کورونا وبا سے ایک بڑا سبق یہ ملا کہ اب ٹیکنالوجی کو ہر شعبے میں اپنانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے ہم دنیا سے پہلے ہی بہت پیچھے ہیں لیکن اب مزید وقت ضائع کرنا ممکن نہیں۔ اب کاغذوں‘ فائلوں اور بینکوں اور سرکاری محکموں و دفاتر میں جا کر درخواستیں دینے اور بل وغیرہ جمع کرانے کا دور نہیں ہے۔ یہ دور کمپیوٹر کا بھی نہیں بلکہ موبائل کا ہے۔ اب تو ای میل کا استعمال بھی کم ہوچکا اور اس کی جگہ وٹس ایپ نے لے لی ہے۔ تیزی سے بدلتے دور میں ہمیں بھی دیکھنا ہو گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں‘ ہماری ڈیجیٹل پالیسی کیا ہے اور ہم کن شعبوں کو ٹیکنالوجی سے لیس کر سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کو اپنانے سے صرف وقت کی بچت نہیں ہوتی بلکہ ہر چیز ریکارڈ پر آ جاتی ہے اور کرپشن‘ سفارش اور پیسوں کے ضیاع سے بھی نجات ملتی ہے۔ بہرحال پاکستان ٹیکنالوجی کو اپنانے میں اگر بہت آگے نہیں تو بہت پیچھے بھی نہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد چونکہ صوبوں کو بہت زیادہ اختیارات حاصل ہو چکے ہیں اس لئے تمام صوبے اپنے اپنے انداز اور رفتار سے سرکاری محکموں کو ٹیکنالوجی سے جوڑ رہے ہیں تاکہ نہ صرف دفتری نظام میں شفافیت پیدا ہو بلکہ عوام کو گھر بیٹھے ریلیف اور سہولت بھی مل سکے۔
پاکستان کے چار بڑے صوبے ہیں لیکن جدید دور کے تقاضے اپنانے میں پنجاب پہلے نمبر پر دکھائی دیتا ہے۔ اس کی وجہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وہ جدید منصوبے ہیں جو گزشتہ چند برسوںمیں تیزی سے یہاں اپنائے گئے بعدازاں جن کی تقلید دیگر صوبوں نے بھی کی۔ گزشتہ دو برسوں میں یہاں تعلیم‘صحت‘ امن و امان اور دیگر شعبوں میں بہت تیزی دکھائی دی ہے۔ موجودہ حکومت کی سپورٹ میں چونکہ نوجوانوں کا بڑا اہم کردار رہا ہے اور نوجوان ہی ٹیکنالوجی کو بآسانی سمجھ بھی سکتے ہیں اس لئے حکومت بھی نوجوانوں کو آئی ٹی کے میدان میں آگے بڑھنے اور سہولیات کو ڈیجیٹل انداز میںمنتقل کرنے پر زور دیتی دکھائی دیتی ہے۔بہت سے ایسے شعبے ایسے ہیں جن کو آن لائن کرنے سے عوام کے نہ صرف مسائل حل ہوئے بلکہ انہیں کرپشن اور سفارش سے بھی نجات ملی۔گندم کی پیداوار کے بعد کاشتکاروں کو باردانے کے حصول کے لئے ماضی میں لمبی قطاروں میں لگنا پڑتا تھا‘ کسی کو باردانہ کم کسی کو زیادہ ملتا تھا۔ اس بار مگر باردانہ کے حصول کے لئے باردانہ موبائل ایپ بنائی گئی جس کے تحت ہزاروں کاشتکاروں نے آن لائن اپلائی کیا اور بغیر کسی انتظار یا قطار کے جا کر وصول کر لیا۔ کورونا کے دنوں میں انصاف امداد پروگرام شروع کیا گیا جس میں مستحقین کو آن لائن اندراج کی سہولت ملی اور وہ گھر بیٹھے امداد کی رقم کے حصول کے قابل ہوئے۔ اسی طرح وہ نوے لاکھ پاکستانی جو بیرون ملک مقیم ہیں‘ انہیں مختلف سہولیات کے حصول کیلئے طویل انتظار کا سامنا کرنا پڑتا تھا‘ ان کیلئے ان کے ممالک میں پولیس خدمت مرکز گلوبل کے ذریعے چھ سہولیات کا اجرا ہوا جن میں کریکٹر سرٹیفکیٹ ‘ایف آئی آر کی کاپی وغیرہ کا حصول مہینوں کی بجائے دنوں میں ممکن ہونے لگا۔ ایک اور انتہائی اہم کام جو ان دو برسوں میں ہوا‘ وہ ای پے اور ویب پورٹل کا اجرا تھا۔ اس ایپ نے لاکھوں شہریوں کی زندگی آسان کر دی۔ اس ایپ میں چھ محکموں کے چودہ ٹیکس اور حکومتی ادائیگیاں گھر بیٹھے کی جا سکتی ہیں۔ گزشتہ ماہ جولائی میں لاک ڈائون کے دوران تو ای پے پر پانچ لاکھ سے زائد ٹرانزیکشنز ہوئیں اور حکومتی خزانے میں پونے دو ارب سے زائد محصولات جمع ہوئیں۔ اسی ایپ کے ذریعے عوام ٹوکن ٹیکس بھی ادا کر سکتے ہیں۔پہلے لوگوں کو گاڑیوں کے ٹوکن ٹیکس کی ادائیگی کیلئے ڈاک خانے یا متعلقہ ایکسائز دفاتر جانا پڑتا تھا لیکن اب وہ یہ کام موبائل یا کمپیوٹر سے کر سکتے ہیں۔ شہریوں کو چالان کے حوالے سے بڑی دِقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ خود ایک سال قبل میرا بھی ایک دو مرتبہ چالان ہوا تو اس کی ادائیگی اور پھر کاغذات کا حصول ایک عذاب سے کم نہ تھا۔ ایک دو ماہ قبل مگر خوش خبری ملی کہ لاہور میں چالان کی ادائیگی موقع پر موبائل سے بھی کی جا سکتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آپ فوری ادائیگی کر دیتے ہیں تو نہ صرف آ پ مخصوص بینک کی قطاروں میں لگنے سے بچ جاتے ہیں بلکہ آپ کو وارڈن سے کاغذات بھی وہیں واپس مل جاتے ہیں۔یہ سروس لاہور کے بعد دیگر شہروں میں بھی شروع کی جا چکی ہے۔ راولپنڈی میں تو لائسنس بنوانے کیلئے فائلیں لانے کا جھنجٹ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ بس آپ اپنا شناختی کارڈ اور فیس ساتھ لے جائیں آپ کا ڈیٹا ایک ہی کمپیوٹر میں داخل کر کے چند دن میں لائسنس مل جائے گا۔ٹیکنالوجی کا فائدہ صرف عام لوگوں کو ہی نہیں بلکہ سرکاری اساتذہ کو بھی ہوا۔ ہمارے صوبے میں چار لاکھ سے زائد سرکاری اساتذہ ہیں جنہیں ٹرانسفر پوسٹنگ کیلئے پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا ‘ ان کیلئے ای ٹرانسفر ایپ وضع کی گئی۔ اس ایپ کے تحت ایسے اصول وضع کئے گئے جس کے ذریعے بغیر کسی سفارش میرٹ پر استاد دوسرے سکول میں ٹرانسفر ہو سکتا ہے۔ یوں پہلے اساتذہ کو جس کام کے لئے برسوں انتظار کرنا پڑتا تھا یا رشوت دینا پڑتی تھی وہ کام خودکار انداز میں ہونے لگا۔ ٹیکنالوجی کے کرشمے اساتذہ تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ تعمیرات کرنے والے شہری بھی اس سے محظوظ ہوئے۔ گزشتہ دنوں کنسٹرکشن انڈسٹری کے لئے پیکیج کا اعلان کیا گیا اور تعمیراتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے سرخ فیتے سے نجات کی خاطر ون ونڈو سروس شروع کی گئی جس کے تحت صوبے کے خدمت مراکز میں کوئی بھی شہری اپنے گھر کے نقشہ کی منظوری یا تکمیل کے سرٹیفکیٹ کے لئے اپلائی کر سکتا ہے۔ اسے مختلف محکموں کے دفاتر جا کر دھکے کھانے پڑیں گے نہ ہی جگہ جگہ رشوت دینے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ یہ اس لئے بہت بڑا کام تھا کہ گھر بنانے کیلئے سب سے مشکل مرحلہ ہی نقشے کی منظوری ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ گھر اس وجہ سے بنانے سے گریز کرتے ہیں کہ اس میں محکموں کے بہت زیادہ چکر لگانا پڑتے ہیں ۔ اس اقدام سے تعمیراتی سرگرمیوں میں بہت زیادہ تیزی آنے کا امکان ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایسے ہی بہت سے منصوبے سندھ ‘بلوچستان اور خیبرپختونخوامیں بھی شروع کئے گئے حتیٰ کہ دبئی میں پولیس کے سکیورٹی نظام کو جدید بنانے اور نائیجیریا میں حج کے انتظامات کو آن لائن کرنے میں بھی ان سے مدد لی گئی۔
ٹیکنالوجی کی اصل اصلاحات وہی ہوتی ہیں جن کا براہ راست اور فوری فائدہ عوام کو پہنچے۔ اب ہر چیز موبائل فون کی انگلیوں کی پہنچ میں ہے۔ میں نے گزشتہ دو برس میں ہونے والی ڈیجیٹل اصلاحات کی چند مثالیں آپ کے سامنے رکھی ہیں۔ درجنوں اور کام اور منصوبے بھی وضع ہوئے ہیں جن کی وجہ سے عوام کو اب چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے سرکاری دفاتر یا بینکوں کے دھکے نہیں کھاناپڑیں گے۔ عوام حکومتوں کو ووٹ اسی لئے دیتے ہیں کہ وہ ان کی فلاح کے لئے کام کریں۔ ریاست کو فلاحی ریاست بنائیں جبکہ آج کل تو فلاحی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل ریاست بنانا بھی لازمی ہو چکا ہے۔ کورونا کی وجہ سے لوگوں کی جہاں قوت خرید کم ہو رہی ہے وہاں چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے فاصلے طے کرنا اور وقت ضائع کرنا بھی ممکن نہیں رہا‘ یہاں نجی سکولوں کے اندراج سے لے کر پراپرٹی ٹیکسوں کی ادائیگی تک تمام معاملات آن لائن ہو چکے ہیں‘ شہریوں کو بھی دفاتر میں جانے کے بجائے تھوڑی زحمت کر کے انٹرنیٹ سے معلومات لے لینی چاہئیں یا پھر کسی دوسرے شہری سے معلوم کر لینا چاہیے تاکہ ٹیکنالوجی کے کرشمے سے فائدہ اٹھا کر اپنا اور دوسروں کا قیمتی وقت اور پیسہ بچایا جا سکے۔