پاکستان اور سعودیہ کے برادرانہ تعلقات بہت سی قوتوں کو کھٹکتے رہتے ہیں‘ اسی لئے گزشتہ دنوں اس پروپیگنڈے کو ہوا دی گئی کہ شاید پاکستان کو کوالالمپور سمٹ میں شرکت سے روکا کیا گیا ہے۔ گزشتہ روز پاکستان میں سعودی عرب کے سفارت خانے نے میڈیا پر چلنے والی اس بے بنیاد خبر کی تردید کر دی جس میں کہا گیا تھا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے پر مجبور کیا اور پاکستان کو دھمکی دی ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات ایسے نہیں جہاں دھمکیوں کی زبان استعمال ہوتی ہو، اس لیے کہ یہ گہرے تزویراتی تعلقات ہیں جو اعتماد، افہام وتفہیم اور باہمی احترام پر قائم ہیں، اور دونوں ممالک کے درمیان بیشتر علاقائی، عالمی اور بطور خاص امت مسلمہ کے معاملات میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔سعودی عرب ہمیشہ دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور اس نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے تاکہ پاکستان ایک کامیاب اور مستحکم ملک کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکے۔
اگر ہم گزشتہ دو تین ہفتوں کے ملکی حالات کا جائزہ لیں تو حقیقت خود بخود واضح ہوتی چلی جاتی ہے۔ پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کا ایشو اور پھر سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو سزا سنائے جانے کے معاملات اتنے حساس کہ وزیراعظم عمران خان کو یہ دورہ منسوخ کرنا پڑا۔ ملکی حالات معمول پر نہ ہوں تو سربراہ حکومت کے بیرونی ممالک کے دوروں میں تعطل آنا کوئی غیر معمولی امر نہیں۔ یہ بھی ہائبرڈ وار کی ایک نشانی ہے کہ معاملات کے تانے بانے خود سے جوڑ کر پروپیگنڈے کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کر لئے جائیں۔ جہاں تک سعودی عرب کی بات ہے تو اس نے ہمیشہ پاکستان کے لئے خیرسگالی کے جذبات کے ذریعے معاملات کو نکھارنے کی ہی کوشش کی ہے۔ موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو جس طرح سے معیشت زبوں حالی کا شکار تھی اسے اٹھانے میں سعودی عرب ہی سب سے پہلے آگے بڑھا۔ سعودی عرب کا دوسرا اہم کردار او آئی سی کے پلیٹ فارم کے ذریعے ہمارے سامنے ہے‘ جس میں اس نے ہمیشہ عالم اسلام کو درپیش مسائل اور چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے لئے ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان نے اپنے غیر ملکی دوروں کے دوران عالمی کانفرنسوں میں ایسے ایشوز کو اجاگر بھی کیا ہے اور اقوام متحدہ کے سامنے ان کی نشاندہی بھی کی ہے۔ اسلامی ممالک کی فہرست میں سعودی عرب نے ایک رہنما کا کردار ادا کیا ہے اور وہ ہمیشہ انسانی بنیادوں اور سیاسی سطح پر مسلم امہ کی طرفداری ہی کرتے رہے ہیں۔ او آئی سی کی تنظیم 57 اسلامی ممالک پر مشتمل ہے‘ جس کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ اس کا دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہے۔ اس تنظیم کی سرکاری زبانیں عربی، انگریزی اور فرانسیسی ہیں۔ اس تنظیم کو اقوام متحدہ میں باضابطہ نمائندگی دی گئی ہے اور اس کا نما ئندہ وفد اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں موجود رہتا ہے۔ تنظیم کے تمام اسلامی ممالک دنیا کے مختلف خطوں یا حصوں مثلاً مشرق وسطیٰ، براعظم افریقہ، وسطی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیاء اور جنوبی ایشیاء میں واقع ہیں۔ چھ ممالک کو اس تنظیم میں مبصر کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ ممالک ہیں‘ بوسنیا، جمہوریہ وسطی افریقہ، شمالی قبرص، تھائی لینڈ، روس اور سربیا۔ امت مسلمہ کو متحد کرنے کی دنیا بھر میں اجتماعی کوششیں انیسو یں صدی سے ہی جاری ہیں۔ ان کوششوں کا ایک مقصد یہ تھا کہ مسلم ملکوں کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ مختلف اسلامی ممالک میں مختلف سیاسی نظریات کے باوجود تمام ممالک نے او آئی سی کی تشکیل میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ تمام اسلامی ممالک کے اجتماعی تعاون کی وجہ سے وجود میں آئی۔ تنظیم کی تشکیل کا پس منظر یہ ہے کہ یروشلم/ بیت المقدس، فلسطین/اسر ائیل میں مسلمانوں کے متعدد مقدس مقامات چھین لیے گئے۔ 1969ء میں 21اگست کو ایک انتہائی ناخو شگوار اور سنگین واقعہ پیش آیا۔ ایک اسرائیلی انتہا پسند نے مسلمانوں کی مقدس زیارات کو نقصان پہنچایا‘ جس پر عالم اسلام میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اس واقعہ کے بعد عالم اسلام کے رہنما اور سربراہان مراکش کے شہر رباط میں جمع ہوئے۔اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ مسلمان ممالک کو سیاسی، اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور سائنسی شعبوں میں متحد کر نے کے لیے اجتماعی کوشش کی جائے اور مسلمانوں کے درمیان یکجہتی کو فروغ دیا جائے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے اسلامی ممالک کانفرنس کے نام سے ایک تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 25ستمبر 1969ء کو یہ تنظیم اوآئی سی کے نا م سے وجود میں آ گئی۔ تنظیم کے منشور کے مطابق دنیا میں مسلمانوں کے اقتدار کا تحفظ کیا جا ئے گا۔ رکن ممالک کے درمیان یکجہتی کو فروغ دیا جائے گا۔ سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے گا اور تعلیم خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کے اقدامات کیے جائیں گے۔ اکتوبر 1973ء میں عرب ممالک اور اسرائیل کے مابین جنگ ہو ئی جس کے تقریباً چھ ماہ بعد 1974ء میں لاہور میں تنظیم کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں فلسطینیوںکی تنظیم آزادی کو پہلی بار فلسطینیوں کی واحد قانونی نمائندہ تنظیم کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔
اس وقت ڈاکٹر یوسف بن احمد او آئی سی کے گیارہویں سیکرٹری جنرل ہیں جو نومبر 2016 سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ چار عشروں کے دوران او آئی سی کے ارکان کی تعداد تیس سے 57 ممالک تک پہنچ گئی ہے۔ 2008ء میں ڈاکار میں گیارہویں اسلامی سمٹ میں اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دیا گیا تھا۔ یوں او آئی سی دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی نمائندہ جماعت بن گئی۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں او آئی سی کے رکن ممالک کو کئی چیلنجز درپیش ہوئے۔ دسمبر2005ء میں مکہ شہر میں اسلامک سمٹ کا ایک غیرمعمولی سیشن منعقد ہوا جس میں دس سالہ ایکشن پلان ترتیب دیا گیا۔ 2015ء تک اس دس سالہ پلان پر کامیابی کے ساتھ عمل درآمد کیا گیا جس کے بعد 2025تک کیلئے مزید دس برس کا پلان ترتیب دیاگیا تاکہ مسلم امہ کو عالمی سیاسی منظر نامے کے تحت درپیش مسائل کا حل نکالا جا سکے۔ یہ پلان آف ایکشن 18 ترجیحات اور 107 مقاصد پر مشتمل ہے۔ یہ 18 ترجیحات امن‘سکیورٹی‘فلسطین‘غربت کا خاتمہ‘ دہشت گردی کیخلاف ایکشن‘ کلچر‘خواتین کو مواقع دینا اور دیگر پر مشتمل ہیں۔ اسی طرح سائنس ‘ ٹیکنالوجی‘معیشت‘تجارت‘میڈیااور کلچر کے فروغ کیلئے اسلامک سمٹ‘کونسل آف فارن منسٹرز اور جنرل سیکرٹریٹ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ او آئی سی کی چھتری تلے بہت سے ادارے کام کر رہے ہیں جن میں اسلامک ڈویلپمنٹ بینک گروپ‘ اسلامک ایجوکیشنل‘سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن شامل ہیں۔
او آئی سی اقوام متحدہ کے بعد دوسری بڑی عالمی تنظیم ہے۔ سعودی حکمرانوں نے ہمیشہ عالمی توازن قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔بدقسمتی سے سوشل میڈیا ہائبرڈ وار میں بہت زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ بلا سوچے سمجھے چیزیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی جاتی ہیں اور انہیں آگے دھڑا دھڑ فارورڈ بھی کر دیا جاتا ہے۔ یہ پروپیگنڈا صرف پاکستان کے ملائیشیا نہ جانے پر ہی نہیں ہوا بلکہ پاکستان کے اندرونی سیاسی‘ معاشی اور اقتصادی معاملات پر بھی آئے روز ایسی مذموم مہم شروع کر دی جاتی ہے جس کا مقصد عوام کو اداروں سے بدظن کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ سعودی عرب کے تعلقات ان ساری منفی مہمات کے باوجود پاکستان کے ساتھ کمزور نہیں ہو سکے بلکہ روز بروز پروان ہی چڑھ رہے ہیں۔پاکستان ایک خودمختار ملک ہے‘ اپنے فیصلے خود کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ یہ ایٹمی صلاحیت رکھنے والا واحد مسلم ملک ہے اور شاید اس وجہ سے بھی کچھ قوتیں مسلسل اسے انتشار کا شکار رکھنے کیلئے جھوٹے پروپیگنڈے کا سہارا لیتی ہیں؛ تاہم یہ قوتیں نہ ماضی میں کامیاب ہوئیں نہ مستقبل میں ہوں گی کیونکہ سعودی عرب نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی محبت کا محور و مرکز ہے اور اس محبت میں دراڑ ڈالنا آسان نہیں۔