بہت سے لوگ اس بات پر حیران اور خوش ہیں کہ پوری دنیا میں کورونا کے اتنے زیادہ کیس آئے لیکن پاکستان میں ان کی تعداد بھی کم تھی اور اس سے ہونے والے جانی نقصان کی شدت بھی بہت کم تھی۔ امریکہ میں ساٹھ ہزار سے زائد افراد اب تک کورونا کے ہاتھوں دم توڑ چکے ہیں۔ برطانیہ میں یہ تعداد بائیس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسی طرح کی صورتحال دیگر ممالک میں ہے۔ پاکستان میں اس تعداد کے کم ہونے کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں جو آگے چل کر سامنے آئیں گی۔ فی الوقت تو کچھ بھی حتمی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ تمام اندازے اب تک غلط ثابت ہوئے ہیں۔ پہلے کہا جا رہا تھا کہ پچیس اپریل تک پاکستان میں کیسز کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کر جائے گی لیکن خدا کا شکر ہے یہ دس بارہ ہزار تک پہنچی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے ہاں کورونا کے ٹیسٹ اتنی تعداد میں نہیں ہو رہے جتنی تعداد میں دیگر ممالک کر رہے ہیں۔ یہاں ایک تو یہ ٹیسٹ مہنگا ہے اور دوسرا عام دستیاب بھی نہیں۔ ہر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا اور حکومت بھی ہر شہری کے ٹیسٹ نہیں کر سکتی۔کورونا کے کم کیسز اور کم ٹیسٹ ہونا خطرناک امر بھی ہے اور خوش کن بھی۔ خطرناک اس لئے کہ بظاہر تو یہ کیس کم دکھائی دے رہے ہیں لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگوں کی بڑی تعداد اس وائرس کا کیرئیر بن چکی ہو کیونکہ ایسے بہت سے لوگ دیکھنے کو مل رہے ہیں جن میں کورونا پازیٹو آیا ہے لیکن انہیں کھانسی آتی ہے نہ بخار ہوتا ہے۔ ان میں کورونا کی ایک بھی علامت نمودار نہیں ہوتی۔ ایسے لوگوں سے اگر کمزور ‘ بیمار اور بوڑھے لوگوں کو یہ وائرس منتقل ہوتا ہے تو ان کے لئے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی یہ وائرس کی ابتدا ہے۔ اس کی علامات پر ہی بحث جاری ہے علاج کا مرحلہ تو ابھی کئی ماہ دور دکھائی دیتا ہے۔ حکومت نے بھی یہی کہا ہے کہ اگر زیادہ ٹیسٹ کریں گے تو زیادہ کیس سامنے آنے کا اندیشہ ہے اور زیادہ کیس سامنے آئے تو خوف و ہراس بھی بڑھ جائے گا اور بہت سے لوگ جو کورونا کے ساتھ آرام سے وقت گزار رہے ہیں وہ نفسیاتی جنگ ہار جائیں گے اور جب انسان اندر سے ٹوٹتا ہے یا خوف کا شکار ہوتا ہے تو وہ چھوٹی سی بیماری سے بھی بہت زیادہ نقصان اٹھا لیتا ہے۔ اس کا ایک حل سیمپلنگ ہے۔ ایک علاقے کو بارہ یا سولہ حصوں میں تقسیم کریں اور ہر جگہ چار چار لوگوں کے ٹیسٹ کرنا شروع کر دیں۔ اس سے بہت زیادہ ٹیسٹ بھی نہیں کرنا پڑیں گے اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ کس کس علاقے میں کورونا کیسز کی تعداد زیادہ ہے۔ پھر جن علاقوں میں زیادہ تعداد نکلے وہاں لاک ڈائون سخت کر دیا جائے۔ اس طریقے سے ہم کچھ نہ کچھ معمول کی زندگی کی طرف واپس آ سکتے ہیں۔
دنیا پرعجیب وقت ہے۔ کبھی ایشیا کے ترقی پذیر ممالک حتیٰ کہ دنیا بھر سے لوگ امریکہ اور مغربی ممالک جانا چاہتے تھے۔ اس کے لئے وہ اپنی جان تک دائو پر لگا دیتے تھے‘ ایجنٹوں کو اپنی ماں بہن کا زیور بیچ کر پیسے دیتے اور یہ ایجنٹ انہیں ٹرکوں‘لانچوں اور اونٹوں کے ذریعے سرحدیں اور سمندر پار کراتے۔ اس دوران بہت سے افراد راستے میں ہی سمندر کی مچھلیوں کی خوراک بن جاتے یا پھر ایجنٹ خود ہی انہیں قتل کر ڈالتے۔ بہت کم جدید ممالک پہنچنے میں کامیاب ہوتے اور وہ بھی وہاں کئی سال ذلیل ہوتے اور اس کے دس بیس سال بعد جا کر سیٹ ہوتے۔پاکستان بھارت بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں چونکہ لیبر سستی ہے اس لئے دبئی‘ سعودی عرب سے لے کر یورپ تک تمام ممالک کے لئے مزدور یہیں سے جاتے اور انتہائی کم داموں پر چھوٹے موٹے کام کرنے کو بھی تیار ہو جاتے۔ آج مگر صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ قدرت نے بھی عجیب کھیل کھیلا ہے ۔ وہی ممالک جو پاکستان کو پوچھتے تک نہیں تھے آج وہاں کے باشندے پاکستان آنا چاہتے ہیں کیونکہ پاکستان میں کورونا کے کیس امریکہ اور مغرب کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ آج دیار غیر میں پھنسے پاکستانیوں کی خواہش ہے کہ اُڑ کر پاکستان پہنچ جائیں۔ یہاں اناج بھی کثرت میں ہے اور وائرس کی شدت بھی کم ہے۔ مگر یہ خواہش اب پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ تمام دنیا کے ہوائی جہاز بھی اس وقت تقریباً قرنطینہ میں ہیں اور عالمی آمدورفت تقریباً بند ہے۔ کورونا کی آفت اس لئے بھی مختلف ہے کہ یہ بیک وقت پوری دنیا میں ایک ساتھ آئی ہے۔ ہر ملک اس میں پھنسا ہوا ہے‘ تھوڑا یا زیادہ۔ پہلے کہیں زلزلہ آتا تھا یا سمندری طوفان تباہی پھیلاتا تھا تو پوری دنیا سے امداد وہاں پہنچتی تھی۔ اب مگر امریکہ سے لے کر یوگنڈا تک سارے ہی بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ کوئی کسی اور کی امداد کرے یا اپنے عوام کا خیال کرے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ اس وقت جس چیز کی اہمیت بڑھ رہی ہے وہ خوراک ہے۔ زرعی ملکوں کو اس کی اتنی فکر نہیں‘ لیکن یہ بحران زیادہ دیر چلتا ہے تو پھر سب کو جان کے لالے پڑ سکتے ہیں۔ اسی لئے میں پھر کہہ رہا ہوں کہ آج کوئی بھی کورونا کے کسی بھی پہلو پر وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ایک مہینے کے اندازے بھی غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ برطانیہ نے کہا تھا کہ ہم اگر اپنے شہریوں کی کورونا سے بیس ہزار ہلاکتوں سے کم رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ بڑی کامیابی شمار ہو گی۔ آج مگر برطانیہ میں یہ ہلاکتیں بیس ہزار سے بڑھ چکی ہیں اور مزید بڑھ رہی ہیں۔
زیادہ سے زیادہ کام جو ہم کر سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ جہاں دو روٹیاں کھاتے تھے وہاں ایک کھانی شروع کر دیں۔ جہاں سو روپے خرچتے تھے وہاں پچاس خرچیں کیونکہ دو چار ہزار لوگوں کے علاوہ کسی کے پاس بھی اتنا پیسہ نہیں کہ اگلے پانچ برس گھر بیٹھ کر مزے سے کھا پی سکیں۔پاکستان میں تو ویسے ہی زیادہ تر آبادی ناخواندہ لوگوں کی ہے۔ بیروزگاری پہلے ہی عروج پر تھی‘ برطانیہ کی سب سے بڑی کمپنی برٹش ایئرویز نے بھی بارہ ہزار ملازمین کو نکالنے کا اعلان کر دیا ہے‘ تو پھر پاکستان جیسے ممالک میں حالات کیا رخ اختیار کرسکتے ہیں‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ پاکستان میں کورونا کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کا کافی سارا اندازہ رمضان کے مہینے میں بھی ہو جائے گا۔ رمضان میں دن کے اوقات میں لوگ بہت کم باہر نکلتے ہیں کیونکہ ایک تو گرمی بڑھ رہی ہے اور دوسرا روزے میں ہر کوئی سوچ کر ہی قدم باہر نکالتا ہے۔ لوگ زیادہ تر رات کو تراویح کے لئے جاتے تھے لیکن اس پر حکومت نے عوام سے اپیل کر دی کہ وہ گھر میں پڑھیں اور اگر جائیں تو مساجد کی انتظامیہ کو کہا گیا کہ وہ بیس نکاتی ایجنڈے پر عمل کریں اور نمازی تین سے چھ فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوں۔ ایک تو کاروبار کورونا سے بند تھے اوپر سے رمضان میں پہلے ہی ہمارے مسلمان بھائی کام سے چالو رہتے ہیں اور رمضان میں روزہ رکھنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں‘ اس سے بھی کاروباری سرگرمیاں رُکی ہوئی ہیں۔ حکومت نے کنسٹرکشن کا کاروبار کھولنے کا اعلان کیا ہے لیکن رمضان میں اس کا فائدہ سامنے نہیں آئے گا۔ اصل منظر عید کے بعد واضح ہو گا۔ اس وقت تک دیہاڑی دار مزدوروں کی بھی بس ہو چکی ہو گی جو اب بھی بہت مشکل میں ہیں؛ تاہم عید کے بعد عوام کی طرف سے تمام کاروبار کھولنے کا مطالبہ زور پکڑ سکتا ہے۔ دیگر ممالک میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ کاروبار شرائط کے ساتھ کھل رہے ہیں۔ ایس او پیز اور شرائط پر ہی لوگوں کو معمول کی زندگی میں واپس آنے کی اجازت مل رہی ہیں۔ ایسا کب تک ہوتا ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن مسلمان ہونے کے ناتے ہمیں خدا سے ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ رمضان میں کثرت سے استغفار کر کے ہم نے خدا کو راضی کر لیا تو ہی ہم اس مشکل سے نکل سکتے ہیں۔ ہمیں بڑے بڑے دعوے بھی نہیں کرنے چاہئیں۔ ہم دشمن کے بچوں کو پڑھانے چلے تھے لیکن ہمارے اپنے بچے اسی طرح تعلیم سے محروم ہو رہے ہیں۔ آج ہم کورونا سے لڑنے کی بات کر رہے ہیں۔ ویسے بھی ہم نے کورونا سے لڑ کر کیا کرنا ہے کہ اور تھوڑے دشمن ہیں لڑنے کے لئے۔نہیں جناب نہیں‘ہم کورونا سے لڑ نہیں سکتے‘ ہم اس سے صرف بچ سکتے ہیں اور وہ بھی اگر خدا چاہے تو!