امریکا نے پاکستان کو کورونا ویکسین دینے سے انکار کیا ہے تو اس میں تکلیف کس بات کی؟ ویکسین امریکا نے بنائی ہے‘ وہ جس کو چاہے دے۔ ویسے بھی سب سے زیادہ وہ خود اس عذاب میں مبتلا ہے۔ ڈھائی لاکھ امریکی کورونا سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری لہر میں بھی روزانہ ایک‘ ڈیڑھ لاکھ نئے مریض سامنے آ رہے ہیں اور ایک ہزار یومیہ ہلاکتیں شروع ہو چکی ہیں تو امریکا اپنے عوام کو پہلے ویکسین دے یا ہمیں۔ امریکا میں بھی یہ ویکسین سب سے پہلے فوج‘ ڈاکٹرز‘ پولیس اور دیگر اہم اداروں کو ملے گی جو لاکھوں‘ کروڑوں لوگوں کی حفاظت پر فرنٹ لائن پر مامور ہیں۔ دوسری جانب ہم ہیں جو امریکا کی شہریت بھی لینا چاہتے ہیں‘ امریکا سے قرضے اور امدادیں بھی لیتے ہیں اور امریکا سے فائدہ نہ ملے تو امریکا کو برا بھلا کہنا شروع ہو جاتے ہیں۔
ویکسین بنانا اتنا ہی آسان ہے تو ہم خود کیوں نہیں بنا لیتے؟ امریکا نے ہمارے ہر مسئلے کا ٹھیکا تو نہیں لے رکھا۔ کیا ہم صرف ٹک ٹاکرز اور عوام کو خواب دکھانے والے سیاستدان ہی پیدا کر سکتے ہیں؟ جہاں سائنس اور ترقی کی بات آتی ہے‘ جہاں ہماری معیشت کا سانس ڈولنے لگتا ہے اور جہاں خطرناک بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں‘ ہمیں امریکا یاد آ جاتا ہے۔ دنیا میں پچاس سے زائد مسلم ممالک ہیں‘ یہ سب کیا کر رہے ہیں۔ یہ تو فرانس والے معاملے پر ابھی تک اکٹھے نہیں ہو سکے‘ تو کورونا کا کیا مقابلہ کریں گے۔ چلیں! خلیجی ممالک کے پاس تو پیسہ ہے‘ وہ تیل بیچ کے ویکسین خرید لیں گے‘ ہمارے جیسے ملک کیا کریں گے؟ پچاس سے زائد مسلم ممالک ہیں‘ ان میں سے بعض خاصے ترقی یافتہ ہیں لیکن کسی ایک کی جانب سے بھی ویکسین بنائے جانے کی خبر سامنے نہیں آئی۔ برطانیہ اور امریکا کی ویکسین نوے سے پچانوے فیصد تک کارآمد بتائی جا رہی ہیں۔ دنیا کی ڈیڑھ سو کمپنیاں کورونا ویکسین پر کام کر رہی ہیں۔ چین کی ویکسین کے پاکستان میں بھی ٹرائلز جاری ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مسلم ورلڈ اس موقع پر کہاں کھڑی ہے؟ خلیجی ممالک اربوں‘ کھربوں کا تیل بیچتے ہیں تو پھر یہ پیسہ تحقیق اور سائنس پر کیوں نہیں لگاتے اور لگاتے ہیں تو اس کے نتائج کیوں سامنے نہیں آتے؟ کورونا وائرس نے جہاں دنیا کی دیگر حقیقتوں کو آشکار کر دیا ہے وہاں مسلم ممالک کا پول بھی کھول کر رکھ دیا ہے۔ ان کی بے چارگی کا عالم یہ ہے کہ سب یورپ اور امریکا کو ترسی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کب ویکسین بنے اور کب ان تک پہنچے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ بیماری کسی خاص ملک یا علاقے میں پھیلی ہوتی تو بات اور تھی۔
دنیا کی آبادی ساڑھے سات ارب سے بڑھ چکی ہے‘ اب کوئی جادو تو ہو نہیں سکتا کہ ساڑھے سات ارب کی تعداد میں ویکسین کی تیاری‘ سٹوریج اور فراہمی چند دنوں یا ہفتوں میں ہو جائے اور سب تک پہنچ بھی جائے۔ برطانیہ والی ویکسین منفی اسّی ڈگری سے کم درجہ حرارت پر ہی کارآمد رہتی ہے۔ اس لئے برطانیہ سے دور اور گرم ممالک تو بھول جائیں کہ یہ ویکسین ان کے کام آئے گی؛ البتہ چین اور امریکا کی ویکسین کا درجہ حرارت سے کچھ زیادہ تعلق نہیں لیکن ان کے ٹرائلز اور پیداوار میں ابھی وقت لگے گا۔ پھر چین کی اپنی آبادی بھی ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہے۔ بھارت بھی کورونا سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے اور یہ پاکستان کی نسبت امریکا کے زیادہ قریب ہے۔ امریکی کمپنیوں نے بھارت میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے‘ بھارت کے اسرائیل سے بھی گہرے روابط ہیں اور یوں وہ امریکا میں یہودی لابی کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ اس لئے امریکا کی ویکسین اگر ملی تو پاکستان سے پہلے بھارت کو ملے گی لیکن امریکا کتنی تعداد میں ویکسین دے سکے گا اور کتنے وقت میں‘ یہ سب اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جا رہا ہے۔ پھر عالمی ادارۂ صحت کا ایک اہم بیان سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا ویکسین سے بہت زیادہ امیدیں نہ لگائے کہ ویکسین اس مسئلے کا سو فیصد حل نہیں ہے۔ ویکسینیشن کے بعد بھی لوگوں کو ایس او پیز پر عمل کرنا پڑے گا اور ذرا سی بے احتیاطی ان کے لئے دوبارہ نقصان کا باعث ہن سکتی ہے۔ اس بیان کے بعد تو یہ ثابت ہو جاتا ہے دنیا اب چند سال پہلے والی دنیا نہیں بن سکے گی۔ نہ سیاحت پوری طرح بحال ہو سکے گی اور نہ ہی ایسے دیگر شعبے‘ جو بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ بہت سی چیزوں کی قدر کم ہو جائے گی اور کچھ شعبوں کی بہت زیادہ ہو جائے گی، مثلاً فارما انڈسٹری‘ انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز‘ آن لائن شاپنگ‘ طبی آلات‘ خوراک اور کورونا سے بچائو سے متعلقہ ہر چیز کی اہمیت کئی سو گنا بڑھ جائے گی۔ جدید ممالک کی حکومتیں اپنا زیادہ پیسہ تحقیق اور بیماریوں سے بچائو پر لگانا شروع کر دیں گی اور صحت مند فضا لوگوں کے لئے سب سے بڑی نعمت بن جائے گی۔ پاکستان جیسے ممالک شاید پھر بھی تبدیل نہیں ہو سکیں گے۔
جہاں تک تعلیمی اداروں اور شادی ہالز وغیرہ کی بندش کی بات ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جہاں بھی لوگوں کا اکٹھ ہو گا‘ وہاں سے اس وبا کے پھیلنے کے خدشات ہیں، چاہے وہ شادی ہالز ہو‘ بازار ہوں‘ سکول یا جلسے جلوس۔ پہلی لہر کے دوران سردیاں اور سموگ نہیں تھیں‘ اس کے باوجود حکومت نے سخت لاک ڈائون نافذ کیا اور نقصان قدرے کم ہوا اور ہم کسی حد تک معیشت بچانے میں کامیاب رہے لیکن اب تو سردیاں اور سموگ بھی ہیں اور وبا کی دوسری لہر کے بارے میں ویسے بھی اندازہ ہے کہ یہ زیادہ خطرناک ہو گی۔ دوسری طرف عوام احتیاط کرنے اور ماسک تک پہننے کو تیار نہیں۔ جیسا کہ دکھائی دے رہا ہے‘ دو تین ہفتے بعد کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد خدانخواستہ کئی گنا بڑھ جائے گی اور ہسپتالوں پر شدید دبائو آ جائے گا۔ اگر لوگوں کو ہسپتالوں میں بیڈز نہیں ملتے‘ بازار سے بخار کی ادویات تک شارٹ ہو جاتی ہیں تو عوام نے حکومت کو برا بھلا کہنا شروع کر دینا ہے اور وڈیوز سامنے آئیں گی کہ عوام ہسپتالوں کے فرشوں پر بے یار و مددگار پڑے علاج کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ میڈیا پر پرائم ٹائم اور دیگر اوقات میں زیادہ سے زیادہ احتیاط کے پیغامات چلائے جائیں کہ یہ وقت حالت جنگ کا وقت ہے اور حالت جنگ میں روایتی نہیں بلکہ ہنگامی اقدامات کئے جاتے ہیں۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ لوگوں کے لئے کورونا صرف ایک خبر ہے کہ اتنے مر گئے‘ اتنے متاثر ہو گئے لیکن جس کے ساتھ بیتتا ہے‘ اس گھرانے کی دنیا ہی اندھیر ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگ اس وقت زیادہ خطرناک ہیں جو ہرڈ امیون بن چکے ہیں یعنی جن میں کورونا وائرس داخل ہوا لیکن ان میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئیں‘ ایسے لوگ اگر بغیر ماسک کے رہتے ہیں تو ان کے ذریعے کورونا بزرگوں اور دیگر افراد میں منتقل ہو گا اور جن کا امیون سسٹم تھوڑا سا بھی کمزور ہو‘ وہ قابو آ جاتے ہیں۔ یہ ساری وہ باتیں ہیں جو ہم گزشتہ آٹھ دس ماہ سے سن رہے ہیں لیکن جب تک بار بار انہیں دہرایا نہ جائے‘ ہم خود بھی عمل کرنا کم کر دیتے ہیں۔ اگر بڑے نقصان سے بچنا ہے تو مکمل لاک ڈائون کرنا چاہیے اور فوری طور پر تعلیمی ادارے تین ماہ کے لئے بند کر دینا چاہئیں کیونکہ بچوں کو اگر کورونا نہیں ہوتا تو وہ کورونا وائرس پھیلانے کا موجب بن سکتے ہیں جبکہ ڈاکٹر جاوید اکرم نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ انکشاف کر کے رونگٹے کھڑے کر دیے ہیں بچوں کو بھی کورونا ہوتا ہے اور چلڈرن ہسپتال میں کئی بچوں کی کورونا سے اموات بھی ہو چکی ہیں‘ اس کے بعد بھی ہم حکومت کی ہدایات پر عمل نہ کریں اور انہیں مذاق سمجھیں تو ہم بچتے ہیں یا نہیں‘ ہماری قسمت۔