میرے خیال میں اب تعلیمی سال اگست سے شروع کرنے پر غور ہونا چاہیے کیونکہ دو ہزار بیس تو سارا کورونا کی نذر ہو چکا۔ چھ ماہ تعلیمی ادارے بند رہے۔ کھلے تو ہفتے میں صرف دو دن کلاسیں! ان میں پچھلا نصاب پڑھا جائے یا اگلا ‘سمجھ نہیں آ رہی۔ نقصان تو طالب علموں کو ہو گا۔ پہلے ہی ہمارا نظام تعلیم سلیکٹو نوعیت کا ہے۔ اوپر سے اساتذہ اور بعض سکول خود سے نصاب کم کر دیتے ہیں۔ بچوں کی بھی کوشش ہوتی ہے اتنا ہی پڑھا جائے جتنا امتحان میں آنا ہے، حالانکہ امتحان کے نمبر اتنے اہم نہیں ہوتے جتنا دلجمعی کے ساتھ پڑھائی کرنا۔ اور اصل پڑھائی وہ ہوتی ہے جو بعد میں یاد بھی رہے نہ کہ اِدھر امتحان ختم ہو‘ اُدھر دماغ سے سارا ڈیٹا ڈیلیٹ کر دیا جائے۔ بچوں کو اس طرح پڑھنا چاہیے کہ انہیں یہ سب کسی کو پڑھانا ہے‘ تبھی وہ چیزوں کو یاد رکھیں گے۔ بات پھر نظامِ تعلیم پر آتی ہے۔ ہر بچے کو اگر بلیک بورڈ پر آنے کا موقع دیا جائے بلکہ مہینے میں چند پیریڈ پڑھانا لازمی قرار دیا جائے تو وہ چیزوں کو یاد رکھنا شروع کر دیں گے۔ پریزنٹیشن کے مواقع بھی بڑھائے جانے چاہئیں۔ بچوں نے ساری عمر بنچوں پر نہیں بیٹھے رہنا۔ زندگی میں چیزوں کو فیس کرنا ہے‘ دنیا کے سامنے آنا ہے اور لوگوں سے بات چیت کرنا ہے۔ کلاس رومز میں تو بچے صبح حاضری میں یس سر‘ یس مس کہہ کر سمجھتے ہیں کہ اس سے زیادہ بولنے کی ضروری نہیں لیکن عملی زندگی میں یس‘ نو سے کام نہیں چلنا بلکہ اس سے آگے بڑھنا اور بولنا پڑتا ہے۔دنیا کی چالاکیوں کو سمجھنے‘ اپنی بات سمجھانے اور اپنا کام بہتر انداز میں کرنے کے گُر جب تک نہیں آئیں گے‘ محض پڑھائیوں اور رٹے مارنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
گزشتہ آٹھ دس ماہ میں تو طلبہ تعلیمی اداروں سے بھی دُور ہو گئے ‘ جو طلبہ آن لائن تعلیم سے منسلک رہے ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں کیونکہ سب سکولوں اور ان میں زیرتعلیم بچوں کے پاس آن لائن تعلیم حاصل کرنے کے وسائل نہیں۔جہاں آن لائن تعلیم دی گئی وہاں بھی بچوں کی بڑی تعداد نے وقت گزاری ہی کی؛ البتہ جن بچوں نے آن لائن ایجوکیشن کو سیریس لیا‘ وہ بہت آگے جائیں گے کیونکہ اب ہر چیز آن لائن ہو چکی ہے۔ اشیائے ضروریہ سے لے کر ڈاکٹرز تک‘ سب کچھ آن لائن میسر ہے۔ کورونا کی وجہ سے لوگ ہسپتال اور کلینکس جانے کے بجائے ڈاکٹرز کو وٹس ایپ اور زوم وغیرہ پر دکھاتے رہے اور ڈاکٹرز نے بھی کوئی لحاظ نہیں کیا اور آن لائن چیک اپ کی بھی تین تین ہزار فیس وصول کرتے رہے حالانکہ فیس کم بھی کی جا سکتی تھی کیونکہ اس کے لئے ڈاکٹرز کا کلینک میں ہونا ضروری نہیں بلکہ وہ گھر سے یہ فریضہ سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔خیر‘ ڈاکٹروں کو کچھ کہہ کر ناراض نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس وقت انہی کی دنیا بھر میں سب سے زیادہ اہمیت اور مانگ ہے اور برطانیہ‘ سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں ڈاکٹرزاور طبی عملے کو بھاری تنخواہیں اور فوری امیگریشن آفر کی جا رہی ہیں۔ شکر ہے ان کے حصے کا کام کوئی اور نہیں کر سکتا وگرنہ ہر کوئی ڈاکٹربن کر یوٹیوب پر لوگوں کا علاج شروع کر دیتا۔
بیرونی ممالک میں طبی عملے کی ضرورت وہاں کے طبی نظام پر کورونا کی وجہ سے بڑھتے دبائو کی وجہ سے ہے۔ امریکا میں دوسری لہر میں ڈیڑھ لاکھ اور برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں چالیس‘ پچاس ہزار کیس روزانہ آ رہے ہیں۔بھارت تو پہلی لہر سے ہی ابھی تک نہیں نکل پایا۔ اس کے کیس ایک لاکھ روزانہ تک گئے اور اب بھی چالیس‘ پچاس ہزار یومیہ تک برقرار ہیں۔ وہاں 'ڈنڈے والا‘ لاک ڈائون بھی کیا گیا لیکن عوام باز آئے نہ حکومت عوام اور معیشت کو سنبھال پائی۔ اتنی بڑی تعداد میں کیس پازیٹو ہوں تو ہسپتال آنے والوں کی تعداد بھی لامحالہ بڑھ جاتی ہے۔پاکستان سے اگر ڈاکٹرز اور دیگر عملہ باہر چلا گیا تو یہاں کون پرسانِ حال ہو گا‘ اس کا اندازہ ہمارے طبی نظام کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ شہری علاقوں میں تو پھر کچھ سہولتیں میسر ہیں لیکن دیہات اور دور دراز کے علاقوں میں ڈاکٹر ز کم ہی جانا پسند کرتے ہیں۔ اسی لئے مقامی طورپر خودساختہ ''ڈاکٹرز‘‘ پیدا ہو جاتے ہیں جو علاج کے نام پر مریضوں کو اگلے جہاں روانہ کردیتے ہیں۔
تعلیمی سال کے حوالے سے شاید اگلے ہفتے یہ فیصلہ ہو جائے ،گرمیوں کی چھٹیاں ایک ماہ کرنے کا بھی امکان ہے۔یہ سب کرنا ہی پڑے گا کیونکہ اگر بچوں کے اس سال کے تعلیمی دن شمار کیے جائیں تو وہ شاید چالیس پچاس بھی نہ بنیں۔ بغیر پڑھے پڑھائے اگر اگلی جماعتوں میں پروموٹ کر دیا گیا تو اس سے طلبہ پر یکدم بوجھ آ جائے گا ۔ پہلی چیزیں ان کے پلّے نہ پڑی ہوں اور اگلی کلاس کا بھاری بھرکم نصاب ان پر مسلط ہو جائے گا تو وہ دبائو کا شکار ہو جائیں گے۔ میری رائے میں اگست میں تعلیمی سال شروع کرنا زیادہ بہتر ہے اور اس کے لئے ابھی دو سے تین ماہ کی چھٹیاں دینے میں کوئی ہرج نہیں کیونکہ تعلیم تبھی حاصل ہو گی جب صحت اور جان ہو گی۔
سکولوں کالجوں میں کورونا کیسز کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ دنوں شادمان میں ایک سکول کی پرنسپل بھی کورونا کے باعث دم توڑ گئیں۔ ایک ٹی وی اینکر بھی دو تین روز قبل کورونا کا شکار ہوئے۔ اس طرح کی خبریں متواتر آ رہی ہیں اور ان میں پہلے سے زیادہ شدت ہے۔ اس کی وجہ سردی اور سموگ بھی ہے اور دوسری وجہ کورونا کی شکل تبدیل ہونا۔مریضوں میں جو علامات پہلے آتی تھیں‘ اب اس سے کچھ علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔بعض اوقات یہ کورونا ہوتا ہے اور لوگ سادہ بخار سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں اور وہ احتیاط نہیں کرتے جو کورونا میں کرنا چاہئیں‘ مثلاً بھاپ اور گرم پانی کا زیادہ استعمال۔ سب مانتے ہیں کہ بچے ایسی احتیاط نہیں کرتے جیسے بڑے کر سکتے ہیں ۔ کراچی کے حالات یہ ہیں کہ وہاں تقریباً تمام ہسپتال فُل کپیسٹی پر چلے گئے ہیں۔ دمے اور سانس کے مریض بھی ہسپتالوں پر بوجھ بڑھنے کی ایک وجہ ہیں۔ عجیب صورتِ حال ہے! شادی ہال والے بات سننے کو تیارہیں نہ تاجر بازار بند کرنے پر آمادہ ہیں۔ حتیٰ کہ شام آٹھ بجے دکانیں بند کرنے پر بھی وہ تیار نہیں۔ دنیا بھر میں کہاں ایسا ہوتا ہے؟ یورپ‘ امریکا کہیں بھی چلے جائیں دکانیں شام پانچ‘ چھ بجے بند ہو ۔ جس نے شاپنگ کرنی ہے شام سے پہلے تک کر لے۔ رات کو بجلی بھی مہنگی ہوتی ہے اور رات گئے تک بازار کھولنے سے سوشل لائف بھی متاثر ہوتی ہے‘ اسی لئے جدید ممالک ایسا کرتے ہیں۔ یہاں پر تاجر چوبیس گھنٹے دکانیں کھلی رکھنا چاہتے ہیں ۔ چلیں کھول لیں لیکن کم از کم ایسے گاہکوں کو تو نہ ڈیل کریں جو بغیر ماسک کے آتے ہیں۔کون مگر اپنے منافع پر لات مارتا ہے؟ اب تو جو حالات ہیں سب جدھر سے جو ملے ‘ سب سمیٹنے میں لگے ہیں کہ کوئی پتا نہیں کل کیا ہو جائے۔ اُدھر ویکسین کی خبریں آنے لگ گئی ہیں لیکن یہ ساری ٹرائل فیز میں ہیں۔ ایک سال سے پہلے کچھ بھی نہیں آنے والا۔ آ بھی گیا تو چونکہ سب کو ویکسین لگوانی ہے تو کتنوں کو ملے گی اور کتنے افورڈ کر پائیں گے‘ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس وقت معیشت بچانا بھی اہم ہے لیکن چند ماہ کیلئے دوبارہ مکمل لاک ڈائون کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نظر نہیں آ رہا۔جس طرح پہلی لہر سے نکلنے کے بعد معیشت میں تیزی اور استحکام آ گیا تھا‘ ایکسپورٹ آرڈر ‘ صنعتی پیداوار اور زرمبادلہ بڑھ گیا تھا‘دوسری لہر اور دوسرے لاک ڈائون کے بعد بھی حالات دوبارہ بہتر ہو جائیں گے‘ بس گھبرانا نہیں!