پھینکنا‘ تھوکنا اور راستے بلاک کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور ٹیکس دینے‘ قانون کا احترام کرنے اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں‘ جب ان ممالک میں صبح پانچ بجے اٹھ کر گھر کے دروازے کے آگے جمی برف کو بیلچے سے صاف کرتے ہیں‘ برفانی ہوائوں میں ہاتھ میں پکڑے ڈبل روٹی کے ٹکڑے کھاتے ٹھیک سات بجے ٹرین پکڑ کر آٹھ بجے کالج یا نو بجے دفتر پہنچتے ہیں اور جب اپنی آدھی سے زیادہ تنخواہ ٹیکس میں دے دیتے ہیں تب جا کر احساس ہوتا ہے ہم یونہی خواہ مخواہ اپنے ملک کو برا بھلا کہتے تھے‘ ہم تو جنت میں رہتے تھے!