کورونا لاک ڈائون نے ہمارے تعلیمی نظام کا پول بھی کھول کے رکھ دیا ہے۔ گلی گلی محلے محلے جو ٹیوشن سنٹر نما سکول کھلے ہوئے تھے ان کی کثیر تعداد کورونا بحران کے دوران بچوں کو آن لائن تعلیم دینے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ چند ایک بڑے تعلیمی گروپس کو چھوڑ کر دیہات اور شہروں میں کھلے چھوٹے چھوٹے نجی سکولوں کے طالب علموں کو تو دور کی بات‘ ٹیچرز اور انتظامیہ کو بھی آن لائن پڑھانے کی الف ب تک سمجھ نہیں آ رہی۔ ایسے سکولوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال پہلے ہی برائے نام تھا۔ بعض سکول تو ایسے ہیں جن میں پرنٹر کا استعمال سوائے بچوں کے فیس وائوچر پرنٹ کر کے دینے کے اور کچھ نہ تھا۔ کمپیوٹر کی جو کتابیں بچوں کو نصاب میں پڑھائی جاتی ہیں ان میں بھی بچوں کو زیادہ تر رٹا ہی لگوادیا جاتا ہے۔آج کل گوگل کلاس روم‘ زوم‘ ویب ایکس اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز موجود ہیں جن پر بڑی آسانی سے اکائونٹ بنا کر بچوں کو گھروں میں پڑھایا جا سکتا ہے اور پنجاب کالج سمیت کئی گروپس اپنے طلبہ کو گھر بیٹھے پڑھا بھی رہے ہیں اور ان کے آن لائن ٹیسٹ بھی لئے جاتے ہیں لیکن ایسے ہزاروں چھوٹے چھوٹے نجی سکول ہیں جن میں اتنی کپیسٹی اور اہلیت ہی نہیں کہ وہ دور حاضر کے اس چیلنج کا مقابلہ کر سکیں۔ جدید ممالک میں تعلیمی نظام کو آن لائن منتقل کرنے میں اتنی مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ وہاں پہلے بھی ساٹھ سے ستر فیصد کام آن لائن ہی ہوتا تھا۔ طلبہ اپنی اسائنمنٹس انٹرنیٹ پر سکول یا کالج کے پورٹل پر ہی جمع کراتے تھے اور ان کی گریڈنگ بھی آن لائن ہی ہوتی تھی۔ کاغذ کا استعمال جدید ممالک میں گزشتہ ایک عشرے سے انتہائی کم بلکہ متروک ہو چکا ہے۔ نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ سرکاری اداروں میں بھی پیپرلیس انوائرمنٹ کا رجحان ان ممالک میں تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ ہر چیز آن لائن اور ورچوئل سپیس میں منتقل کی جا رہی ہے۔ اس کے کئی فائدے ہیں مثلاً یہ کہ آپ کا قیمتی وقت بچتا ہے‘ آپ کو چیزیں تلاش کرنے میں چند لمحے یا چند سیکنڈ درکار ہوتے ہیں‘آپ معلومات اور ڈیٹا کو الگ الگ موضوع اور تاریخ وار ترتیب دے سکتے ہیں اور آگ لگ کر جلنے یا کاغذوں کی گمشدگی کا خدشہ ختم ہو جاتا ہے۔ ورچوئل سپیس میں ڈیٹا کسی کمپیوٹر میں محفوظ ہوتا ہے جس کا بیک اپ مزید کئی کمپیوٹرز میں خود کار طریقے سے لیا جا رہا ہوتا ہے تاکہ ایک جگہ سے کمپیوٹر سرور خراب ہونے یا ڈیٹا ضائع ہونے کی صورت میں اس کی نقل موجود رہے۔ کورونا وائرس نہ بھی آتا تب بھی تعلیمی نظام کبھی نہ کبھی آن لائن منتقل ہو ہی جانا تھا۔ پاکستان اور بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک میں اگرچہ اس تبدیلی کی رفتار سست ہے لیکن جلد یہ بدیر یہ ہونا ہی ہے۔ اس کیلئے کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ کا عام اور سستا ہونا ضروری ہے۔ جیسے جیسے یہ چیزیں تمام لوگوں کی پہنچ میں آتی جائیں گی تبدیلی اور ارتقا کا یہ عمل خودبخود تیزی پکڑتا جائے گا۔ پاکستان میں موبائل صارفین کی تعداد سولہ کروڑ تک پہنچ چکی ہے جبکہ پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ ہے۔ ان سولہ کروڑ میں سے صرف تیس فیصد ایسے ہیں جن کے پاس سادہ بٹنوں والا موبائل ہے اور وہ انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتے۔ یہ ناخواندہ طبقہ ہے ورنہ گنوار سے گنوار شخص بھی اینڈرائڈ ٹچ موبائل استعمال کر رہا ہے۔ اس سے سیلفیاں بھی لیتا ہے‘ ٹک ٹاک بھی بناتا ہے اور سوشل میڈیا بھی استعمال کر لیتا ہے۔ اگر ایسا شخص یہ سب کر لیتا ہے تو یہ موبائل پر تعلیمی ایپلی کیشن بھی استعمال کر سکتا ہے اور کورونا کے اس بحران میں ایسے لوگوں کو بہ امر مجبوری اس تبدیلی کی طرف آنا اور اسے قبول کرنا پڑا ہے۔ بچوں کا تعلیمی سال بچانے اور انہیں گھر بیٹھے تعلیم دینے کیلئے پنجاب حکومت نے گزشتہ دنوں تعلیم گھر کے نام سے ایک کیبل ٹی وی چینل‘ ویب سائٹ اور موبائل ایپ لانچ کی‘ جو سکولوں کے طلبہ کیلئے خاصی کارگر ثابت ہوئی ہے۔ پنجاب آئی ٹی بورڈ اور محکمہ سکول ایجوکیشن کے اشتراک سے لانچ کیا گیا یہ منصوبہ پہلی سے بارہویں جماعت تک کے طلبا کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس چینل پر آٹھ اینی میٹڈ اساتذہ پیر سے جمعرات تک ریاضی، جنرل سائنس اور جنرل نالج کے مضامین پڑھاتے ہیں۔ یہ پروگرام صبح نو بجے سے دوپہر دو بجے تک براہ راست جبکہ شام پانچ سے رات نو بجے تک دوبارہ نشر کیے جاتے ہیں۔ جو طلبہ کیبل ٹی وی پر یہ لیکچر نہیں دیکھ پاتے ان کیلئے تعلیم گھر ویب سائٹ اور ایس آئی ایس موبائل ایپلی کیشن پر ویڈیو لیکچرز کا مکمل ہفتہ وار شیڈول بھی دستیاب ہے جس کی مدد سے طلبہ تمام اسباق گھر بیٹھے سمجھ سکتے ہیں۔ تعلیم گھر سے ایسے تمام طلبا مستفید ہو سکتے ہیں جو پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کا سلیبس پڑھ رہے ہیں۔
تعلیم گھر کے علاوہ بھی بہت سے ایسے ذرائع ہیں جن سے طلبا بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ نصابی اور غیر نصابی تمام مواد یوٹیوب اور ویب سائٹس پر دستیاب ہے۔ آپ کو اگر الجبرا سمجھ نہیں آرہا تو متعلقہ سوال یوٹیوب پر لکھیں‘ آپ کے سامنے اسی موضوع پر درجنوں لیکچرز آ جائیں گے۔ جس بندے کی زیادہ بہتر سمجھ آتی ہے آپ اس ویڈیو کو دیکھ لیں۔ اس وقت انٹرنیٹ پر پلے گروپ سے لے کر پی ایچ ڈی تک کا تقریباً تمام نصاب اور مضامین موجود ہیں۔ دنیا کے کسی بھی شعبے کی ایسی معلومات نہیں جو انٹرنیٹ پر موجود نہ ہوں۔ مسئلہ صرف ہماری ترجیحات کا ہے۔ آپ اپنا یوٹیوب یا گوگل اکائونٹ دیکھ لیں اور خود اندازہ لگا لیں کہ یوٹیوب یا گوگل کھولتے ہی آپ کے سامنے کون کون سی ویڈیوز آ جاتی ہیں۔ گوگل بڑی ذہانت اور خودکار طریقے سے آپ کے سامنے وہی متعلقہ چیزیں لاتا ہے جو آپ دیکھتے ہیں۔ اگر آپ صرف مزاحیہ چیزیں دیکھتے ہیں تو آپ کے یوٹیوب یا گوگل ڈیش بورڈ پر ویسا ہی مواد کھل جاتا ہے حتیٰ کہ ویب سائٹس اور موبائل ایپلی کیشنز پر اشتہار تک وہی کھلیں گے جو کچھ آپ انٹرنیٹ پر سرچ کرتے اور دیکھتے رہتے ہیں؛ چنانچہ اس وقت مسئلہ یہ نہیں کہ ہم آن لائن کیسے پڑھیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم آن لائن پڑھنا چاہتے ہی نہیں۔ ہم اس قیمتی وقت کو بہت کچھ سیکھنے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ ایسا وقت پھر کبھی نہیں آئے گا۔ اگر یہ بہت بڑی مصیبت ہے تو کئی اعتبار سے بہت سے لوگوں کے لئے نعمت بھی ہے جن کے پاس گھر میں کمپیوٹر‘ اچھے موبائل فون اور انٹرنیٹ موجود ہیں اور انہیں دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے لالے نہیں پڑے ہوئے۔ ایسے لوگوں کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ خدا نے انہیں کروڑوں لوگوں سے زیادہ اچھے حالات دئیے ہوئے ہیں۔گلے شکوے کرنے اور ناشکری سے حالات مزید خراب ہو جاتے ہیں۔ آپ کے بچے آپ کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ آپ خود اگر اس وقت کو سوشل میڈیا پر اور ٹی وی پر فلمیں وغیرہ دیکھنے کیلئے استعمال کریں گے تو بچے بھی لامحالہ وقت گزاری کا بہانہ ڈھونڈیں گے۔ بہت سے گھروں میں اسی لئے چڑچڑا پن حاوی ہو رہا ہے اور بچوں کے سکول نہ جانے اور گھر میں رہ کر وقت کو درست استعمال نہ کرنے سے نفسیاتی مسائل اور جھگڑے پیدا ہو رہے ہیں۔ ہمارا مسئلہ مگر یہ ہے کہ ہم ہر چیز حکومت پر ڈالنے کے عادی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جس طرح پولیو کے قطرے پلانے کی ٹیمیں آتی ہیں ایسی ٹیمیں آئیں اور ہمیں موبائل فون کھول کر تعلیم گھریا انٹرنیٹ کے استعمال کے دیگر بہتر طریقے سکھائیں۔ بحیثیت شہری ہم اپنے فرائض بھی حکومت پر ڈال کر بیٹھ گئے ہیں۔ اللہ نے عقل اور شعور سے اسی لئے نوازا ہے کہ ہم اس سے کام لیں اور خود بھی کچھ ہاتھ پائوں ہلا لیں۔ لاک ڈائون نجانے کتنے دن ہفتے یا ماہ اور چلتا ہے۔ ہم اگر صرف کورونا وائرس سے ہونے والی اموات اور کیسز کو دیکھتے اور گنتے رہیں گے تو وقت ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی اور بچوں کی صحت بھی برباد کرلیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ چوبیس گھنٹے کو مختلف حصوں میں تقسیم کریں۔ آٹھ نو گھنٹے سوئیں اور باقی وقت قرآن‘ حدیث‘ کتب بینی اور آن لائن تعلیم حاصل کرنے کے طریقے سے سیکھنے پر لگالیں کیونکہ آن لائن ایجوکیشن ہی اس دنیا کا مستقبل بلکہ حال ہے اور جو اس حال میں بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکا‘ وہ بہت پچھتائے گا۔