صحت کی نعمت کیا ہے اور برطانیہ میںکس طرح انسانی جان کی قدر کی جاتی ہے‘ اس کا اندازہ سلویٰ حسین کی کہانی سے لگا لیجئے۔ انتالیس سالہ برطانوی خاتون سلویٰ حسین کو دو سال قبل ہارٹ اٹیک ہوا اور اس کا دل ناکارہ ہو گیا۔ وہ اُس وقت گھر میں اکیلی تھی۔اس نے ہمت کی اور خود ہی گاڑی میں بیٹھ کر اپنے فیملی ڈاکٹر کے پاس پہنچ گئی۔ وہاں سے اسے مقامی ہسپتال منتقل کیا گیا۔ جہاں چار دن تک اس کا علاج جاری رہا لیکن دل کے ناکارہ ہونے پر اسے وہاں سے ہیئر فیلڈ ہاسپٹل بھیج دیا گیا۔ہیئر فیلڈ ہاسپٹل میں ڈاکٹروں نے اس کا انتہائی نایاب آپریشن کیا اور اس کے سینے میں ''پاور پلاسٹک چیمبرز‘‘ لگا دیے جن سے دو پائپ باہر نکلتے ہیں اور باہر موجود ایک پمپ سے منسلک ہوتے ہیں۔یہ پمپ بیٹریوں کے ذریعے چلنے والی ایک موٹر سے چلتا ہے اور ان چیمبرز کو ہوا فراہم کرتا ہے۔اس ہوا کے ذریعے چیمبرز دل کی طرح کام کرتے اور پورے جسم کو خون فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے چیمبر خاتون کے سینے کے اندر جبکہ پمپ، موٹر اور بیٹریاں باہر ہیں۔ یہ تینوں چیزیں سلویٰ ایک بیگ میں ڈالے اپنے ساتھ اٹھائے رکھتی ہے۔ ان کا وزن لگ بھگ 7کلوگرام ہے اور اس ڈیوائس کی قیمت تقریباً دو کروڑ روپے ہے۔یہ خبر ہمارے لئے حیران کن بھی ہے‘ سائنس کا کرشمہ بھی اور ایک عجوبہ بھی۔ دنیا میں اس وقت سات ارب سے زائد انسان آباد ہیں۔ ان میں سے دو افراد ایسے ہیں جن کا دل ان کے جسم سے باہر ہے۔ سلویٰ ان میں سے ایک ہے۔ اس سے قبل دو ہزار گیارہ میں ایک شخص کا ایسا ہی آپریشن ہو چکا ہے اور وہ بھی اپنا دل بیگ میں اٹھا کر گھومتا پھرتا ہے۔
سلویٰ کی کہانی چکوال کے قریب ایک گائوں کے نصیر احمد کے بیٹے سے بالکل مختلف ہے۔ عدنان نے عام بچوں کی نسبت بہت دیر سے چلنا سیکھا‘ یہ خوراک بھی بہت کم کھاتا اور کسی چیز میں دلچسپی بھی نہیں لیتا تھا‘ یہ اتنا کمزور تھا کہ چلتے چلتے گر جاتا‘ والدین اسے گائوں کے ڈاکٹر کے پاس لے گئے ‘ ڈاکٹر کو جو سمجھ آیا‘ اس کے مطابق علاج کیا مگر افاقہ نہ ہوا‘نصیر اسے لے کر کراچی آ یا‘ یہاں علم ہوا عدنان پیدائشی دل کا مریض ہے‘ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کتنی بڑی آزمائش میں گرفتار ہو چکا ہے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ بچے کا آپریشن ہو گا اور اس پر لاکھوں خرچ آئے گا۔ یہ سن کر اس نے بچے کو کاندھے پر اٹھایا اور واپس آ گیا‘ دن گزرتے رہے۔ عدنان کا وزن محض پچیس کلو رہ گیا‘ اس کے ناخن نیلے پڑنے لگے اور آنکھوں کے گرد حلقوں کی سیاہی کا دائرہ رخساروں کو چھونے لگا۔کسی کے کہنے پر وہ اسے لاہور کے دل کے بڑے سرکاری ہسپتال میں لے گیا جہاں بچوں کے معالج نے چیک اپ کے بعد ٹیسٹ لکھ دیے‘ یہ ٹیسٹ پانچ ہزار کے تھے‘ یہ لوگ جو یہ سوچ کر آئے تھے کہ یہاں سستا یا مفت علاج ہوتا ہے‘ ایک مرتبہ پھر مشکل میں پڑ گئے‘ انہوں نے رحم کی درخواست کی تو جواب ملا مفت علاج کرانا ہے تو قطار میں لگ جائو دو تین مہینوں میں باری آ جائے گی‘ مجبوراً کہیں سے پیسے پکڑ کر ٹیسٹ کرائے‘ معلوم ہوا عدنان کے دل کے دو والو بند ہیں اور اس کے دل کی صاف اور گندے خون کی نالیاں بھی آپس میں جڑی ہوئی ہیں‘ اس کا فوری آپریشن ہو گا تو بچے گا وگرنہ یہ دو تین برس سے زیادہ نہیں جی پائے گا۔یہ سن کر سب اِدھر اُدھر بھاگے ۔ان کی قسمت اچھی تھی۔ ایک دوست نے انہیں کسی مخیر شخص سے ملوا دیا جس نے نجی طور پر بچے کا آپریشن کروا دیا اور یوں وہ بچہ موت کے منہ میں جانے سے بچ گیا۔
کبھی کبھی سوچتا ہوںیہ مخیر حضرات‘ یہ خیراتی ہسپتال اور چند فرشتہ صفت انسان نہ ہوں تو نصیر احمد جیسے لوگ کہاں جائیں۔ یہ کیاکریں۔ یہ تو صرف ایک کہانی ہے جس میں بچے کی قسمت اچھی تھی۔ آپ کسی بھی سرکاری ہسپتال چلے جائیں‘ وہاں روزانہ نجانے ایسی کتنی کہانیاں ہوں گی۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو خیبرپختونخوا سے بچوں کو کاندھے پر اٹھاتے ہیں اور اپنے بچوں کے علاج کے لئے لاہور ‘ کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ ان کے پاس بمشکل اتنے پیسے ہوتے ہیں کہ وہ کسی طرح ہسپتال پہنچ جائیں۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج مفت ہوتا ہے ٹیسٹ اور دیگر سہولتیں بھی میسر ہوتی ہیں۔ بہت سے لوگ توہسپتال تک پہنچنے کا کرایہ بھی افورڈ نہیں کر پاتے اور وہ بھی اُدھار مانگ کر لیتے ہیں۔ ہسپتال پہنچنے کے بعد ان کے ساتھ جو ہوتا ہے‘ سو ہوتا ہے ان کے رہائش اور دیگر اخراجات ہی انہیں جینے نہیں دیتے۔ ہسپتال کی راہداریوں یا صحن میں یہ کپڑا لپیٹ کر راتیں گزارتے ہیں۔ ناشتہ‘ کھانا کس عیاشی کا نام ہے‘ یہ انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا۔ اور ان مسائل سے گزرتے ہوئے جب انہیں علم ہوتا ہے کہ آج تو ڈاکٹروں‘ نرسوں یا دیگر عملے نے ہڑتال کی ہوئی ہے تو ان کا حال دیدنی ہوتا ہے۔ پاکستان میں دل کے آپریشن کے لئے بہت کم ماہر ڈاکٹر ہیں اور بچوں کے تو پانچ دس سے زیادہ نہ ہوں گے جبکہ ہر سال صرف دل کے سوراخ کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور یہ بچے جب سرکاری ہسپتالوں میں آپریشن کے لئے لائے جاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے پہلے ہی کئی ہزار بچے ویٹنگ پر ہیں۔ جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ ان کی باری چار سال بعد آئے گی تو وہ خدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ کوئی معجزہ بپا کر دے کہ ان کا بیٹا کم از کم آپریشن کی تاریخ تک زندہ رہ جائے۔ بچوں کے دل کے ماہر سرجنز پر کام کا دبائو اتنا زیادہ ہے کہ وہ روزانہ بیس گھنٹے مسلسل آپریشن کرتے رہیں تب بھی ہزاروں بچوں کو کئی سال انتظار میں گزارنا پڑیں۔
معلوم نہیں‘ہم کب تک برطانیہ‘ امریکہ اور جرمنی جیسے ملکوں کی مثالیں دے کر اپنے دل کو تسلیاں دیتے رہیں گے کہ شاید یہاں بھی کوئی ایسا نظام بن جائے کہ سلویٰ حسین کی طرح کوئی دل کا مریض ہسپتال جائے تو اس کا پیچیدہ ترین علاج بروقت شروع ہو جائے۔ وی آئی پی مریض کے ساتھ ساتھ ایک عام شہری کو علاج کی ایک جیسی سہولتیں ملنا ایک ایسا خواب ہے جسے دیکھنا شاید پاکستان جیسے ملکوں میں باعث تعجب خیال کیا جاتا ہے۔آپ حیران ہوں گے کہ پاکستان میں ہر سو میں ایک بچہ دل کے نقص کے ساتھ پیدا ہوتا ہے‘ یہ نقص کئی قسم کے ہوتے ہیں‘ ان بچوں کے دل میں سوراخ ہوتا ہے‘ ان کا دل مکمل نہیں ہوتا‘ دل کا ایک حصہ مکمل دوسرا نا مکمل ہوتا ہے‘دل کے والو مکمل بند یا تنگ ہوتے ہیں‘دل کی شریانیں الٹی لگی ہوتی ہیں یا دل بائیں کے بجائے دائیں جانب یا سینے سے باہر ہوتا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ دس ہزار بچوں کو دل کے آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارے ہسپتالوں میں آپریشن کی سہولتوں اور گنجائش کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہاں صبح شام بھی آپریشن ہوں تو ایک سال میں پندرہ سو بچوں سے زیادہ آپریشن نہیں ہو سکتے‘ان میں سے ایک سے دو ہزار بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا آپریشن ملک میں ممکن ہی نہیں ہوتا‘ دوسرے لفظوں میں پانچ سے سات ہزار بچے ایسے ہوتے ہیں جو پرائیویٹ علاج نہیں کرا سکتے اور کئی کئی سال باری کا انتظار کرتے ہوئے موت کا جام پینے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ یہ بچے کہاں جائیں؟ یہ اس ملک کا اتنا بڑا مسئلہ اور اتنا بڑا المیہ ہے جو ہماری اور ہمارے حکمرانوں کی فوری توجہ چاہتا ہے۔ صرف دل کے آپریشنز ہی نہیں بلکہ ہر طرح کے آپریشنز کے لئے ہسپتالوں میں لمبی تاریخیں دی جاتی ہیں اور اگر وہی بندہ کہیں سے سفارش لے کر آ جائے تو اس کا آپریشن فوری کر دیا جاتا ہے ۔ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ انسانی جان اور انسانی حقوق سے زیادہ اہمیت کسی بھی چیز کی نہیں کہ جس ملک‘جس سرزمین پر انسانی جان اور خون ارزاں ہو جائے‘ جہاں علاج کے لئے سفارش اور پرچیاں ڈھونڈنا پڑیں وہاں ترقی کی باتیں کرنا اور خوشحالی کے خواب دیکھنا خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں!