کوروناوبا نے ہر چیز کا رُخ ٹیکنالوجی کی جانب موڑ دیا ہے۔ جو کاروبار پہلے آن لائن موجود نہیں تھے انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے اور اب وہ بھی جلدی جلدی خود کو انٹرنیٹ سے منسلک کر رہے ہیں۔ کورونانہ آتا تو بہت سی چیزیں ایسے ہی چلتی رہتیں‘ حالانکہ جدید ممالک میں کوروناکے بغیر بھی یہ سب کچھ ہو رہا تھا اور لوگوں کو سہولت دینے کیلئے ان کا وقت‘ پٹرول اور توانائی بچانے کیلئے انہیں گھر بیٹھے سہولیات فراہم کی جاتی تھیں۔ کوروناکی وجہ سے ٹیلی میڈیسن کا رجحا ن بھی تیزی سے تقویت پا رہا ہے۔ وہ لوگ جو معمولی زکام اور بخار پر بھی ہسپتالوں کی طرف لپکتے تھے اب وہ موبائل کے ذریعے ڈاکٹر سے مشورہ کر لیتے ہیں۔کینیڈا وغیرہ میں تو پہلے بھی اگر آپ بخار کے ساتھ ہسپتال جاتے تو ڈاکٹر کہتے کہ واپس جائیں اور اگر تین دن تک بخار نہ اترے پھر آئیں ‘ تب ہم آپ کو اینٹی بائیوٹک دیں گے۔ ہمارے ہاں مگر حساب اُلٹ رہا ہے۔ یہاں بخار ابھی ہوا نہیں کہ اینٹی بائیوٹک کا پانچ سات روزہ کورس شروع کروا دیا گیا۔ ڈاکٹروں کو بھی چونکہ ان کمپنیوں سے کمیشن ملتی ہے اور مریض بھی جاتے ہی کہتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کوئی اچھی سی دوا دیں کہ بخار اتر جائے ‘تو پھر ڈاکٹر کیا کرے۔ کوروناکی وجہ سے لوگوں میں طبی حوالے سے بھی بہت شعور آیا ہے۔ چونکہ اس وقت ہسپتالوں میں جانا خطرے سے خالی نہیں اس لئے لوگ گھروں میں ٹوٹکے آزما کر اور صبر کے ساتھ چھوٹی موٹی بیماریوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ کوروناکا دوسرا فائدہ عوام کو یہ ہوا کہ انہوں نے بجلی گیس وغیرہ کے بل دینے کیلئے آن لائن ویب سائٹ اور موبائل ایپس کو استعمال کرنا شروع کر دیا وگرنہ تو لوگ جب تک ان چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے بینکوں میں جا کر قطاروں میں نہ لگتے تھے انہیں چین نہیں آتا تھا۔ پہلے بینکوں کی ویب سائٹس میں صرف چند بڑے سکولوں کی فیسیں آن لائن دی جا سکتی تھیں ‘لیکن اب مختلف آن لائن پے منٹ کمپنیوں کی وجہ سے دیگر سکول بھی مستفید ہو رہے ہیں۔اسی طرح گراسری منگوانے سے لے کر جوتوں اور کپڑوں تک سبھی کیلئے آن لائن شاپنگ کا استعمال بڑھ رہا ہے۔جدید ممالک کے عوام تو ان چیزوں کے پہلے ہی عادی تھے‘ لیکن ہم لوگوں کیلئے یہ سب نیا ہے۔اس سے مسابقت کا رجحان بڑھے گااور جو چند کمپنیاں اجارہ داری کے ذریعے استحصال کر رہی تھیں اور ویب سائٹ پر معیاری چیزیں دکھا کر گھٹیا سامان گھروں میں بھیج دیتی تھیں‘ انہیں بھی خود کو بدلنا پڑے گا۔
کوروناکی وجہ سے سرکاری طور پر بھی ٹیکنالوجی کا استعمال بہت زیادہ بڑھا ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر لاک ڈائون میں پھنسے غریب طبقے کی مالی امداد کیلئے ٹیکنالوجی کا سہارا لیا گیا۔سب سے پہلے حکومت کو ایسے افراد کے ڈیٹا کی ضرورت تھی جو غربت کی انتہائی نچلی سطح پر زندگی گزار رہے ہوں۔ وفاقی حکومت نے احساس پروگرام کے ذریعے جو ڈیٹا اکٹھا کیا وہ ان لوگوں کا تھا جو دیہاڑی دار تھے۔ یہ سب سے زیادہ مشکل کام تھا ‘کیونکہ دیہاڑی دار افراد بینک اکائونٹ بھی نہیں کھلواتے‘ گاڑیاں اور گھر بھی خریدنے کی سکت نہیں رکھتے اور بیرون ملک سفر نہیں کرتے اس لئے ان کا ٹیکس ریکارڈ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ خیبرپختونخوا نے بھی غریب طبقے کی ماہانہ مالی امداد کیلئے آن لائن درخواستیں مانگیں‘ تاکہ کاغذوں کے استعمال سے پرہیز کیا جا سکے اور کم وقت میں مربوط ڈیٹا اکٹھا ہو سکے۔ پنجاب میں کورونالاک ڈاؤن سے متاثرہ طبقے کی مالی امداد کیلئے درخواستوں کے حصول کی خاطر پنجاب آئی ٹی بورڈ نے ''انصاف امداد‘‘ کے نام سے اینڈرائڈ موبائل ایپلی کیشن وضع کی جسے 37 لاکھ سے زائدافراد نے ڈاؤن لوڈ کیا۔اس ایپ کے علاوہ آن لائن ویب پورٹل اور ایس ایم ایس نظام بھی بنایا گیا جس کے ذریعے عوام نے ضروری معلومات یعنی اپنا نام‘ شناختی کارڈ اور موبائل نمبر بھجوائے۔ اس سسٹم کے ذریعے پنجاب حکومت کو ڈیڑھ کروڑ سے زائد درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔ اس سسٹم کو استعمال کرتے ہوئے حکومت کو امداد کی تقسیم اور شفافیت میں مدد مل رہی ہے۔اسی طرح چونکہ یہ گندم کی کٹائی‘ باردانہ کی ترسیل اور آٹے کی پیسائی اور فراہمی کے دن ہیں اس لئے پنجاب میں فوڈ ڈیجیٹائزیشن پروگرام شروع کیا گیا جس کے تحت باردانہ موبائل ایپ وضع کی گئی جس کے ذریعے آٹھ اپریل سے اب تک 1 لاکھ 24 ہزار سے زائد کاشتکاروں نے باردانے کے حصول کیلئے اندراج کرا لیا ۔ایپ سے کاشتکاروں کو لاک ڈاؤن کے دوران باردانہ کے حصول کیلئے اندراج کرانے میں بہت سہولت ملی ۔ نئے نظام کے تحت اس سال پنجاب میں 6 لاکھ ٹن گندم خریدی جا چکی ہے اورکاشتکاروں کو 27 لاکھ ٹن سے زائد باردانہ جاری ہو چکا۔ اسی طرح پنجاب میں پہلی مرتبہ محکمہ خوراک کیلئے فلور لیجر مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم لانچ کیا گیا ہے‘ جس کے تحت فلور ملیں رجسٹر کی گئیں اور اسی نظام کے ذریعے 28 جنوری 2020 ء سے اب تک فلور ملز حکومت سے 19لاکھ61ہزار ٹن سے زائد گندم خرید چکی ہیں۔ ٹیکنالوجی پر مبنی اس نظام کے تحت اب فلور ملیں اور محکمہ خوراک خریدی گئی گندم‘ پیسائی اور مارکیٹ میں آٹافراہمی کا مکمل ریکارڈ دیکھ سکتے ہیں‘ اسی طرح شفافیت کیلئے پہلی مرتبہ تھرڈ پارٹی مانیٹرنگ سسٹم بھی وضع کیا گیا‘ جس کے ذریعے ضلعی انتظامیہ‘ سپیشل برانچ‘ اربن یونٹ اور محکمہ خوراک گندم کی حکومتی خرید‘ پیسائی اور مارکیٹ میں آٹا فراہمی کا مکمل ریکارڈ اینڈرائڈ موبائل ایپ اور ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔
جو بچے گھروں میں یہ سمجھ کر بیٹھ گئے تھے کہ اب پڑھائی سے چھٹی ہو گئی ‘ان کیلئے وفاقی اور پنجاب حکومت دونوں نے ٹیلی سکول اور تعلیم گھر پروگرام شروع کئے۔پنجاب میں سکولوں کے طلبا کیلئے یکم اپریل سے تعلیم گھر کیبل ٹی وی چینل‘ویب سائٹ اور موبائل ایپ لانچ کی گئی ہے ‘جن پر طلبا کو ریاضی اور سائنس مضامین کے لیکچرز دئیے جاتے ہیں۔ جو طلبا کیبل ٹی وی پر لیکچر نہیں دیکھ پاتے‘ وہ تمام ویڈیو اسباق تعلیم گھر کی ویب سائٹ اور ایپ سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں‘ کیونکہ تعلیم گھر ویب سائٹ پر ویڈیو لیکچرز کا مکمل ہفتہ وار شیڈول بھی دستیاب ہے‘ اسی طرح کوروناوائرس کی وجہ سے فاصلاتی پابندیوں اور نقل و حرکت محدود ہونے کے باعث حکومتی مشینری کو فعال اور آپس میں رابطوں کو بحال رکھنے کیلئے پنجاب کے سرکاری محکموں اور افسران کیلئے ویڈیو کانفرنسنگ کی سہولت کا دائرہ کار وسیع کیا گیا ہے‘ جس کے تحت پنجاب کے سرکاری افسران اب مخصوص سرکاری دفاتر کی بجائے کسی بھی مقام سے کسی بھی وقت اپنے کمپیوٹر‘ لیپ ٹاپ‘ موبائل یا آئی پیڈ کے ذریعے ویڈیو میٹنگز میں شرکت کر سکتے ہیں۔ اس سے فاصلاتی پابندیاں بھی برقرار رہتی ہیں‘ نظام بھی فعال رہتا ہے اور پیسوں اور وقت کی بچت کے ساتھ کوروناوبا سے بھی محفوظ رہا جا سکتا ہے‘ اسی طرح پنجاب حکومت کیلئے آئی ٹی کا ایسا نظام بھی وضع کیا گیا جس کے ذریعے کوروناوالے علاقوں پر آن لائن نظر رکھی جا سکتی ہے اور زیادہ متاثرہ جگہوں کو سمارٹ لاک ڈائون کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح وفاقی حکومت کی بھی تمام میٹنگز اب ویڈیو کانفرنسنگ پر ہو رہی ہیں حتیٰ کہ قومی اسمبلی کے اجلاس بھی لاک ڈائون کے دوران آن لائن ہی ہوا کریں گے۔ ہائیکورٹ کے مقدمات کی سماعت کیلئے بھی آن لائن ویڈیو لنک کا کامیاب تجربہ کر لیا گیا ہے اور امید ہے کہ لاک ڈائون کے بعد بھی اسے جاری رکھا جائے گا‘ کیونکہ اس سے جج صاحبان اور سائل دونوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔
یہ تو ملک کے اندر کی بات تھی ‘اب تو عالمی سطح پر بھی کانفرنسیں اور اقوام متحدہ کے اجلاس بھی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ہی ہو رہے ہیں‘ جن پر اب چند لاکھ روپے بھی خرچ نہیں آ رہا‘ جبکہ ماضی میں شرکا ہوائی جہازوں کی ٹکٹوں سے لے کر ہوٹلوں میں قیام تک ان اجلاسوں کیلئے کروڑوں اربوں روپے خرچ کر دیتے تھے ۔اب ‘یہی پیسے دیگر مثبت کاموں پر خرچ کئے جا سکتے ہیں‘ یوں کوروناکی وجہ سے عالمی اور ملکی سطح پر ٹیکنالوجی کے استعمال میں جو تیزی آئی ہے ‘اس سے دنیا یقینا بہتری کی جانب گامزن ہو گی۔