لاہور میں گزشتہ ہفتے کے دوران دو نوجوانوں نے صرف اس لئے خودکشی کر لی کہ انہیں رنج تھا‘ انہیں 'پب جی‘ ویڈیو گیم کھیلنے سے والدین نے کیوں روکا ۔ملتان روڈ کے رہائشی، 16 سالہ نوجوان نے خودکشی کا فیصلہ اس وقت کیا جب اس کے والدین نے اسے آن لائن گیم کھیلنے سے منع کیا اور اس نے اپنے آپ کو پنکھے سے لٹکا کر خودکشی کر لی۔پولیس کے مطابق خودکشی کرنے کے بعد بھی اس کے موبائل پروہی گیم چل رہی تھی۔اس واقعہ سے دو روز قبل بھی شہر کے ایک اور 20 سالہ نوجوان نے اسی گیم کی وجہ سے اپنے آپ کو پنکھے سے لٹکا کر اپنی جان لے لی تھی۔ اس وقت جب کہ لاک ڈائون چل رہا ہے مسئلہ اور بھی سنگین ہو چکا ہے کیونکہ سکولوں کالجوں کے طلبا گھروں میں ہیں۔ دس بیس فیصد کو چھوڑ کر باقی آن لائن تعلیم سے محروم ہیں اور ایسے ہی فضول کاموں میں خود کو برباد کر رہے ہیں۔
اس گیم کو 2017ء میں لانچ کیا گیا تھا۔ یہ گیم پہلے تین ماہ میں ہی اتنی مشہور ہوئی کہ اسے تین کروڑ لوگ اپنا چکے تھے۔ فی الوقت یہ سالانہ ایک ارب ڈالر سے زائد کما رہی ہے اور اسے دنیا میں پچاس کروڑ لوگ ڈائون لوڈ کر چکے ہیں۔ دنیا میں ایک وقت میں کم از کم چار کروڑ لوگ ہر وقت آن لائن ہو کر یہ گیم کھیل رہے ہوتے ہیں۔اس گیم نے ہر قسم کے معروف ایوارڈ بھی جیتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ مار دھاڑ‘ فائرنگ‘ تشدد اور قتلِ عام پر مبنی گیم ہے‘ جس میں دو سے لے کر ایک سو تک لوگ پیراشوٹ سے جنگ کے میدان میں اترتے ہیں۔ ان کا مقابلہ کسی اور سے نہیں‘ بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ ہوتا ہے۔یہ انٹرنیٹ سے منسلک ہو کر ایک گھنٹے تک ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں اور آخر میں جو شخص زندہ بچ جاتا ہے‘ وہ فاتح قرار پاتا ہے۔ یہ آن لائن نیٹ ورکنگ گیمنگ کی جدید شکل ہے‘ جس میں پلیئرز ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت بھی کر سکتے ہیں۔ گیم گیم میں ہر قسم کا جدید اسلحہ استعمال کیا گیا ہے اور آئے روز نوجوانوں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے نئے سے نئے فیچر شامل کئے جاتے ہیں۔ یہ گیم بنیادی طور پر سولہ برس سے زیادہ عمر کے بچوں کے لئے بنائی گئی ہے‘ لیکن انٹرنیٹ پر چونکہ کسی قسم کی روک نہیں لگائی جا سکتی‘اس لئے آٹھ برس کا بچہ بھی اسے کھیل رہا ہوتا ہے۔ ماہرین ِ نفسیات کے مطابق؛ اس گیم کی وجہ سے دنیا بھر میں بچوں اور نوجوانوں کی شخصیت‘ مزاج اور طبیعت میں کئی طرح کی خرابیاں نمودار ہو رہی اور پرورش پا رہی ہیں‘ جن میں چڑچڑا پن‘ ذہنی جسمانی و نفسیاتی عارضے‘ سماجی تنہائی‘جرائم کی طرف رجحان اور اسلحے کا ناجائز استعمال شامل ہیں۔ان منفی اثرات کے باعث کئی ممالک میں اس گیم پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ان میں اردن‘ عراق‘ نیپال اور بھارتی گجرات شامل ہیں۔ ایسی مار دھاڑ پر مبنی ویڈیو گیمز کی وجہ سے بچے دماغی طور پر بہت زیادہ سست ہو جاتے ہیں۔ گیم میں وہ صرف ایک دوسرے کو گولیاں مارنا سیکھتے ہیں‘ جدید سے جدید اسلحہ استعمال کرتے ہیں‘ گرنیڈ پھینکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ روزانہ کئی کئی گھنٹے مسلسل اس میں کھوئے رہتے ہیں‘ اس لئے اس کے اثرات ان کی زندگی پر بھی آتے ہیں؛ حتیٰ کہ انہیں اپنی ماں اور اپنا باپ بھی اچھا نہیں لگتا۔ ہر اس شخص سے انہیں نفرت ہو جاتی ہے‘ جو انہیں یہ گیم کھیلنے سے روکتا اور ناپسند کرتا ہے۔ چونکہ یہ گیم مفت ہے اور چوبیس گھنٹوں میں جب چاہے جتناچاہے انٹرنیٹ استعمال کر کے کھیلی جاتی ہے‘ اس لئے دیگر کام‘ مثلاً پڑھائی‘ نیند اور کھیل شدید متاثر ہوتے ہیں۔ لاک ڈائون کے دوران اس گیم کے استعمال میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ پب جی کے حوالے سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چھری کا استعمال چاہے خربوزہ کاٹنے کے لئے کر لیں یا پھر کسی کو زخمی کرنے کے لئے۔ اس کے فوائد بھی بہت زیادہ ہیں لیکن وہ سارے کے سارے ان کے لئے ہیں جنہوں نے یہ گیم ڈویلپ کی ہے۔ اس کو ایجاد کرنے والے اور اس کے ذریعے پیسہ کمانے والے تو خوش ہیں‘ وہ خود نہیں کھیلتے لیکن پوری دنیا کو اس کام پر لگا کر خود کروڑوں روپے کما رہے ہیں جبکہ بچوں کو اس کے بدلے میں کیا مل رہا ہے؟ صرف چند گھنٹوں کا لطف وہ بھی اس قدر بھیانک کہ جس کا انجام موت پر ہو؟۔ اس گیم کی وجہ سے بہت سے گھر اجڑ چکے ہیں اور بہت سے اجڑ سکتے ہیں۔ گھروں میں تلخیاں چل رہی ہیں۔ جس طالب علم کے پاس موبائل ہے اور اگر وہ اس سے فری فائر یا یہ گیم کھیل رہا ہے تو اس کا مستقبل خطرے میں ہے۔ آپ خود ہی سوچیں ایک بچہ جو اپنے ماں باپ کے بلانے پر انہیں لفٹ کرانے کو تیار نہیں‘ کھانا سامنے پڑا ہے مگر کھانے کو تیار نہیں‘ سکول کالج کا کام مکمل کرنا ہے لیکن وہ کتابوں کو ہاتھ لگانے کو تیار نہیں وہ زندگی میں آگے چل کر کیا کرے گا؟ ہر وقت گیم میں مار دھاڑ اور گولیاں مارنے سے اس کے دل میں نفرت اور غصے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جن میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایسے بہت سے بچوں میں اسلحے کے استعمال کا شوق پیدا ہوتا ہے اور وہ حقیقت میں یہ سب کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے گیم میں دیکھا ہوتا ہے۔ کوئی برا دوست ایسے میں ان کے کام آتا ہے اور وہ اصلی پستول چلا کر اپنی تشنگی پوری کرتے ہیں اور بعض اوقات اپنی ہی گولی کا خود ہی شکار ہو جاتے ہیں۔
اس مسئلے کے دو حل ہیں۔ ایک تو یہ کہ فوری طور پر ایسی تمام گیموں پر پابندی لگا دی جائے۔ پاکستان میں کوئی قومی سنسر پالیسی ہونی چاہیے جو اس طرح کے مواد کی نشاندہی پر اس کا تدارک کر سکے۔ اس گیم کے آئی پی کو بلاک کر دیا جائے جس طرح پاکستان میں یو ٹیوب کبھی بند رہی تھی تو اس سے چھٹکارا مل سکتا ہے؛ تاہم اس کے ساتھ بچوں کو کسی دوسری اچھی چیز یا متبادل کی طرف بھی مائل کرنا چاہیے کیونکہ اگر کسی بچے کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہو گاتو وہ پب جی نہیں تو کسی اور غلط کام کی طرف راغب ہو جائے گا۔ بچوں کو بتائیں کہ یوٹیوب اس وقت تمہارا سکول‘ کالج یونیورسٹی ہے۔ اس پر جو کچھ لکھو اس کے حوالے سے ویڈیوز سامنے آ جاتی ہیں‘ مثلاً بچوں کو بتائیں گھر میں اے سی خود بھی سروس کیا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں ہزاروں ویڈیوز موجود ہیں۔ انہیں دیکھیں اور کام سیکھیں‘ اس طرح پیسے بھی بچیں گے اور بچوں کو ہنر بھی آ جائے گا۔ اسی طرح سافٹ ویئر سیکھیں۔ مثلاً کورل ڈرا فوٹو شاپ وغیرہ۔ ایک طرف کورل ڈرا کھول لیں اور دوسری طرف کوئی یوٹیوب ویڈیو اور ساتھ ساتھ کوئی ڈیزائن بنانا سیکھیں ۔ اسی طرح کمپیوٹر میں وائرس آ جائے تو اسے کیسے نکالنا ہے‘ موبائل پاس ورڈ بھول جائے اسے کیسے کھولنا ہے‘ صوفوں کو داغ لگ جائے کیسے اتارنا ہے‘ گھر میں خود پینٹ کیسے کرنا ہے‘ ٹونٹی کیسے ٹھیک کرنی ہے‘ گاڑی موٹرسائیکل کی ٹیوننگ کیسے کرنی ہے‘ پاکستانی چائینز اٹالین کھانے بنانے سیکھنے ہیں‘ ریاضی اور سائنس کے مختلف اسباق کے بارے میں معلومات لینی ہے‘ کپڑے سینا سیکھنا ہے‘ پھلوں اور سبزیوں سے علاج بارے جاننا ہے‘ نیند اور بھوک کے علاج کے بارے میں دیسی ٹوٹکے دیکھنے ہیں‘ گاڑی ہیلی کاپٹر جہاز کیسے بنتے ہیں اس حوالے سے معلومات جاننی ہے‘ گھروں کی چھت بالکونی میں سبزیاں پھل کیسے اگانی ہے‘ غرض کوئی بھی کام سیکھنا یا اس بارے میں معلومات حاصل کرنی ہے اس کے لئے آپ یوٹیوب پر چند الفاظ لکھیں گے تو سینکڑوں ویڈیوز سامنے آ جائیں گی‘ مرضی کی ویڈیو کھولیں اور سیکھنا شروع کر دیں۔ یہ سب آپ بچوں کو بتائیں اور خود بھی عمل کریں۔ بچے بڑوں کو کاپی کرتے ہیں۔ آپ خود ایسا عمل کرنا شروع کردیں بچے بھی اس جانب راغب ہو جائیں گے۔ بچوں کے دوست بنیں اور ان کے ساتھ مل کر اس طرح کی ایکٹیویٹیز کریں اس طرح وہ تنہائی اور فضولیات کا شکار ہونے سے بچ جائیں گے۔ کئی ممالک میں اس پر پابندی لگ چکی ہے لیکن ہم چین کی نیند سو رہے ہیں۔حکومت ‘ پی ٹی اے اور سائبر کرائم نے فوری طور پر اس گیم پر پابندی نہ لگائی تو پب جی جیسی گیموں سے خدانخواستہ مزید گھر برباد اور بچے اور نوجوان اس کا شکار ہو جائیں گے۔