"ACH" (space) message & send to 7575

سٹارٹ اپ کلچر

پاکستان میں سٹارٹ اپ کلچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ گزشتہ پانچ چھ برسوں میں پاکستانی نوجوان نت نئے آئیڈیاز لے کر سامنے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں روپے کی کمپنیوں کے مالک بن گئے۔ یہ اینٹرپرینورشپ کا دور ہے جس میں پیسے سے زیادہ آپ کا آئیڈیا اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ اگر آپ لوگوں کا کوئی مسئلہ حل کر دیتے ہیں تو ایسا آئیڈیا بہت زیادہ فروغ پاتا ہے۔ اینٹرپرینور کا اصل کام بھی یہی ہے۔ وہ ایسے مسائل کی کھوج لگاتا ہے جن کے حل سے اکثریت کو فائدہ پہنچے۔ سٹارٹ اپ کی سب سے بڑی مثال علی بابا ڈاٹ کام ہے‘ جو دس برس میں دنیا کا سب سے بڑا آن لائن سٹور بن گیا۔ ہر سال دنیا میں گیارہ مارچ کو سنگلز ڈے منایا جاتا ہے۔ یہ دن غیرشادی شدہ لوگ بڑے اہتمام سے مناتے ہیں۔ چین میں یہ تہوار تیزی سے مقبول ہو رہا ہے جس میں اکیلے ہونے یا کنوارے پن کی خوشی منائی جاتی ہے۔ اس تہوار کا آغاز 1993ء میں چین کی ناجنگ یونیورسٹی سے ہوا تھا جس کے بعد نوے کی دہائی میں یہ چین کی متعدد یونیورسٹیوں میں منایا جانے لگا؛ تاہم علی بابا سٹور یہ دن گیارہ نومبر کو مناتا ہے۔ اس روز آن لائن سٹور پر تاریخ کی سب سے بڑی سیل لگائی جاتی ہے اور لاکھوں مصنوعات انتہائی کم داموں پر دستیاب ہوتی ہیں۔ اس سال گیارہ نومبر کو علی بابا نے سنگلز ڈے پر ریکارڈ اڑتیس ارب ڈالر کما کر دنیا کو حیران کر دیا۔ سیل کے آغاز کے پہلے ایک منٹ اور آٹھ سیکنڈ میں ایک ارب ڈالر کی مصنوعات فروخت ہو چکی تھیں۔ یہ تاریخ کی تیز ترین فروخت تھی۔ علی بابا کے بانی جیک ما‘ نے اس سٹور کا آغاز اس لئے کیا تھا کہ لوگ گھر بیٹھ کر آسانی سے خریداری کر سکیں۔ اس نے آن لائن ویب سائٹ یعنی ای کامرس کا سہارا لیا‘ جس کی وجہ سے مصنوعات اور سروسز نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا کی دسترس میں آ گئیں۔ اگر وہ صرف چین کے کسی شہر میں روایتی سٹور کھولتا تو چند لاکھ لوگ ہی اسے جان پاتے لیکن اس نے دنیا کی سات ارب آبادی کے لئے شاپنگ کو آسان بنا دیا۔ آج دنیا کے دوسرے کونے میں بیٹھا شخص ایک کلک سے چیزیں اپنے پاس منگوا سکتا ہے۔ یہ اینٹرپرینورشپ کی سب سے بڑی مثال تھی۔ پاکستان میں چھ ماہ قبل چار نوجوانوں نے ایک زبردست سٹارٹ اپ شروع کیا۔ انہوں نے عوام کی سفر کی مشکلات کو آسان بنانے پر کام کیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کیوں نہ ایک ایسی رائیڈ ہیلنگ سروس شروع کی جائے جس میں پوری ٹیکسی کرائے پر بلانے کی بجائے کسی بس کی ایک سیٹ منتخب کرنے کی سہولت دی جائے تاکہ وہ لوگ جو کم پیسوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا چاہتے ہیں وہ آسانی سے پہنچ سکیں۔ یہ انتہائی عمدہ آئیڈیا تھا کیونکہ عام آن لائن ٹیکسی سروس میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں کم از کم ڈیڑھ دو سو روپے لگتے ہیں۔ اب ایک شخص جو روزانہ گھر سے دفتر اس ٹیکسی پر جائے گا تو اسے کم از کم چار پانچ سو روپے سفر پر خرچ کرنا پڑیں گے۔ ایئر لفٹ کا یہ آئیڈیا کلک کر گیا۔ انہوں نے چند آرام دہ‘ صاف ستھری اور ایئرکنڈیشنڈ بسیں تیار کیں۔ انہیں آن لائن جی پی ایس سگنل سے منسلک کیا تاکہ جس طرح موبائل ایپ پر ایک ٹیکسی گوگل میپ پر نظر آتی ہے‘ لوگوں کو بسوں کی آمد اور موجودگی کا پتہ چلتا رہے۔ آغاز میں ان نوجوانوں نے شہر کے دو روٹس پر تین بسیں چلائیں۔ انہوں نے ایک موبائل ایپلی کیشن لانچ کی جس کے ذریعے کوئی بھی شخص اپنا روٹ منتخب کرکے صرف پچاس روپے میں ایڈوانس سیٹ بک کر سکتا ہے۔ یہ آئیڈیا اتنا کامیاب ہوا کہ صرف سات آٹھ ماہ کے عرصے میںکمپنی نے سینکڑوں بسیں چلانا شروع کر دیں اور اپنا آپریشن کراچی اور دیگر شہروں تک پھیلا دیا۔ 
پاکستان میں سٹارٹ اپ کلچر کا آغاز 2012ء میں ہوا جب پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے پلان نائن کے نام سے ایک منصوبہ لانچ کیا جو ہر سال دو مرتبہ لانچ پیڈ کے نام سے ایک ایونٹ منعقد کرتا ہے۔ اس ایونٹ میں شرکت کے لئے پورے ملک سے درخواستیں طلب کی جاتی ہیں۔ جو نوجوان مختلف آئیڈیا رکھتے ہیں اور اینٹرپرینورشپ کے ذریعے اپنی اور ملک کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں وہ اس میں درخواست دیتے ہیں۔ یہ لانچ پیڈ میں شرکت کرتے ہیں‘ اپنا آئیڈیا ججز پینل کے سامنے رکھتے ہیں اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا آئیڈیا کس طرح سے مختلف اور قابل عمل ہے۔ اس سال بھی پاکستان میں انٹرپرینورشپ کے فروغ کیلئے ارفع سافٹ ویئر پارک میں ''لانچ پیڈ 14‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ چار روز تک جاری رہنے والے اس ایونٹ میں 10 سٹارٹ اپس کا انتخاب عمل میں لایا گیا جنہیں چھ ماہ کیلئے ماہانہ وظیفہ، کام کی جگہ، تکنیکی و قانونی معاونت اور کاروبار کے فروغ کیلئے ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ تعامل کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ آخری روز 9 حتمی سٹارٹ اپس کا انتخاب عمل میں لایا گیا اور یہ 10 سٹارٹ اپس پلان نائن کے انکیوبیشن میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ فاتحین میں ایک سٹارٹ اپ آبشار ہے جس کے مطابق وہ ایسی ٹیکنالوجی بنا رہا ہے جس سے گھریلو اور تجارتی املاک کے مالکان 98 فیصد تک پانی کی بچت اور 40 سے 60 فیصد تک بجلی سے چلنے والی پانی کی موٹر کی کھپت کو کم کر سکتے ہیں۔ ایک اور سٹارٹ اپ کاروں کی پچھلی کھڑکیوں کو ڈیجیٹل سکرینوں میں بدل دیتا ہے اور قابلِ ٹریک مواد دکھاتا ہے۔ پلان نائن سے اب تک ایک سو اسی سٹارٹ اپ تربیت پا کر سات ارب روپے مالیت کی کمپنیاں وضع کر چکے ہیں۔ کئی سٹارٹ اپ اندرونِ ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی کمپنیاں پھیلا چکے ہیں۔
گوگل‘ ایمازون‘ مائیکروسافٹ‘ فیس بک یہ سب سٹارٹ اپ ہی تھے جو آج کھربوں ڈالر کی عالمی کمپنیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور ان کی وجہ سے آج اربوں لوگوں کا لائف سٹائل تبدیل ہو چکا ہے۔ پاکستان میں سٹارٹ اپ کلچر کے فروغ کے لئے چند چیزیں بہت ضروری ہیں۔ پہلی چیز رٹا سسٹم سے چھٹکارا ہے۔ سٹارٹ اپ کلچر یا اینٹرپرینورشپ میں رٹا بازی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس میں آپ کو دماغ استعمال کرنا ہوتا ہے جبکہ رٹا سسٹم میں آپ کا فوکس صرف امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔ عملی زندگی سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ اس لئے سب سے پہلی اور اہم چیز سلیبس کو اس طرح ری ڈیزائن کرنا ہے کہ ابتدائی تعلیم بالخصوص میٹرک تک کی تعلیم کو رٹے سے پاک کر دیا جائے اور طالب علموں پر سے کتابوں کا بوجھ کم کرکے انہیں سوچنے سمجھنے پر لگایا جائے۔ دوسری چیز سٹارٹ اپ کلچر کا فروغ ہے۔ جو نوجوان اپنا کام کرنا چاہتے ہیں انہیں بلا سود قرضے ملنے چاہئیں اور تیسری چیز گوگل جیسی عالمی کمپنیوں کی پاکستان میں موجودگی اور دفاتر کا قیام ہے تاکہ یہاں جو نوجوان بہترین آئیڈیا پر کام کر رہے ہیں‘ انہیں گوگل اور دیگر آئی ٹی کمپنیوں کے سامنے رکھا جائے تاکہ وہ عالمی توجہ حاصل کر سکیں۔ بھارت اس معاملے میں کافی آگے ہے۔ وہاں کے سٹارٹ اپ بڑی تیزی سے فروغ پا رہے ہیں کیونکہ وہ جو بھی چیز بناتے ہیں اسے عالمی سطح پر قبولیت مل جاتی ہے۔ نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ وہ روایتی تعلیم اور صرف کسی مضمون میں ایم اے کرکے نوکریاں ڈھونڈنے کی بجائے اپنے دو تین دوستوں کے ساتھ مل کر کسی ایسے آئیڈیا پر کام کریں جس سے لوگوں کی کوئی مشکل دور ہوتی ہو۔ ایسی چیزیں بہت جلدی کلک کر جاتی ہیں۔ اس کے لئے کوئی بڑا دفتر یا خرچہ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ آج کل تو مشترکہ ورکنگ سپیس کا کلچر بھی چل پڑا ہے۔ آپ کو ایسے بنے بنائے دفتر مل جائیں گے جہاں آپ سات آٹھ ہزار روپے میں آٹھ گھنٹے کے لئے ایک سیٹ ماہانہ بنیادوں پر بُک کرا لیتے ہیں جہاں انٹرنیٹ‘ کرسی میز‘ اے سی‘ چائے کافی اور میٹنگ رومز وغیرہ کی سہولت ہوتی ہے۔ وہاں دیگر اینٹرپرینور بھی موجود ہوتے ہیں جن کے ساتھ آپ اپنے خیالات کا تبادلہ کرکے کافی کچھ سیکھ سکتے ہیں اور اپنے منصوبے کو مل کر کامیابی سے آگے بڑھا سکتے ہیں۔ یہ سٹارٹ اپ کا دور ہے۔ روایتی کاروبار اب نہیں چلیں گے۔ جو چل رہے ہیں اور منافع میں چلنا چاہتے ہیں وہ بھی آئی ٹی کا سہارا لئے بغیر نہیں بچ پائیں گے۔ اس لئے اپنے بچوں کی ابتدا سے ہی ذہن سازی کیجئے تاکہ کل کو وہ اپنا اور ملک کا مستقبل بہتر اور محفوظ بنا سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں