"ACH" (space) message & send to 7575

ٹیکنالوجی کی بے لگام سرحدیں

لداخ پر چین اور بھارت کے درمیان ایک جنگی تنازع جاری ہے؛ تاہم ایک جنگ ٹیکنالوجی کے میدان پر بھی لڑی جا رہی ہے اور یہ جنگ زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہے کیونکہ روایتی جنگ میں تو چند فوجی مارے جاتے یا زخمی ہوتے ہیں لیکن اس جنگ میں کروڑوں‘ اربوں افراد متاثر ہوتے ہیں۔ چین اور بھارت کی معیشت کا سائز اور ان کی آبادی دیکھیں تو دونوں ملک دنیا کی ایک چوتھائی آبادی پر مشتمل ہیں۔ چین نے لداخ پر بھارت کے کئی فوجیوں کو ٹھکانے لگایا تو بھارت نے اس کا جواب دینے کیلئے ٹیکنالوجی کو چنا اور چین کی ساٹھ کے قریب موبائل ایپلی کیشنز کو اپنے ملک میں بلاک کر دیا۔ ان ایپلی کیشنز میں بدنام زمانہ ٹک ٹاک ایپ بھی ہے جو نوجوانوں کی بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ اس میں پندرہ سیکنڈ کا ویڈیو کلپ بنانا ہوتا ہے جس میں ناظرین کو بھونڈے طریقوں سے ہنسانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان ایپلی کیشنز کے بلاک ہونے سے بھارت کو تو معاشی طور پر نقصان ہو گا ہی‘ اصل مالی نقصان چین کو ہوا ہے؛ چنانچہ چینی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت کو یہ پابندی لگانے سے پہلے ان سرمایہ کاروں کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا جنہوں نے بھارت میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ چین کے مطابق اس نے عالمی قوانین کی کوئی خلاف ورزی نہیں لیکن بھارت نے دراصل لداخ میں اپنی پسپائی کا جواب اس طریقے سے دیا ہے جو ظاہر ہے چین کے لئے بھی اچھا شگون نہیں۔ یوں دونوں کے درمیان لڑائی کئی محاذوں پر بکھر چکی ہے۔ چین بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں‘ وہاں گوگل اور یوٹیوب ممنوع ہیں۔ چین کا اپنا سرچ انجن ہے اور اس معاملے میں ہر ملک اپنی پالیسی اپنا سکتا ہے‘ اس لئے وہ بھارت کو اس اقدام کی واپسی پر مجبور نہیں کر سکتا۔ جنگوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ کبھی دوسرے کا پانی بند کیا جاتا ہے کبھی ایئرسپیس تو کبھی موبائل ایپس اور ویب سائٹس۔ یہ سب ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے جو اس وقت پوری دنیا میں کسی نہ کسی شکل میں لڑی جا رہی ہے۔ بھارت کی جانب سے بند کی جانے والی دیگر ایپس میں شیئر اِٹ‘ بیگو لائیو‘ کلب فیکٹری‘ وی چیٹ‘وائرس کلینر‘ یو سی برائوزر شامل ہیں۔ یہ ساری ایپس ایک ارب سے زائد ڈائون لوڈز رکھتی ہیں اور اس لحاظ سے اربوں کا بزنس بھی کر رہی تھیں۔ 
ہر ملک کا استحقاق ہے کہ وہ بیرونی کسی ایسی سروس یا چیز کو ممنوع قرار دے‘ جس سے اس کو خطرہ محسوس ہوتا ہو۔ ہر ملک کی اپنی قومی سنسر پالیسی ہونی چاہیے جسے عام حالات میں بھی دیکھا ‘ پرکھا جانا چاہیے۔ پاکستان جیسے مسلم ممالک میں تو ایسے مادر پدر آزاد اور بے لگام مواد پر کڑی پابندی لگائی جانی چاہیے‘ جس سے اس کے شہریوں کو کسی قسم کا اخلاقی یا معاشی خطرہ ہو۔ ابھی چند دن قبل میں نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی سے اپنے کالم میں گزارش کی کہ بدنام زمانہ پب جی ویڈیو گیم ایپ کو پاکستان میں بلاک کیا جائے کیونکہ یہ بچوں اور نوجوانوں کو بری طرح سے اخلاقی سماجی نقصان پہنچا رہی ہے۔ شکر ہے اگلے روز ہی یہ ایپ پاکستان میں بلاک کر دی گئی لیکن یہ مسئلہ صرف اس ایک گیم تک محدود نہیں ہے۔ حکومت کو اس بارے میں نیشنل ٹیکنالوجی سنسر بورڈ قائم کرنا چاہیے جو انٹرنیٹ پر ہونے والی ایسی تمام ایکٹیوٹیز کا جائزہ لے جن کا ہمارے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ کوئی تعلق ہے۔ پب جی گیم دو تین برسوں سے چل رہی ہے اور اس دوران پوری دنیا میں سینکڑوں افراد خودکشی کر چکے ہیں جس پر یہ گیم کئی جگہ بند کی جا چکی ہے۔ لاہور میں پیش آنے والی دو تین افسوسناک واقعات کے بعد پنجاب پولیس بھی متحرک ہوئی اور اسے بند کرانے کی سفارش کی۔ فی الحال اسے عارضی طور پر معطل کیا گیا ہے۔ امید ہے اس فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اسے مکمل ممنوع قرار دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ فری فائر جیسی گیموں پر بھی پابندی لگانا ہوگی جو ماردھاڑ اور اسلحے کے استعمال پر مبنی ہیں اور جن کے فائدے کم اور نقصانات بے پناہ ہیں۔ ٹک ٹاک جیسی فضولیات کو بھی بندکر دینا چاہیے کیونکہ اس میں فلاح کا کوئی پہلو ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ اگر ہے تو انتہائی معمولی۔ گزشتہ دنوں گورنر ہائوس میں معروف ٹک ٹاکرز کو بلاکر ان سے کورونا آگاہی پر ٹک ٹاکس بنوانے کی مہم شروع کی گئی جو بری طرح ناکام ہوئی۔ لوگوں نے انہیں سیریس نہیں لیاکیونکہ لوگ اسی بندے کی بات سنتے ہیں جو سنجیدہ اور مثبت شعبے سے وابستہ ہونہ کہ فضولیات میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرتا ہو۔ پب جی گیم پر پابندی پر ملک کا ایک طبقہ بے چین ہے۔ اس پر بحث جاری ہے کہ گیم میں کوئی غلط بات نہیں اوراسے بلاک نہیں کیاجانا چاہیے۔ میں ان لوگوں سے پوچھتا ہوں آج ہم کہتے ہیں ہمارے بچے کتب بینی کی طرف نہیں آتے‘ یہ ہماری ملکی اورمسلم تاریخ سے واقف نہیں اور یہ ایجادات کی طرف نہیں آ رہے تو کیا یہ درست نہیں کہ پب جی جیسی گیموں سے یہ المیہ مزید گہرا ہورہا ہے اوراگر سارا دن ساری رات نوجوان نہ ختم ہونے والی گیم کھیلتے رہیں گے تو پڑھائی کب کریں گے‘ کتب بینی کب ہو گی اور کیسے بزرگوں اوربڑوں کے ساتھ عزت سے پیش آئیں گے۔ ٹیکنالوجی کا یہ مطلب نہیں کہ جو ملک بھی جو چیز بنائے‘ دوسرا ملک اسے قبول کرلے‘ اس لئے کہ آئی ٹی کا دور ہے۔ یہ لاجک اس قسم کی گیموں اور اپیس کے بارے میں انتہائی بودی ہے کہ ہرچیز کا استعمال اس چیزکو اچھا یا برابناتا ہے۔ مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ کیا ہم بس دوسروں کی چیزیں استعمال کرنے اور خود استعمال ہونے کیلئے رہ گئے ہیں؟ اگر ہم اتنے ہی چیمپئن ہیں تو پب جی جیسی گیم بناکر اس سے اربوں خود کیوں نہیں کما لیتے۔ ایک فضول چیز کو استعمال کرنے سے ہمیں کتنے نفلوں کا ثواب ہو رہا ہے جبکہ سارا فائدہ غیرملکی ڈویلپر سمیٹ لیتے ہیں۔
مجھے آپ کوئی ایسی ایک ایپ بھی گنوادیں جو پاکستان نے بنائی ہواور بھارت‘ چین‘ کوریا یا کسی اور ملک نے اسے ایک ارب چھوڑیں ‘ دس کروڑ بھی ڈائون لوڈکیا ہو اور اس سے ہماری معیشت‘ ہماری نئی نسل کوکوئی فائدہ پہنچ رہا ہو۔ کوئی ایک لیپ ٹاپ کوئی موبائل ہم نے ایسا بنایا ہوجو عالمی سطح حتیٰ کہ ملکی سطح پر ہی مشہور ہوا ہو؟ کوئی سافٹ ویئر ایسا بنایا ہو جس کیلئے پوری دنیا ہماری معترف ہو گئی ہو‘ کوئی سرچ انجن بنایا ہوجو گوگل اوریاہو کا متبادل بن سکے۔ آخر کوئی توچیز ہم نے ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایسی بنائی ہو جس سے ہم مالی فائدہ اٹھا رہے ہوں اور عالمی سطح پر اسے استعمال کیا جا رہا ہو۔ جب ہم یہ سب نہیں کرسکتے تو پھر ٹک ٹاک اور پب جی جیسی گیموں کا دفاع کیوں کرتے ہیں جن کا ایک ٹکے کا بھی ہمیں فائدہ نہیں۔ معیشت ہماری ہمیشہ آئی سی یو میں رہتی ہے‘ قرضوں کے بوجھ تلے ہم دبے ہیں‘ ادارے ہمارے بحرانوں کا شکار ہیں‘ مسائل ہم سے کنٹرول نہیں ہوتے‘ اوپر سے ہم اپنی نوجوان نسل‘ جو کل آبادی کا باسٹھ فیصد ہے‘ کو ایک ایسے نشے پر لگے دیکھنا چاہتے ہیں جس کاانجام وقت کے ضیاع‘ اخلاقی اور روحانی بربادی کے سوا کچھ نہیں؟ ہمیں بھارت سے ہی سیکھ لینا چاہیے‘ چاہے اس نے چین سے بدلے کیلئے یہ اقدام کیا‘ کچھ کیا تو ہے۔ ہمیں بھی بطور مسلم اور ترقی پذیر ملک اپنی پالیسی خود بنانی چاہیے۔ آج سرحدوں کے ذریعے سے سمگلنگ انتہائی مشکل ہو چکی لیکن انٹرنیٹ کی سرحدیں تو چوبیس گھنٹے ہر ایک کیلئے کھلی ہیں اورانہی راستوں سے ہماری نوجوان نسل اور بچوں کو بے کار چیزوں میں الجھا کر ان کی صلاحیتوں کو ضائع کیا جا رہا ہے۔ براہ کرم آئی ٹی کی وفاقی وزارت‘ سائبر ونگ‘ عدالتیں اور حکومتی ادارے اس کا نوٹس لیں اور ٹیکنالوجی کی اس سرحد پر جہاں جہاں سے ہماری نوجوان نسل اور بچوں پر جو وار کیا جا رہا ہے اس کاجائزہ لے کر ایک رپورٹ بناکر ایک پالیسی ترتیب دیں‘ جس کے تحت قوم کے ان سپوتوں کی اخلاقی اور جسمانی نشوونما کو نقصان پہنچانے والے عوامل کا قلع قمع کیا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں