اس ہفتے آدھے کینیڈا میں درجہ حرارت منفی پچاس ڈگری تک چلا جائے گا جبکہ ہوائیں بھی 90 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلیں گی۔ میں نے یہ خبر اپنے موبائل پر دیکھی تو پاکستان میں ٹمپریچر تیرہ ڈگری سینٹی گریڈ کے پاس تھا اور جنوری میں سردی کی شدت کے باعث سکول مزید ایک ہفتہ کے لئے بند کر دئیے گئے تھے۔ دونوں ممالک میں پڑنے والی سردی کا موازنہ کریں تو زمین آسمان کا فرق ہے۔ کہاں دس بارہ سنٹی گریڈ اور کہاں منفی تیس سے منفی پچاس سینٹی گریڈ۔ میں نے سوچا اگر پاکستان میں کینیڈا جتنی سردی پڑنے لگ جائے تو ننانوے فیصد سکول اور کاروبارِ زندگی معطل ہو جائے گا اور لوگ اس کا ذمہ دار بھی حکومت کو ہی گرداننے لگیں گے۔ اس مرتبہ سردی کی شدت گزشتہ برسوں سے زیادہ تھی اور فیس بک پر کئی نوجوانوں نے یہ لکھا ہوا تھا کہ سردی اس مرتبہ واقعی سیریز ہو گئی ہے؛ تاہم کیا یہ اتنی شدید سردی تھی جتنی کینیڈا‘ امریکہ یا دیگر ممالک میں پڑتی ہے اور کیا وہاں بھی سب چھٹی کرکے گھر بیٹھ جاتے ہیں؟ پاکستان میں سکولوں میں سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں آدھے سے زیادہ دن چھٹیاں رہتی ہیں۔ تین ماہ کی گرمیوں کی چھٹیاں۔ سردیوں میں پہلے ایک ہفتہ یا دس دن چھٹیاں ہوتی تھیں اب یہ بھی ایک مہینے تک پہنچ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ہفتہ اتوار کے دو دن نکالیں تو یہ چھیانوے دن یا تین مہینے بنتے ہیں۔ اگر عیدین اور دیگر تہوار وغیرہ کی چھٹیاں ملا لی جائیں تو یہ بھی تیس کے قریب بنتی ہیں۔ گویا پاکستان میں تعلیمی ادارے چھٹیوں کے نام پر آٹھ ماہ بند رہتے ہیں۔ بچے اس کے علاوہ بھی چھٹیاں کر لیتے ہیں تو گویا پاکستان میں عملی طور پر صرف تین ساڑھے تین ماہ ہی کلاسیں لگتی ہیں۔ مستقبل کو دیکھیں تو صورتحال مزید گمبھیر دکھائی دیتی ہے۔ گلوبل وارمنگ دیگر دنیا کے ساتھ پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ یا پلیٹ میں لے رہی ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ آنکھیں بند کرکے ہم بھی اس اندھی کھائی میں گر جائیں۔ ہم اس کا مقابلہ کرنے کیلئے کیا کر رہے ہیں اس بارے میں کوئی قومی پالیسی سامنے آنی چاہیے۔ درجہ حرارت دونوں سطحوں میں شدت اختیار کر رہا ہے۔ گرمیوں کا موسم مزید گرم ہوتا جا رہا ہے اور سردیاں ٹھنڈی تر ہو رہی ہیں۔ گرمیوں کا دورانیہ اور شدت‘ دونوں دنیا بھر میں بڑھ رہے ہیں۔ ایسے ملک جہاں گھروں اور دفاتر میں کبھی پنکھا بھی نہیں لگا ہوتا تھا آج وہاں ایئرکنڈیشنر چل پڑے ہیں۔ شدید سردی‘ گرمی اور موسم کے بدلتے انداز لوگوں کے مزاج پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ بہار کے موسم میں پھول کھلتے ہیں تو انسانوں کے چہروں پر بھی شادابی نمایاں ہو جاتی ہے۔ اب ان موسموں میں سموگ کا موسم بھی شامل ہو چکا ہے۔ پاکستان تو پھر بھی دنیا کے بیشتر ملکوںکے مقابلے میں موسمی تغیرات کے حوالے سے خاصا محفوظ ہے۔ مثلاً آپ امریکہ کو دیکھ لیں‘ اس کی درجنوں ریاستیں سال میں متعدد مرتبہ خوفناک سمندری اور ہوائی طوفانوں کا سامنا کرتی ہیں۔ درخت‘ گھروں کی چھتیں اور گاڑیاں تک اڑ جاتی ہیں۔ اس کے باوجود وہاں نظام زندگی جاری رہتا ہے۔ کم از کم وہاں ایسا ہڑبونگ مچتے نہیں دیکھا جیسا ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ میڈیا کے کیمرے وہاں بھی پہنچتے ہیں لیکن وہ قدرتی آفات کا ذمہ دار حکومت کو نہیں ٹھہراتے۔ بہت سے لوگ امریکہ کو ایک جنت کی مانند خیال کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں امریکہ میں نہ تو کوئی بھوکا رہتا ہے‘ نہ کوئی چھت کے بغیر سوتا ہے اور وہاں ہر ایک کے پاس روزگار‘ گاڑی اور وافر بینک بیلنس موجود ہوتا ہے۔ یہ سب مغالطے ہیں۔ امریکہ میں اعشاریہ ایک سات فیصد یا ساڑھے پانچ لاکھ افراد روزانہ سڑکوں پر سوتے ہیں۔ یہ سخت سردی‘ طوفان اور بارش میں زیادہ سے زیادہ ایک لحاف یا کمبلوں کی تہہ کے نیچے چھپ کر رات گزارتے ہیں۔ ایسے لوگ جن کے پاس گاڑیاں ہیں وہ رات بھی انہی میں گزارتے ہیں۔ ہمارا میڈیا اگر اُدھر ہو تو وہ ایسے لوگوں کو دکھا دکھا کر الگ ہی طوفان کھڑا کر دے لیکن امریکہ میں سب کچھ شانتی سے چل رہا ہے۔ آپ ورجینیا چلے جائیں۔ وہاں کا قانون کرایہ داری اتنا سخت ہے کہ اگر کسی ایک ماہ بھی کرایہ پانچ کی بجائے چھ تاریخ کو دیا تو پولیس آکر آپ سے گن پوائنٹ پر گھر خالی کرالیتی ہے اور آپ کا سامان بھی ضبط ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو پھر سڑکوں پر رات گزارنا پڑتی ہے یا پھر ایسے نجی شیلٹر بنے ہوتے ہیں جہاں خیراتی اداروں کے تعاون سے کچھ سہولت دی گئی ہوتی ہے۔ یہ لوگ ہفتے میں سات دن پچاس ساٹھ گھنٹے کام بھی کرتے ہیں لیکن حکومت کے پاس انہیں دینے کے لئے کچھ نہیں۔ یہ لوگ بھی شدید سردی میں سوائے ٹھٹھرنے کے کچھ نہیں کر سکتے۔ جس طرح ہمارے ہاں سوئی گیس نہ ملے تو ایل پی جی سلنڈر سے کام چلا لیا جاتا ہے‘ وہاں ایل پی جی کی گنجائش نہیں ہے۔ آپ الیکٹرک چولہے استعمال کر سکتے ہیں اور اپنی زندگی کو دھکا لگا سکتے ہیں۔
موسمی شدت ہو یا پھر قوانین پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنے کی بات‘ جتنا شور شرابا ہمارے ملک میں پڑتا ہے شاید ہی کہیں ہوتا ہو۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ ہم بنیادی طور پر تن آسانی کا شکار ہیں۔ اپنی ذمہ داریاں حکومت اور اداروں پر ڈالنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ گھر کے اندر گٹر کا ڈھکن بھی حکومت سے لگوانا چاہتے ہیں۔ یہ ہمارا ہی ملک ہے جہاں کرایہ دار کے حقوق مالک مکان سے بھی زیادہ ہیں۔ کرایہ دار ایک مرتبہ مکان میں گھس جائے تو اسے نکالنا ناممکن ہوتا ہے۔ اگر ایسے کسی کرایہ دار کو نکالا جائے تو میڈیا اس کی دکھی کہانیاں سنا سنا کر آسمان سر پر اٹھا لے گا لیکن اس کی قانون شکنی کو سامنے نہیں لائے گا۔ اسی طرح جب بہت زیادہ بارش ہو جائے اور سڑکوں پر سے پانی کے نکاس میں تھوڑی دیر ہو جائے تب بھی شور مچا کر آسمان ہمارے ہاں ہی سر پر اٹھایا جاتا ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ بارش تین چار گنا زیادہ ہوئی ہے اور جن سوراخوں سے پانی سیوریج میں جانا ہے اس میں وقت بھی لامحالہ زیادہ ہی لگے گا۔ حکومت کو ایسے اینکروں اور رپورٹروں کو اپنے خرچ پر امریکہ جیسے جدید ممالک کا دورہ کروانا چاہیے تاکہ وہ وہاں قدرتی آفات‘ قانون شکنی‘ غربت‘ بیروزگاری جیسے مسائل کے موقع پر لوگوں اور وہاں کے میڈیا کا ردعمل دیکھیں اور پھر اندازہ کریں کہ مہذب قومیں کسی بھی مشکل گھڑی میں کس طرح ردعمل دیتی ہیں۔ کیا وہاں بھی اسی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں پر شور مچایا جاتا ہے یا پھر زمینی حقائق کے مطابق رپورٹنگ کی جاتی ہے۔ دوسرا‘ عوام کو بھی تھوڑی سی زیادہ سردی یا گرمی پڑنے یا بارش ہونے پر اودھم مچانے اور سیاپے کرنے کی بجائے صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اب تو سب کے پاس موبائل فون ہے۔ ذرا یوٹیوب پر جائیں اور لکھ کر دیکھ لیں کہ جدید ممالک کن کن آفات کا ہر سال سامنا کرتے ہیں‘ کس ملک میں کون کون سی سہولتیں نایاب ہیں‘ قانون پر عمل درآمد نہ کرنے پر وہاں کیا ہوتا ہے یہ سب کچھ اب ایک کلک کی دوری پر ہے۔انٹرنیٹ اور موبائل کے بعد اب تو یہ بہانہ بھی نہیں رہا کہ ہمیں تو فلاں چیز کا علم ہی نہیں تھا۔ ہم موبائل کو ڈرامے اورسوشل میڈیا کی غیرضروری ویڈیوز دیکھنے میں وقت ضائع کر سکتے ہیں تو ان چیزوں کے لئے کیوں وقت نہیں نکال سکتے جو ہمیں انسان اور قوم بنانے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی ملک اور اس کے حالات آئیڈیل نہیں ہیں۔ اگر کہیں بیروزگاری نہیں ہے تو وہاں کا موسم سخت ہے۔ اگر کہیں موسم اچھا ہے تو غربت زیادہ ہے اور کہیں غربت کم ہے تو قدرتی آفات بہت زیادہ ہیں اور کہیں قدرتی آفات کم ہیں تو وہاں روٹی کمانے کے لئے بارہ بارہ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ خدا نے نعمتوں کو دنیا میں مختلف انداز میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ ہر کوئی ہر جگہ کسی نہ کسی امتحان سے گزر رہا ہے۔ کسی کو کسی جگہ بھی آئیڈیل زندگی اور ہر قسم کی آسائش اور راحت میسر نہیں اور اگر آپ بھی دنیا کے جدید اور ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کی مشکلات دیکھیں گے تو وزیراعظم عمران خان کی یہ بات سو فیصد سچ لگے گی کہ زندگی واقعتاً اونچ نیچ کا نام ہے‘ ہنسی خوشی کی زندگی اصل میں نہیں بلکہ کہانیوں میں ہی ہوتی ہے اور سکون صرف قبر میں ہی جا کر ملتا ہے۔