امریکہ‘ برطانیہ‘ چین‘ جاپان سمیت درجنوں ممالک نے کورونا وائرس کے خطرے کے بعد تعلیمی ادارے بند کر دئیے ہیں‘ لیکن تعلیم کا سلسلہ پھر بھی جاری ہے۔ ان ممالک میں تعلیمی ادارے نہ صرف طالب علموں کو روٹین کے لیکچر دے رہے ہیں بلکہ ان کے امتحانات بھی لئے جا رہے ہیں اور یہ سب آن لائن ایجوکیشن کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ کورونا وائرس کے باعث امریکہ میں بائیس ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ ایک ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ برطانیہ اور دیگر ممالک میں بھی صورت حال مختلف نہیں۔ کورنا کو عالمی ادارہ صحت نے وبا قرار دے دیا ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے کھربوں ڈالر بھی مختص کر دئیے ہیں۔ تقریباً تمام ممالک میں اہم تقریبات‘ سیمینارز اور عوامی اجتماعات پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ اس ساری صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان تعلیم کا ہو سکتا ہے‘ لیکن ان ممالک نے بروقت آن لائن ایجوکیشن کو اپنا کر اس مسئلے کا حل بھی نکال لیا ہے۔ پاکستان میں بظاہر صورتحال قابو میں ہے لیکن جس طرح کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں حکومت کو تمام تدابیر کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ اگر ہم ایجوکیشن کی بات کریں تو اس وقت سکولوںمیں یا تو امتحانات ہو چکے ہیں یا ہو رہے ہیں اور اگلا تعلیمی سال شروع ہو رہا ہے۔ بعض سکولوں میں بعد از امتحانات چھٹیاں ہیں جبکہ سندھ کے تعلیمی اداروں میں تو کورونا وائرس کے خطرے کے باعث چھٹیاں دی گئی ہیں۔خدا کرے کہ حالات جلد قابو میں آ جائیں لیکن بالفرض صورتحال دو تین ماہ تک بھی طویل ہو جاتی ہے تو کیا ہم تعلیمی ادارے بالکل بند کر دیں گے اور کب تک؟ اس ملک میں جہاں ہر گھر میں انٹرنیٹ اور موبائل فون عام ہو وہاں ایسا ہونا بد قسمتی ہو گی۔ کسی بھی ہنگامی صورتحال کے باعث تعلیم کا سلسلہ برقرار رہنا چاہیے اس کے لئے محکمہ تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہو گا۔ جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے اسے آن لائن منتقل کرنا ہو گا اور اساتذہ کو آن لائن ٹیچنگ کی تربیت دینا ہو گی۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ ای لرن کے نام سے پہلے ہی پنجاب آئی ٹی بورڈ کی وضع کردہ ایک موبائل ایپ اور ویب پورٹل تین سال سے انٹرنیٹ پر دستیاب ہے جس میں پہلی سے بارہویں تک کے طلبہ کی تمام سائنسی کتب رکھی گئی ہیں۔ ان کتب کو ڈیجیٹل انداز میں اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ طالب علم بغیر کسی ٹیوشن یا مدد کے خود بھی کتب کے اسباق کو سمجھ اور یاد کر سکتے ہیں۔ مضامین کو ویڈیوز‘ اینی میشن اور آڈیو مثالوں کے ذریعے واضح کیا گیا ہے تاکہ طلبہ کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے؛ چنانچہ جو طالب علم پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کا سلیبس اپنے سکولوں میں پڑھ رہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ گھروں میں فارغ بالکل مت بیٹھیں۔ وہ ان چھٹیوں کو ضائع مت کریں اور صرف کورونا وائرس کی خبریں سننے اور اس بحثیں کرنے کی بجائے زندگی کو روٹین میں جاری رکھنے کی کوشش کریں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے بہت کچھ بند ہو گیا ہے لیکن خوش قسمتی سے انٹرنیٹ کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں؛ چنانچہ اس سہولت سے ہمیں بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ میں دیکھتا ہوں کہ تقریباً ہر سکول‘ کالج اور اکیڈمیوں کے بچوں اور ٹیچرز نے پہلے ہی وٹس ایپ کے گروپس بنا رکھے ہیں۔ یہ ان وٹس ایپ گروپس کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں لیکن یہ اس رابطے کا فائدہ اٹھانے کی بجائے کورونا پر لطیفے وغیرہ ہی ایک دوسرے کو بھیج رہے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ یا تو ای لرن کی ویب سائٹ پر چلے جائیں‘ وہاں پہلی سے بارہویں کلاس تک کے سائنس مضامین کی مکمل کتابیں ڈیجٹیل انداز میں دستیاب ہیں اور کوئی بھی بچہ تھوڑی ہمت کرے تو بغیر کسی استاد کی مدد کے سائنس اور ریاضی کے مضامین کور کر سکتا ہے۔ باقی رہ جاتے ہیں غیر سائنسی مضامین جن میں اردو‘ اسلامیات‘ معاشرتی علوم اور انگریزی شامل ہیں تو انہیں بغیر استاد کے گھروں میں بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ جس گھر میں ایک سے زیادہ بچے ہیں تو بڑے بچے چھوٹے بچوں کو پڑھا سکتے ہیں۔
اسی طرح اگر کسی کے ہمسائے میں طالب علم ہیں تو ان کو بھی ایک وٹس ایپ گروپ بنا کر شامل کیا جا سکتا ہے۔ ان گروپس میں بچے روزانہ کے لیکچرز ترتیب دے سکتے ہیں اور کسی کو کوئی مشکل پیش آتی ہے تو اسے ویڈیو کال پر سمجھایا جا سکتا ہے۔ اس طرح بچوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال کی مہارت آئے گی ‘ ان کا نصاب کور ہو جائے گا اور وہ فارغ بیٹھنے سے بھی بچ جائیں گے۔ کچھ عرصے سے آن لائن ٹیوشن کا رجحان بھی چل پڑا ہے۔ میں کراچی کی ایک خاتون کو جانتا ہوں جو ریاضی کی ماہر ہیں۔ وہ ویڈیو کیمرے کا رخ اس رجسٹر کی جانب کرتی ہیں جس پر وہ لکھ رہی ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ بول کر بھی سمجھاتی جاتی ہیں۔ وٹس ایپ میں چار لوگ ایک وقت میں ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں جبکہ کئی موبائل ایپس میں ایک وقت میں نو لوگ ویڈیو کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ یہ خاتون اسی ایپ کے ذریعے ایک وقت میں نو طالب علموں کی کلاس ارینج کرتی ہیں اور ایک دن میں پانچ کلاسیں لے کر تقریباً چالیس بچوں کو ریاضی پڑھاتی ہیں۔ یہ ایک بچے سے پانچ ہزار روپے ماہانہ لیتی ہیں اور یوں دو لاکھ روپے گھر بیٹھ کر کما رہی ہے اور وہ بھی صرف پانچ گھنٹوں میں۔ وہ خاتون اب مزید ٹیچر اپنے ساتھ ملا رہی ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ ایک آن لائن اکیڈمی کی شکل اختیار کر جائے گا۔ بیرون ملک یہ سب کئی برس سے ہو رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں بچے اور بڑے گیموں اور سوشل میڈیا پر وقت کے ضیاع سے باہر ہی نہیں آ سکے۔ اب کورونا وائرس آیا ہے تو ہر ملک کی ٹیکنالوجی کی اہلیت سامنے آ گئی ہے۔ جدید ممالک میں پہلے ہی سکولوں میں آن لائن پورٹل زیر استعمال ہیں۔ حاضری سے لے کر رزلٹ‘ بچوں کی روزمرہ کارکردگی سے لے کر والدین کی آرا تک سب کچھ آن لائن ایک کلک پر میسر ہوتا ہے‘ اس لئے وہاں پر کورونا وائرس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم کا اتنا ہرج نہیں ہو رہا جتنا کہ ہمارے ہاں ہو گا۔ یہاں سرکاری سکولوں کے بچے تو بالکل ہی پورٹل وغیرہ سے انجان ہیں؛ البتہ ان کو یہ فائدہ حاصل ہے جو میں نے اوپر بتایا کہ سرکاری سکولوں میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کا نصاب پڑھایا جاتا ہے اس لئے پنجاب کی حد تک تو یہ بچے ای لرن ایپ کے ذریعے بھی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہر غریب طبقے کے گھر میں ایک کمپیوٹر موجود نہیں تب بھی کسی نہ کسی کے پاس ایک اینڈرائڈ موبائل ضرور ہو گا اور اس پر یہ ایپ مفت ڈائون لوڈ ہو سکتی ہے۔ باقی جس نے پڑھنا ہے اس نے تگ و دو کرکے اپنے جذبے‘ جستجو اور شوق کی بنا پر پڑھ جانا ہے اور جس نے نہیں پڑھنا اس نے گھر میں چھ کمپیوٹروں اور دس موبائلوں کے ہوتے ہوئے بھی نہیں پڑھنا۔
چھٹیوں کا استعمال ایک مکمل مضمون کی شکل میں تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانا چاہیے۔ بالعموم چھٹیوں کا لفظی ترجمہ ہمارے اذہان میں سیروتفریح‘ نیند پوری کرنے اور پارٹیوں یا بچوں کے نانکے جانے کی صورت میں آتا ہے جو کسی طور درست نہیں۔ ہفتہ وار چھٹی پر بھی بہت سے لوگ یونہی بیکار پڑے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں‘ وہ ویک اینڈ بڑے مزے میں گزار رہے ہیں۔ آپ کسی مزدور سے پوچھیں کہ اس کی چھٹی کیسے گزرتی ہے تو وہ آپ کو بتائے گا کہ اس کا جسم چھٹی والے دن درد کرتا ہے کیونکہ اس دن وہ کام نہیں کر رہا ہوتا۔ ہم اگر سکول یا دفاتر سے چھٹی والے دن فارغ ہوتے ہیں تو ہمیں اس وقت کے مثبت استعمال کا علم ہونا چاہیے۔ میں نے جن لوگوں سے بھی پوچھا ہے کہ آپ کے بچے ان چھٹیوں میں کیا کریں گے تو وہ بڑے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وائرس کی وجہ سے پبلک مقامات بند کئے جا رہے ہیں‘ پنجاب میں تو دفعہ ایک سو چوالیس بھی لگا دی گئی ہے جس کا مطلب ہے پانچ یا پانچ سے زیادہ لوگ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے تو پھر ان کے بچے گھروں میں کیا کریں گے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا؛ چنانچہ اس مشکل سے نکلنے کا واحد آسان طریقہ یہ ہے کہ آن لائن ایجوکیشن کو اپنا جائے‘ زیادہ سے زیادہ کتابیں اور رسالے پڑھے جائیں‘ اگر یوٹیوب دیکھنا ضروری ہے تو اس پر دستاویزی اور علمی فلمیں دیکھی جائیں‘بچیاں کوکنگ اور گھرداری سیکھیں تاکہ اس وقت کا بہترین استعمال کیا جا سکے۔