امریکا انہونیوں کا ملک ہے‘ یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر 77 برس کی عمر میں ایک بوڑھا شخص دنیا کے طاقتور ترین ملک کا صدر بن سکتا ہے تو پھر واقعی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔باقی دنیا کے لئے یہ حیرانی کی بات ہے کہ جب بوڑھے افراد اس عمر میں اپنی بیماریوں اور کمزوریوں سے لڑ رہے ہوتے ہیں‘ امریکا میں جوبائیڈن صدر کی کرسی پر جا بیٹھتا ہے‘ یہ صرف امریکا میں ہی ہو سکتا ہے۔ شاید یہاں کوئی بھی‘ کبھی بھی ‘کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ہر شخص کو یہاں آگے بڑھنے کے مواقع ملتے ہیں۔ پاکستان کی طرح نہیں کہ جہاں میرٹ کی پروا ہی نہیں کی جاتی اور اچھا خاصا ذہین اور تجربہ کار شخص اپنی منزل کے قریب پہنچ کر بھی اسے حاصل نہیں کر پاتا کیونکہ وہ دھوکے بازیاں‘ لابنگ‘ رشوت‘ سفارش اور بے ایمانی کے اسرار و رموز کو نہیں جانتا، اس کے برعکس آرنلڈ شوازنیگر جیسا نوجوان آسٹریا کے ایک گائوں سے اٹھتا ہے اور امریکا پہنچ کر دنیا کا بہترین تن ساز‘ ٹیکساس کا گورنر اور ہالی ووڈ کا مہنگا ترین ادا کار بن جاتا ہے۔ امریکا میں ایسی شاید سینکڑوں یا ہزاروں مثالیں ہوں گی۔ امریکا سب کو مواقع دیتا ہے۔ کیوں دیتا ہے کیونکہ یہاں کا نظام ہی ایسا ہے جو ہر قسم کے لوگوں کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جو بائیڈن کو دیکھ کر ثابت ہوا یہاں نوجوانوں کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے‘ جتنی بوڑھوں کی۔ یہاں بزرگوں کو ساٹھ سال کی عمر کے بعد بے کار پرزہ سمجھ کر بستر پر نہیں پھینک دیا جاتا۔ اگر ایسا ہوتا تو بائیڈن کسی ہسپتال میں کب کا مر کھپ چکا ہوتا۔ ویسے بھی اس کے ساتھ زندگی میں جتنے ذاتی سانحے پیش آ چکے ہیں‘ وہ اسے بستر پر ڈالنے کے لئے کافی تھے۔ ساری بات حوصلے اور ہمت کی ہے۔ ہمارے ساتھ یہاں کوئی چھوٹا موٹا مسئلہ ہو جائے تو ہم اسے زندگی کا روگ بنا لیتے ہیں۔ جو بائیڈن نے مگر بڑی ہمت دکھائی ہے۔ اب جب وہ امریکا کے صدر منتخب ہوچکے ہیں تو ان کی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں اور کم ہمت لوگوں کی ہمت میں اضافہ کر رہی ہیں۔
جوبائیڈن 20 نومبر 1942ء کو ریاست پینسلوینیا کے قصبے سکرینٹن میں ایک محنت کش کے ہاں پیدا ہوئے، اُن کے والد جوزف بائیڈن بھٹیوں کی چمنیاں صاف کرنے کا کام کرتے تھے جبکہ والدہ روایتی مسیحی خاتون تھیں۔جوبائیڈن بچپن میں ہکلا کر بولتے تھے اور اپنا نام 'بائی، بائی‘ کر کے بتاتے تھے جس کی وجہ سے اُن کا نام یہی پڑ گیا تھا۔ 1972ء میں جوبائیڈن سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے تو گاڑی کے حادثے میں اُن کی صاحبزادی اور اہلیہ جاں بحق ہوگئے جبکہ 2015ء میں جب وہ نائب صدر تھے‘ دماغ کے کینسر سے لڑنے والے ان کے بیٹے کی موت بھی ہوگئی۔ یہ دونوں اتنے بڑے حادثے تھے جو انہیں معاشرے سے تنہا کر سکتے تھے لیکن انہوں نے دونوں مرتبہ خود کو سنبھالا اور قومی سیاست میں خود کو فعال کر کے مصروف کر لیا۔
جب بھی امریکا میں کوئی شخص صدر بنتا ہے‘ پاکستانی سیاست میں اس قسم کے سوالات اٹھنے لگتے ہیں کہ نومنتخب صدر پاکستان کے لئے کتنے مفید ثابت ہوں گے یا اب پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بہتری آئے گی یا نہیں۔ بلاوجہ نئے امریکی صدر کو پاکستان کا دوست بنانے کے لئے تانے بانے ملانا شروع کر دیے جاتے ہیں۔جب براک حسین اوباما امریکی صدر منتخب ہوئے تھے ‘ تب بھی پاکستانی عوام اور میڈیا بلاوجہ انہیں اپنا محسن اور گمشدہ رشتے دار بنانے میں لگ گئے تھے۔ کبھی ان کی دادی تو کبھی پڑنانی کو پاکستان کے علاقوں میں پلتے بڑھتے دکھایا گیا چونکہ ان کا نام مسلمانوں والا تھا تو مسلم دنیا یہ سوچ کر خوش ہو گئی کہ اب مسلمانوں کی کم بختی میں کمی آئے گی اور یہ جو امریکا کو آدھی رات کو مسلمان ممالک پر چڑھ دوڑنے کا کیڑا لڑتا ہے‘ وہ بھی مر جائے گا۔ لیکن جب اوباما نے اپنا آپ دکھایا تو سب کی چیخیں نکل گئیں۔ اوباما سابق صدور سے کہیں زیادہ تشدد پسند اور جنگجو ثابت ہوا اور ظاہر ہے اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ خود یہ چاہتا تھا بلکہ سب جانتے ہیں کہ امریکا میں ریاستی پالیسی کے سامنے سب کو جھکنا پڑتا ہے‘ یہ پالیسی کوئی ایک جماعت یا ایک گروہ بیٹھ کر نہیں بناتا‘ البتہ اس میں یہودیوں کا عمل دخل زیادہ ضرور ہے لیکن تنہا وہ بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ نائن الیون کے بعد بش نے جب افغانستان پر حملے کا اعلان کیا اور پوری دنیا کو اپنے ساتھ ملا لیا تو پاکستان پر بھی ساتھ دینے کے لئے کافی دبائو ڈالا گیا۔ پاکستان نے ساتھ تو دے دیا لیکن اس کی بھاری جانی اور مالی قیمت بھی چکائی۔ بات یہاں تک رہتی تو بھی سمجھ آتی تھی لیکن ساتھ ہی امریکا نے پاکستان میں ڈرون حملے شروع کر دیے۔ صدر بش کے بعد جب پاکستانیوں کے پسندیدہ‘ اوباما صاحب صدر بنے تو پاکستان یا پاکستانیوں کا خیال تھا کہ شاید اب ڈرون حملے کم ہو جائیں گے لیکن صدقے جائیں اس مسلم نام والے صدر اوباما پر جس کے دور میں پاکستان کو صدر بش کے دور کے مقابلے میں سات گنا زیادہ مرتبہ ڈرون طیاروں کی مدد سے نشانہ بنایا گیا اور ایک سال میں حملوں کی تعداد 370 تک جا پہنچ تھی۔
آج جوبائیڈن صدر بنے ہیں تو پھر سے پاکستان کے کچھ طبقے اسے پاکستان کا ہمدرد ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ جوبائیڈن جب نائب صدر بنے تھے تو سابق صدر زرداری سے ملے تھے ‘ اب اُن کے ساتھ اِن کی تصاویر یوں دوبارہ چلائی جا رہی ہیں جیسے اب اگر پاکستان پر برا وقت آیا تو زرداری صاحب ایک فون کر کے جوبائیڈن سے پاکستان کا سارا قرض معاف کروا لیں گے۔ یہ سب خواب و خیال میں آنے والے وہ واہمے ہیں جو ہمیں ہمیشہ سے لاحق رہے ہیں۔ امریکا کے لیے پاکستان کی اہمیت جیوپولیٹکل اور جغرافیائی صورتحال کے حساب سے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ کوئی بھی ملک کسی کے لئے اہم یا غیر اہم تب ہوتا ہے جب وہ اس کی ضرورت بنتا ہے۔ افغانستان میں جنگ میں کامیابی کے لئے امریکا کو پاکستان کی ضرورت تھی‘ دوسری وجہ چین ہے۔ پاکستان اور چین کے مضبوط تعلقات اس کے لئے فائدہ مند نہیں ہیں کیونکہ اس طرح اس کا دوست ملک بھارت کمزور پڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سی پیک جیسے منصوبے کو داغدار کرنے کے لئے بھارتی ایجنسیاں خاص طور پر بلوچستان میں متحرک رہتی ہیں اور امریکا کو اس سے زیادہ پاکستان سے کوئی دلچسپی نہیں۔ پاکستان اور امریکا کی باہمی ٹریڈ محض چھ ارب ڈالر سالانہ ہے جبکہ بھارت اور امریکا کی سالانہ تجارت ستر ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ امریکا کی تقریباً تمام ٹاپ کمپنیوں کے دفاتر اور کاروبار بھارت میں ہیں جبکہ پاکستان میں ابھی تک ایمازون‘ پے پال‘ فیس بک اور گوگل جیسی کمپنیوں کی نمائندگی تک موجود نہیں۔ان حقائق کو دیکھا جائے تو امریکا میں کوئی بھی صدر بنے‘ پاکستان کو اس سے خاص فرق نہیں پڑے گا بلکہ بعض اوقات تو معاملہ توقعات کے برعکس ہی ہوتا ہے جیسا صدر ٹرمپ کے وقت ہوا۔ وہ صدر بنے تو ان کی عجیب و غریب حرکتوں کی وڈیوز چلائی گئیں‘ ان کے افیئرز منظر عام پر لائے گئے اور انہیں مسلمان اور پاکستان دشمن گردانا گیا لیکن ان کے دور میں ہی بالآخر پاکستان میں ڈرون حملے ختم ہوئے۔ وہ امریکا کے امیر ترین بزنس مین تھے لیکن مخالف لابی انہیں ایک نااہل حکمران گردانتی رہی۔ اس کے باوجود وہ امریکا کے صدر رہے‘ انہیں امریکیوں نے برداشت کیا اور انہوں نے اپنی مدتِ اقتدار پوری کی۔آج جوبائیڈن صدر منتخب ہوئے ہیں تو توقعات کا پھر ایک نیا سیلاب اُمڈ آیا ہے۔ فلاں وقت بائیڈن نے پاکستان سے متعلق فلاں بات کی تھی‘ وہ مسلمان لابی کو پسند کرتے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سوچ سوچ کر پاکستانی اور دیگر مسلمان دل کو تسلیاں دینے لگے ہیں۔ فکر نہ کریں‘کچھ دیر‘ کچھ ماہ ٹھہر جائیں‘ یہ مہربان بزرگ امریکا میں مسلم کمیونٹی‘پاکستان اور مسلم ممالک کے ساتھ کیا کرتے ہیں‘ سب کچھ کھل کر سامنے آ جائے گا۔اگرچہ امریکا جیسے ملک میں انہونیاں ضرور ہوتی ہیں لیکن کسی امریکی صدر سے پاکستان کے لئے کسی انہونی کی امید لگانا خالص بیوقوفی ہی کہلائے گا۔