دنیا کورونا سے زیادہ بڑے وائرس کی زد میں ہے اور اس وائرس کا نام ای سپورٹس ہے۔ ویڈیو گیم پر اگر دو یا دو سے زیادہ افراد ہونقوں کی طرح آن لائن ہو کر آپس میں مقابلہ کر رہے ہوں تو سمجھ لیں کہ ای سپورٹس کھیلی جا رہی ہے۔ کورونا کو تشریف لائے تو چھ ماہ کا عرصہ ہوا ہے لیکن ای سپورٹس کی بیماری کو آئے دہائیاں ہو چکی ہیں۔ دنیا میں پہلا آن لائن ویڈیو گیم مقابلہ 1972ء میں سپیس وار گیم کے ذریعے سٹینفورڈ یونیورسٹی میں ہوا تھا۔ 1980 میں دوسرا بڑا مقابلہ ہوا جس میں دس ہزار پلیئر شریک ہوئے۔ آہستہ آہستہ اخبارات نے ان ویڈیو گیم ٹورنامنٹس کے بارے میں خبریں‘ تجزیے شائع کرنے شروع کر دئیے‘ جس سے ای سپورٹس نامی اس کلچر کو مزید فروغ ملا۔ مختلف ممالک میں آن لائن ویڈیو گیمنگ کے گروپ بننا شروع ہو گئے اور ان گروپس نے مقابلے بھی شروع کرا دئیے۔ ہر ملک سے بہترین ای کھلاڑی ان مقابلوں میں حصہ لیتے اور لاکھوں ڈالر کے انعام جیتتے۔ یہ ای سپورٹس وائرس 2000ء تک آہستگی کے ساتھ دنیا بھر کے بچوں اور نوجوانوں میں سرایت کر رہا تھا لیکن اس میں تیزی دو ہزار دس کے بعد آئی جب فور جی انٹرنیٹ عام ہوا اور ساتھ ہی اینڈرائڈ موبائل فون مارکیٹ اور عوام کی دسترس میں آ گئے۔ ای سپورٹس میں جو آن لائن گیمیں کھیلی جاتی ہیں ان میں اکثریت مار دھاڑ اور لڑائی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ آہستہ آہستہ ان میں سٹہ بازی بھی شامل ہو گئی اور مختلف مقابلوں پر اربوں روپے کا سٹہ بھی لگتا۔ ایشیا اس میں سب سے آگے تھا۔ چین‘ ہانگ کانگ‘ انڈونیشیا سمیت درجنوں ممالک میں ای سپورٹس ایک لازمی جزو بن گیا‘ اور ای سپورٹس سے متعلقہ تنظیموں نے حکومتوں پر اپنا اثرورسوخ ڈال کر اسے قومی معیشت کے ساتھ لازم و ملزوم کردیا۔ ای سپورٹس گروپ آہستہ آہستہ ایک بلیک میلنگ گروپ کی شکل اختیار کرگیا۔ اس نے ہرملک کی انٹرنیٹ کمپنیوں‘ کمپیوٹر اور موبائل فون کمپنیوں‘ قومی سائبر دیگر اداروں اور حکومتی شخصیات کے ساتھ گہرے تعلقات وضع کر لئے۔ چونکہ یہ اربوں ڈالر کا بزنس بن چکا تھا اور اس میں دنیا کے بڑے سٹہ باز بھی شامل ہو چکے تھے‘ اس لئے کسی ملک میں اگر ای سپورٹس سے متعلقہ سرگرمی کو کوئی گزند پہنچتا‘ کوئی ویڈیو گیم بند کی جاتی‘ انٹرنیٹ میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی تو ای سپورٹس اور زیر زمین سٹہ مافیا فوری متحرک ہو جاتا اور اس ملک کی متعلقہ سرکاری اور نجی طاقتوں اور اداروں پر دبائو ڈال کر اپنا مسئلہ حل کروا لیتا۔
آج کل آن لائن ویڈیو گیم پب جی کا بڑا چرچا ہے۔ یہ گیم 2017ء میں لانچ ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ای سپورٹس میں شامل صف اول کی گیم بن گئی۔ پاکستان میں یہ گیم چند دنوں سے معطل ہے اور اس کی وجہ والدین کی شکایات اور چند خودکشیاں ہیں۔ لاہور پولیس کے اعلیٰ ترین افسر کیس میں مدعی بنے اور پی ٹی اے کو یہ گیم بند کرنے کی استدعا کی۔ جو لوگ اس گیم کی بحالی کے حق میں ہیں ان کیلئے یہاں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ کیا ای سپورٹس کو عام سپورٹس کے برابر اہمیت دی جا سکتی ہے۔ اگر آپ فٹ بال کھیلتے ہیں‘ تیراکی کے مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں‘ بیڈمنٹن کھیلتے ہیں یا اس طرح کی کوئی اور جسمانی ورزش پر مبنی ایکٹیوٹی کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف کھلاڑی کے دماغ میں اچھے ہارمون پیدا ہوتے ہیں بلکہ آپ کی طبیعت ہشاش بشاش رہتی ہے اور بیماریوں سے بھی نجات ملتی ہے لیکن ای سپورٹس سے سوائے چند گھنٹوں کے ذہنی مزے کے کیا ملتا ہے؟ جسمانی کھیلوں میں بھی کئی درجے ہیں۔ تیراکی اور فٹ بال دو ایسے کھیل ہیں جن میں سب سے زیادہ توانائی خرچ ہوتی ہے‘ جس کے نتیجے میں کھلاڑی سخت جان اور چاق و چوبند ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد جمناسٹک‘ لانگ جمپ وغیرہ ہیں جن میں چین‘ کوریا اور جاپان جیسے ملک سبقت رکھتے ہیں۔ کم توانائی والی کھیلوں میں ٹیبل ٹینس‘ کرکٹ‘ سکواش وغیرہ شامل ہیں جبکہ کچھ گیمیں ایسی ہیں جن میں جسمانی مشقت انتہائی کم ہے لیکن اس میں دماغ اور آنکھو ں کا استعمال زیادہ معنی رکھتا ہے‘ جیسے سنوکر‘ کیرم بورڈ‘ شطرنج۔ یہ تمام کھیلیں ایسی ہیں جنہیں ہر ملک میں کھیلا جاتا ہے اوران کے قومی اور عالمی مقابلے بھی ہوتے ہیں۔ سنوکر‘ شطرنج اور کیرم بورڈ کو چھوڑ کر دیگر تمام کھیل ایسے ہیں جن کو کھیلنے پرتمام والدین اپنے بچوں کو شاباش دیتے ہیں کیونکہ ان کھیلوں سے بچوں اور نوجوانوں کی بہترین نشوونما ہوتی ہے اور وہ عملی زندگی میں کامیاب اور خوش و خرم زندگی گزارتے ہیں۔ ان کھیلوں کو دیکھنے والے شائقین بھی ہرعمر سے تعلق رکھتے ہیں‘ اوراگر کسی ایک ملک میں کوئی عالمی مقابلہ ہورہا ہے تو پوری دنیا سے اربوں لوگ اس مقابلے کو شوق سے دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف ای سپورٹس وائرس ہے۔ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ یہ انسان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما پر منفی اثر ڈالتا ہے اور اس سے والدین‘ معاشرے اور خود کھیلنے والے کیلئے پیچیدہ مسائل جنم لیتے ہیں‘ جن کا اسے جب پتہ چلتا ہے تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کا معیشت کوبھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ درست ہے کہ ای سپورٹس سے پیسہ آتا ہے لیکن اس پیسے کی بچوں اور نوجوان نسل کو کتنی بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اس بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔ اصل اور سب سے زیادہ مالی فائدہ اس کے ڈویلپر یا مالک کو ہوتا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس سال مئی کے مہینے میں پب جی نے کمائی کا ریکارڈ توڑ دیا اور صرف ایک مہینے میں دنیا بھر سے بائیس کروڑ ڈالر کمائے۔ یہ رقم گزشتہ برس مئی کی آمدنی سے چالیس فیصد زائد تھی اور اس کی وجہ وہ لاک ڈائون تھا جس میں بچے‘ بڑے‘ نوجوان گھروں میں رہنے کے باعث اس گیم سے چپکے رہے۔ گیم کا نشہ ایسا ہے کہ باپ پانی کے گلاس کیلئے آوازیں دیتا رہتا ہے‘ ماں سردرد سے چکرا کرگر پڑتی ہے‘ بیل بج رہی ہوتی ہے‘ لیکن گیم کھیلنے والے نوجوان کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی اور وہ کسی بات پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ یہ اس ای سپورٹس کی اصل شکل اور حقیقت ہے جس کا نشانہ اب پاکستان جیسے ممالک بن رہے ہیں‘ جہاں خاندانی نظام تک اس گیم کے باعث خطرے میں پڑ چکا ہے۔ گیم بنانے والے آئے دن کھیلنے والوں کے لئے مزید دلچسپ اور مالی فوائد متعارف کرواتے رہتے ہیں تاکہ گیم سے دھیان اِدھر اُدھر نہ ہواور اعتراض کرنے والوں کا یہ گلہ بھی دُور ہوجائے کہ گیم کھیلنے سے ملتاکچھ نہیں ہے۔ پاکستان کے پانچ چھ پب جی پلیئر ایسے ہیں جو ماہانہ دس سے بیس لاکھ روپے صرف گیم کھیل کر کما رہے ہیں اور یہ چیز نئے گیمرز اور نوجوانوں کو اس طرف کھینچ لاتی ہے لیکن صرف پانچ سات فیصد ہی اس سے کما پاتے ہیں باقی صرف وقت اور اپنی جوانی ضائع کررہے ہیں۔ نہ انہیں دن کا پتہ ہے نہ رات کا۔ اگر گیم کا مقابلہ کسی ملک میں دن کو شرو ع ہوتا ہے تو پاکستان میں رات کے دو بج رہے ہوتے ہیں چنانچہ ای سپورٹس پلیئر رات کو جاگتے اور دن کو سوتے ہیں۔ رہا یہ سوال کہ جن ممالک میں یہ گیمیں کھیلی جاتی ہیں ان کوکیا مالی فائدہ ہوتا ہے توبھائی رقم بھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ ای سپورٹس وائرس پر مبنی سٹہ مافیا بہت زیادہ طاقتور ہو چکا ہے اس لئے یہ ای سپورٹس کو باقاعدہ سپورٹس کا درجہ ثابت کرنے کیلئے متحرک رہتا ہے تاکہ اس کی آڑ میں اپنا مکروہ دھندا چلاسکے۔ یہ عالمی مافیا اس وقت پاکستان میں پب جی کے معطل ہونے اور اپنے پیٹ پر لات پڑنے پر سراپا احتجاج ہے‘ چونکہ یہ مالی طور پر ہماری سوچ سے بھی زیادہ مستحکم ہے‘ یہ ایک دن کے کروڑوں اربوں روپے کماتا ہے‘ اس لئے پاکستان جیسے ممالک میں اپنی بات منوانا اور اپنا راستہ صاف کرنا اس کیلئے چنداں مشکل نہ ہوگا۔