ورلڈ فوڈ پروگرام اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے‘ جس کا مقصد دنیا بھر میں خوراک کی کمی کے شکار افراد اور علاقوں تک خوراک پہنچانا ہے۔ پروگرام کا مرکزی دفتر اٹلی کے شہر روم میں ہے۔ اس کا آغاز اٹھاون برس قبل سوڈان سے کیا گیا‘ جو اُس وقت قحط کے زیر اثر تھا۔ آہستہ آہستہ اس کا دائرہ کار دیگر ممالک تک پھیلتا چلا گیا۔ جنگوں سے متاثرہ علاقے ہوں‘ یا طوفان‘ زلزلے اور دیگر تباہ کاریوں سے متاثرہ علاقے‘ ورلڈ فوڈ پروگرام کی ٹیمیں متاثرہ جگہوں پر پہنچ کر بحران کو کم کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتی ہیں۔ اسے مختلف ممالک کی حکومتیں سرکاری طور پر فنڈنگ کرتی ہیں‘ اسی طرح دنیا کے متمول افراد‘ نجی ادارے اور گروپس اپنی اپنی بساط کے مطابق حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔ 2018ء میں اس پروگرام کی فنڈنگ سات اعشاریہ دو ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی جس میں ڈھائی ارب ڈالر امریکا نے دیے تھے جبکہ یورپی یونین نے ایک ارب ڈالر کا حصہ ڈالا تھا۔ پروگرام کے تحت صرف ایسے علاقوں میں امداد فراہم کی جاتی ہے جہاں ایمرجنسی نافذ ہو یا بہت زیادہ ضرورت ہو۔ یہ پروگرام اربوں ڈالر پر محیط ہے لیکن دنیا کے مسائل اور آبادی اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لئے اقوام متحدہ کو اکثر اوقات اپنے پروگرام میں کٹوتی کرنا پڑی۔ خاص طور پر عراق‘ شام‘ کویت اور افغانستان جیسے ممالک‘ جہاں لاکھوں کروڑوں افراد جنگوں کی زد میں آ کر ایک وقت کی روٹی کے محتاج ہو گئے‘ وہاں عالمی خوراک پروگرام بھی بے بس ہو گیا؛ تاہم یہ پروگرام اپنی استعداد کے مطابق کام کرتا رہا۔
گزشتہ دس ماہ سے پوری دنیا پر کورونا وائرس حملہ آور ہے۔ یہ حملہ ماضی میں عراق‘ شام اور افغانستان میں جنگی شورشوں سے کہیں بڑا اور وسیع تھا جس میں دو چار ممالک کے بجائے دنیا بھر کے ممالک متاثر ہوئے۔ ان میں امریکا بھی تھا‘ روس‘ برطانیہ اور چین بھی۔ یہ بڑے ملک تھے اس لئے یہ حملہ کسی طور برداشت کر گئے لیکن تیسری دنیا کے ممالک کے لئے یہ قیامت صغریٰ تھی جس میں لوگ نہ کام کاج پر جا سکتے تھے اور نہ ہی گھر سے نکل کر خوراک کی تلاش کا خطرہ مول لے سکتے تھے کیونکہ وائرس کی وجہ سے بیشتر ممالک میں لاک ڈائون نافذ تھا اور جو ڈونرز تھے وہ بھی محتاج اور مجبور نظر آ رہے تھے۔ بہت سے ڈونر حضرات اور خیراتی ادارے غریب طبقے کی بھوک مٹانے کیلئے باہر نکلنا چاہتے تھے لیکن حکومتی ایس او پیز کی وجہ سے وہ ایسا کرنے سے قاصر تھے۔ عالمی خوراک پروگرام‘ جس کا بجٹ پہلے ہی محدود تھا‘ نے کورونا لاک ڈائون کے دوران دنیا بھر کے ممالک‘ حکومتوں اور پوش طبقات سے خیرات میں اضافہ کرنے کی اپیل کی۔ اس لاک ڈائون کے دوران امریکا سے لے کر یورپ اور آسٹریلیا سے لے کر انٹارکٹکا تک لوگوں کو احساس ہو گیا کہ دنیا میں اگر کسی چیز کودولت کہہ سکتے ہیں تو وہ صحت ہے اور دوسرے نمبر پر خوراک۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کینیڈا جیسے ممالک‘ جہاں سال میں آٹھ ماہ برف پڑتی ہے اور جہاں سبزیاں اور پھل سونے کے دام بکتے ہیں‘ وہاں لاک ڈائون میں سب سے زیادہ خطرہ اگر کسی چیز سے تھا تو وہ بھوک اور فاقہ کشی تھی۔ کینیڈا زراعت کے لئے موزوں نہیں جبکہ پاکستان جیسے ممالک کے پاس قدرت کی یہ نعمت بکثرت موجود ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اس نعمت کا درست طور پر استعمال نہیں کر رہے۔ دوسری بات یہ کہ ہم خوراک کی قدر کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ ہمارے پاس اگر زیادہ ہے تو ہم ضائع بھی زیادہ کرتے ہیں۔ آج اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ہر شخص اللہ کی نعمتوں کو پائوں تلے مسلتا نظر آتا ہے۔ ہم لوگ صبح سے شام تک کام کرتے ہیں، کوئی نوکری کرتا ہے، کوئی کاروبار کرتا ہے اور کسی کو بغیر کچھ کئے ہی بہت کچھ مل جاتا ہے لیکن ہم سب میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے رزق کی بے قدری۔ آج ہم رزق کی حرمت کو بے دردی سے پامال کر رہے ہیں اور یہ کا م صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہو رہا ہے۔
برطانیہ جیسے ملک کو ہی دیکھ لیں۔ اکیلے برطانیہ میں ہر سال نو ملین ٹن کھانا ضائع کر دیا جاتا ہے جبکہ 1.2 ملین ٹن ایسا ہے جو پلیٹوں میں اسی طرح موجود رہتا ہے۔ اسی طرح آسٹریلیا میں ہر سال 5 ملین آلو، 28 لاکھ ٹماٹر، ڈبل روٹی کے 70 لاکھ سالم ٹکڑے، دہی کے 13 لاکھ بند ڈبے اور 82 ہزار کیک کوڑے کی نذر کر دیے جاتے ہیں۔ امریکا کو دیکھ لیجئے جہاں ہر سال 10 بلین ڈالر کی خوراک ضائع کر دی جاتی ہے‘ اتنی مقدار‘ جس سے 70 کروڑ بھوکے افراد پیٹ کی آگ بجھا سکتے ہیں۔ اب آپ پاکستان آئیں اور اپنا حال بھی دیکھ لیجئے۔ ہم شادیوں، دعوتوں اور آئوٹنگ میں بے تحاشا کھانا ضائع کرتے ہیں اور اگر اس دوران کوئی غریب، کوئی بھوکا، کوئی سائل ہم سے کھانا مانگ لے تو اُسے ہم جھاڑ پلا دیتے ہیں، ہم اسے ایک نوالہ تک دینے کو تیار نہیں ہوتے اور بعد میں بچا ہوا کھانا پلیٹوں میں چھوڑ کر اٹھ جاتے ہیں۔ البتہ پاکستان اور ان جدید ممالک میں ایک فرق ضرور ہے۔ ان ممالک میں ایسی کئی تنظیمیں اور ادارے بن چکے ہیں جو ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کا بچا ہوا کھانا ڈبوں میں پیک کرتے ہیں اور غریب لوگوں تک بھجوا دیتے ہیں لیکن اسلام کے نام لیوا ہم جیسے لوگ رزق کی حرمت کو صرف باتوں، لیکچرز اور کتابوں تک ہی محدود رکھنا چاہتے ہیں۔
ہر سال ماہِ رمضان میں بھی ہم اپنا اصل چہرہ دنیا کو دکھاتے ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جب ہمارے وزیر، سیاستدان ‘بیورو کریٹس اور امیر طبقہ‘ شاہی قسم کی افطار پارٹیاں ارینج کرتا ہے اور ان شاہی پارٹیوں کے میزبان اور مہمان زیادہ تر روزہ خور ہوتے ہیں۔ افطاری کروانا ثواب کا کام ہے لیکن جب ایک ایک افطاری پر لاکھوں روپیہ خرچ کر دیا جائے، جب سب کچھ دکھاوے کیلئے کیا جائے، جب درجنوں ڈشز کو چھوا ہی نہ جائے اور جب بہت سا کھانا پلیٹوں میں ہی ضائع ہو جائے تو یہ روزے کے ساتھ انصاف نہیں‘ یہ اُن غریبوں کے ساتھ بھی انصاف نہیں جو افطاری کیلئے ایک کھجور، ایک سموسہ اور ایک گلاس شربت بھی افورڈ نہیں کر سکتے۔ ہم لوگ عام طور پر اپنا چلن تبدیل نہیں کرتے‘ یہی وجہ ہے کہ جب ہم پر مصیبتیں آتی ہیں اور ہم طرح طرح کی آزمائشوں کا شکار ہوتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ ہماری مصیبت، ہمارے مسئلے کی وجہ کیا ہے اور ہم اس حال کو کیونکر پہنچے۔
اس مرتبہ امن کا نوبیل ایوارڈ ورلڈ فوڈ پروگرام کو دیا گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ انعام ہر اس ادارے اور شخص میں تقسیم کر دینا چاہیے جو دنیا میں کہیں بھی لوگوں کی بھوک مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھوک (غربت) انسان کو کفر تک لے جاتی ہے‘ یہ بھوک ہی ہے جو مائوں کو بچوں سمیت خودکشیاں کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اور یہ بھوک ہی ہے جو انسان کو بڑے سے بڑا جرم کرنے پر اُکساتی ہے۔ دوسروں کو کھانا کھلانا بہت ثواب کا کام ہے‘ جس انسان کا پیٹ بھرا ہو اس کا دماغ منفی کاموں کی جانب راغب نہیں ہوتا۔ اقوام متحدہ تو اپنا کام کر رہی ہے لیکن بحیثیت مسلمان ہمارے بھی کچھ فرائض ہیں۔ مسلمان ممالک اگر مل کر کوئی ایسا پروگرام نہیں شروع کر سکتے تو کم از کم اپنے اپنے ملکوں میں دو وقت کی روٹی مہیا کرنے کیلئے ہی کوئی پروگرام شروع کر دیں۔
پنجاب میں گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ نے لنگر خانوں کا افتتاح کیا۔ بہت سے لوگ اسے تنقید کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج غریب سفید پوش طبقے کیلئے اپنے بچوں کو کھانا کھلانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ایسے میں یہ چھوٹی بڑی تنظیمیں اور لنگر بہت سے گھرانوں کے پیٹ کا دوزخ بھرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے ایسے رشتہ داروں کی خفیہ یا اعلانیہ مدد کرنا شروع کر دیں جو کسی وجہ سے بیروزگاری‘ بیماری اور غربت کا شکار ہیں۔ ہمارے ہمسائے میں کوئی بھوکا یا بیمار ہے تو اس کا حساب ہم سے مانگا جائے گا، اس لئے جو کام عالمی اداروں کے کرنا کا ہے‘ وہ انہیں کرنے دیں اور جو ہم خود کر سکتے ہیں‘ وہ ہمیں آج سے ہی شروع کرنا چاہیے، شاید آج کسی مسکین‘ کسی یتیم کو کھلائی گئی چند روٹیاں آخرت میں ہمارے دائیں پلڑے کو بھاری کرنے کا باعث بن جائیں۔